معاہدے کے تحت ٹی ایل پی کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت
اسلام آباد: کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کا پرتشدد احتجاج ختم کرنے کے لیے کیے گئے معاہدے کے تحت حکومت اس کے 2 ہزار سے زائد کارکنان کو رہا کرنے اور انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے پر رضامند ہوگئی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اس کے بدلے میں ٹی ایل پی نے تشدد کی سیاست ختم کرنے اور گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا مطالبہ واپس لینے پر اتفاق کیا ہے۔
رواں برس اپریل میں حکومت نے ٹی ایل پی کے پرتشدد مظاہروں کے باعث اس پر پابندی لگادی تھی اور اسے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس کے سربراہ سعد رضوی کو گرفتار کرلیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت پنجاب نے معاہدے کے بعد ٹی ایل پی کے 800 سے زائد کارکن رہا کردیے
حکومت اور ٹی ایل پی نے اتوار کے روز اعلان کیا تھا کہ ان کے درمیان تصادم ختم کرنے میں مدد دینے کے لیے سمجھوتہ ہوگیا ہے لیکن دونوں ہی فریقین نے کوئی تفصیلات دینے سے انکار کردیا تھا۔
ٹی ایل پی کی مذاکراتی ٹیم کے 2 اراکین اور ایک حکومتی رکن نے رائٹرز کو بتایا کہ معاہدے کی مرکزی چیز تنظیم سے پابندی کا خاتمہ اور اسے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینا ہے۔
ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے ٹی ایل پی مذاکراتی ٹیم کے ایک اور رکن بشیر فاروقی نے بتایا تھا کہ ’ریاست نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ٹی ایل پی دہشت گرد گروہ ہے نہ ہی کالعدم جماعت‘۔
مذاکرات میں شامل 3 افراد نے بتایا کہ اس کے علاوہ حکومت نے ٹی ایل پی کے اسیر رہنما اور 23 سو کارکنان کی رہائی کی مخالفت نہ کرنے کا اور ان کے نام دہشت گردوں کی نگرانی فہرست سے خارج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں: ’حکومت، ٹی ایل پی کے درمیان معاہدہ طے پاگیا، نگرانی کیلئے کمیٹی قائم‘
اس ضمن میں پنجاب کے وزیر قانون راجا بشارت نے کہا کہ ٹی ایل پی کے تقریباً ایک ہزار کارکنان کو رہا کیا جاچکا ہے۔
اس سلسلے میں جب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے معذرت کرلی۔
ٹی ایل پی کے ہزاروں کارکنان کی جانب سے ملک کی مصروف شاہراہوں پر احتجاج کے دوران تصادم میں 7 پولیس اہلکار شہید اور سیکڑوں زخمی ہوئے، جس کے بعد حکومت اور تنظیم کے درمیان تصفیہ ہوگیا۔