’سونے کے بغیر میں اپنی بیٹی کو کیسے بیاہ سکتی ہوں؟‘
بیٹی کی شادی کی تیاریوں میں مصروف زینب کہتی ہیں کہ 'میں نے برسوں سے گھریلو اخراجات میں سے پیسے بچا بچا کر بیٹی کو جہیز میں سونے کا سیٹ دینے کے لیے رقم جوڑی ہے۔ سونے کے بغیر میں کیسے اپنی بیٹی کو بیاہ سکتی ہوں؟ اس کے سسرال والوں اور دیگر لوگوں کو لگے گا کہ مجھے اپنی بیٹی پیاری نہیں تھی'۔
زینب ان بہت سی عام ماؤں جیسی ہیں جو یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ دوسرے گھر بیاہ کر جانے والی بیٹی کو سونا دینا خاندانی پیار کی علامت ہے۔ مگر ان سب باتوں کی تہہ میں ایسی بہت سی وجوہات ہیں جن کی جڑیں ان دیکھے پہلوؤں میں پیوستہ ہیں۔
آخر جہیز سونے کے ایک یا دو سیٹ کے بغیر کیوں نامکمل تصور کیا جاتا ہے؟ صدیوں سے سونے کو قیمتی سرمایہ ہونے کے ناطے بیٹیوں کے لیے مشکل گھڑیوں میں تحفظ کا ذریعہ تصور کیا جاتا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں سسرال والوں کے مطالبات پورے کرنے اور سونے کی خریداری کے لیے والدین کا قرض لینا بھی عام ہے۔ کچھ مواقع پر تو سسرال والے اس قدر لالچی ہوتے ہیں کہ دلہن کو سونے کے ناکافی زیورات دینے پر شادی ہی منسوخ کردیتے ہیں۔
بنتِ زہرہ جامعہ کراچی کے شعبے وژؤل اسٹیڈیز میں انگریزی پڑھاتی ہیں۔ ان کے مطابق 'اکثر و بیشتر کم آمدن والے طبقات میں سونے کو جہیز کا لازمی حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ سسرال والوں کو مطمئن کرنے کے لیے سونے کی کم از کم دو بالیاں دینا تو ضروری ہیں'۔
سونے کی بڑھتی قیمت کو دیکھیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوگ سونا خریدنے کی استطاعت رکھتے بھی ہیں یا نہیں؟ اور دورِ حاضر میں یہ اتنا ضروری کیوں ہوگیا ہے، یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ (اس وقت 10 گرام 24 کیرٹ سونے کی قیمت ایک لاکھ 15 ہزار 300 روپے اور 10 گرام 22 کیرٹ سونے کی قیمت ایک لاکھ 5 ہزار 691 روپے ہے)
سارہ حسن نامی خاتونِ خانہ کہتی ہیں کہ 'پاکستان میں سونے کو ثقافتی اہمیت حاصل ہے۔ وہ افراد جنہوں نے سونے پر اپنا سرمایہ لگایا تھا وہ اس کے مالی ثمرات حاصل کر رہے ہیں۔ بلاشبہ قوتِ استطاعت ایک اہم عنصر ہے اور امیروں اور غریبوں کے درمیان حیران کن اور مسلسل بڑھتی خلیج اپنی جگہ موجود ہے۔ ایک طرف کچھ لوگ سونے کی بالیاں تک خریدنے کی قوتِ استطاعت نہیں رکھتے وہیں دوسری طرف کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کی شادی کے پہناوؤں کی قیمت سونے کے چند اونس کے برابر ہوتی ہے'۔
کلفٹن میں واقع زیورات کی دکان کے سیلز مین شہریار کہتے ہیں کہ 'یہ تو ریت رواج ہے اور لوگ دلہنوں کو سونا دینے کی روایت نہیں چھوڑیں گے‘۔ لیکن ساتھ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس وقت ان کے کاروبار میں تقریباً 20 سے 30 فیصد کی کمی ہو رہی ہے۔
ایک دوسری زیورات کی دکان کے سیلز مین طارق بتاتے ہیں کہ 'آج کل لوگ بس سونے کے ایک یا دو ہلکے سیٹس کا انتخاب ہی کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے (پرانے) بھاری زیورات کو نئے طرز کے ڈیزائن میں ڈھلواتے ہیں یا پھر انہیں بیچ کر نئے اور ہلکے زیورات بنواتے ہیں'۔
20 برس قبل تک مالدار والدین بیٹی کو جہیز میں گاڑی یا پھر ایک موٹر سائیکل کے ساتھ سونے کے بھاری زیورات، کڑھائی سے مزین عروسی جوڑے، بیڈ روم فرنیچر، باورچی خانے میں استعمال ہونے والے برقی آلات اور برتن دیا کرتے تھے۔ تاہم ان دنوں سونا جہیز کا لازمی حصہ نہیں رہا کیونکہ اب ترجیحات، قوتِ استطاعت اور خواہشات میں تبدیلی آچکی ہے۔
جو لوگ صاحبِ حیثیت ہیں وہ اپنی بیٹی کو جہیز میں گھر یا ایک پلاٹ دیتے ہیں، چند لوگ نقد رقم، فرنیچر یا برقی آلات دیتے ہیں۔ مگر شادی کرکے بیرونِ ملک جانے والی لڑکیاں عام طور پر اپنے والدین کو نقد رقم دینے کے لیے کہتی ہیں تاکہ وہ آزادانہ طور پر اپنے گھر کے لیے سامان اور تزین و آرائش کی چیزیں خرید سکیں جبکہ کچھ نو بیاہتا جوڑے ہنی مون ٹکٹوں کی خریداری کو ترجیح دیتے ہیں۔
اگرچہ سونا زیادہ تر لوگوں کی پہنچ سے باہر ہوتا جارہا ہے لیکن مشکل گھڑی میں مالی تحفظ کے لیے متبادل طریقے بھی موجود ہیں۔ غزالہ نورانی نامی ایک فنکار کہتی ہیں کہ 'دلہنوں کے لیے سونے کی جگہ سیونگ سرٹیفکیٹ دیے جاسکتے ہیں۔ ان سرٹیفکیٹ سے باقاعدگی کے ساتھ منافع بھی حاصل کیا جاسکتا ہے اور ضرورت کے وقت انہیں کیش بھی کروایا جاسکتا ہے۔ اگرچہ منافع بہت زیادہ نہیں ہے لیکن کچھ نہ ہونے سے تو ہونا ہی بہتر ہوتا ہے'۔
دورِ حاضر کی پڑھی لکھی اور ملازمت پیشہ خواتین کی بھی سونے میں دلچسپی ماند پڑتی جا رہی ہے۔ صحافی فرح ناز زاہدی کہتی ہیں کہ 'لڑکیاں اپنی خود کی پہچان چاہتی ہیں۔ وہ عملی مقاصد کے لیے بینک کے لاکر میں پڑے بھاری سونے کے سیٹ پہننے کے بجائے چھوٹے ٹاپس یا ایک دو انگوٹھیوں جیسے چاندی یا سونے کا پانی چڑھے ہوئے زیورات کو ہی پہننا پسند کریں گی۔ نوجوان نسل ایک ایسے دور میں بڑی ہوئی ہے جہاں سیر و سیاحت ترجیح بن گئی ہے۔ بہت سی لڑکیاں ایسی بھی ہیں جو سیاحت کے ذریعے زندگی کے تجربات حاصل کرنا چاہتی ہیں'۔
ایم بی اے کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب قمر کو ملٹی نیشنل ادارے میں ملازمت مل گئی تو ان کی منگیتر رعنا اور انہوں نے اپنے گھر والوں کی دعاؤں کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے شادی کی سادہ سی تقریب کا انعقاد کیا اور رعنا نے اپنے والدین کو بھاری زیورات کے بجائے نقد رقم دینے کے لیے کہا۔ اس جوڑے نے ملنے والی رقم میں مزید رقم جوڑ کر اپنے لیے ایک فلیٹ پسند کیا اور اس کی ڈاؤن پیمنٹ ادا کی اور تھوڑے ہی عرصے میں وہ وہاں منتقل ہوگئے۔ خاتونِ خانہ رعنا کہتی ہیں کہ 'اب ہم گھر کا ماہانہ کرایہ دینے کے بجائے اپنے فلیٹ کی اقساط ادا کر رہے ہیں جو لاکر میں پڑے بھاری زیورات سے تو بہتر ہے'۔
بڑے شہروں بالخصوص کراچی میں امن و امان کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے محتاط لوگ سونے کی کوئی بھی چیز پہن کر باہر جانے سے گریز کرتے ہیں اور نقلی زیور پہننے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔ آج کل زیادہ تر دلہنیں نقلی، سونے کا پانی چڑھے یا کرومیم کی پرت لگے چاندی کے زیورات پہننا پسند کر رہی ہیں کیونکہ یہ سستے اور آسانی سے دستیاب بھی ہیں۔
سونے کا پانی چڑھے کندن کے مختلف ڈیزائن میں زیورات اور بھاری آرٹیفیشل زیورات بھی دلہنوں کے لیے دستیاب ہیں مگر انہیں جہیز میں دینا مناسب تصور نہیں کیا جاتا اور ظاہر ہے کہ ان زیورات کو مالی تحفظ کے مقصد کے لیے بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
اکثر اوقات رشتہ دار بڑی محبت کے ساتھ اپنے زیورات دلہن کو ادھار دے دیتے ہیں اور شادی کی تقریب کے بعد وہ زیورات اصل مالک کو لوٹا دیے جاتے ہیں۔ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے چند سونار اب زیورات کرائے پر بھی دے رہے ہیں۔ پسند آنے والے زیور کی کل قیمت ادا کرنے کے بعد آپ اسے اپنے گھر لے جاسکتے ہیں۔ زیورات کو استعمال میں لانے کے بعد لوٹانے پر سونار کرایہ (فی دن ایک ہزار سے 3 ہزار روپے تک) کاٹ کر بقیہ رقم صارف کو لوٹا دیتا ہے۔
جو افراد خریدنے کی خواہش رکھتے ہیں وہ سونے کے زیورات اقساط کی صورت میں بھی خرید سکتے ہیں۔ اپنے پسندیدہ سونے کے سیٹ کی بکنگ کروائیں اور پھر باہمی اتفاق سے طے شدہ اقساط کی صورت میں اس کی مجموعی قیمت ادا کریں۔ تمام اقساط کی ادائیگی کے بعد آپ وہ سیٹ اپنے گھر لاسکتے ہیں۔ آپ کو کسی مارک اپ کے بغیر مارکیٹ کی موجودہ قیمت ہی ادا کرنی ہوتی ہے۔
فرح ناز زاہدی کہتی ہیں کہ 'جب لڑکیوں کی تعلیم اور انہیں بااختیار بنانا ترجیحات میں شامل نہیں تھا تب سونا بطور سرمایہ تحفظ دینا بنتا تھا۔ تاہم اب زیادہ تر لوگوں نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوانا شروع کردی ہے اور وہ انہیں اپنا محفوظ مستقبل یقینی بنانے کے لیے مختلف شعبوں میں کام کرنے کی اجازت دے رہے ہیں، ایک ایسا مستقبل جسے کوئی نہیں چُرا سکتا'۔
والدین اپنی بیٹیوں کو تعلیم، اپنی حمایت، انتخاب کی آزادی دے کر اور ناگہانی حالات کی صورت میں بیٹیوں کے لیے اپنے گھر کے دروازے اور دل کھلے رکھ کر بہترین تحفظ فراہم کرسکتے ہیں۔ سونے کی کوئی بھی مقدار اس قسم کے تحفظ کی ضمانت نہیں دے سکتی۔
یہ مضمون 31 اکتوبر 2021ء کو ڈان، ای او ایس میں شائع ہوا۔