ایم آئی ٹی اور میساچوسٹس آئی اینڈ ایئر کی اس تحقیق میں اس حوالے سے شواہد فراہم کیے گئے۔
محققین نے کووڈ 19 سے متاثر 10 افراد کے کانوں کے اندرونی ٹشوز میں انفیکشن کے رجحان کو دریافت کیا۔
محققین نے کانوں کے اندرونی حصے کے لیے نوول سیلولر ماڈلز کو تشکیل دیا تھا کیونکہ تحقیق کے لیے کان کے ٹشوز کا حصل لگ بھگ ناممکن ہوتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ماڈلز کا حصول پہلا قدم ہے اور ہمارے کام سے نہ صرف کورونا وائرس بلکہ سننے کی حس کو متاثر کرنے والے دیگر وائرسز کے اثرات کو جاننے کا موقع مل سکے گا۔
کووڈ کی وبا سے قبل ان ماہرین کی جانب سے انسانی کانوں کے اندرونی حصوں کی بیماریوں کی جانچ پڑتال کے لیے سیلولر ماڈلز تیار کرنے پر کام کای جارہا تھا۔
مختلف وائرسز جیسے ہیپاٹائٹس اور دیگر بہرے پن کا باعث بن سکتے ہیں مگر ایسا کیوں ہوتا ہے اس بارے میں ابھی تک زیادہ تفصیلات موجود نہیں۔
کورونا کی وبا کے بعد میساچوسٹس آئی اینڈ ایئر میں ایسے کووڈ مریضوں کی تعداد بڑھنے لگے جو سننے کی حس سے محرومی، گھنٹیاں بجنے اور سر چکرانے جیسے مسائل کا سامنا کررہے تھے۔
محققین نے کورونا وائرس کے اثرات کو جاننے کے لیے سیلولر ماڈلز تیار کرنے کا فیصلہ کیا اور انسانی جلد کے خلیات کے ذریعے ان کو تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کی۔
ان ماڈلز کی مدد سے وہ نمونے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور دریافت کیا کہ کان کے اندرونی حصے میں مخصوص خلیات کورونا وائرس سے متثر ہوتے ہیں اور اس کے لیے وہ وائرس ایس 2 ریسیپٹر نامی پروٹین کا سہارا لیتا ہے۔