فلمی دنیا میں بگڑے ہوئے چہروں کا المیہ
جیمز بانڈ فلم سیریز کی 25ویں فلم No Time to Die کی سنیما گھروں میں نمائش نے ہمیں ایک بار پھر یہ یاددہانی کروا دی ہے کہ ہولی وڈ میں کس طرح معذوری کو منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ جیمز بانڈ سیریز کی حالیہ فلم میں 3 ولنز (بلو فیلڈ، سافن اور پریمو) شامل ہیں اور تینوں کے بگڑے ہوئے چہرے دکھائے گئے ہیں۔
اگر آپ جیمز بانڈ کی فلموں کے سارے ولنز کا قریبی جائزہ لیں گے تو ان میں سے اکثریت کو چہرے کے بگاڑ یا جسمانی نقائص کا حامل پائیں گے۔ فلم کے ان منفی کرداروں اور جیمز بانڈ سمیت فلم کے دیگر بے نقص دکھائے جانے والے کرداروں کے درمیان یہ گہرا تضاد پایا جاتا ہے۔
بلاشبہ آج بھی اسٹار وارز اور ڈزنی کی مختلف کلاسیکی فلموں کے طرز پر کئی فلمیں معذوری سے متعلق فرسودہ استعاروں پر انحصار کرتی ہیں۔ معذوری کو کردار کی شناخت کا ایک عام سا حصہ رہنے دینے کے بجائے اس کا نہ صرف غلط استعمال کیا جاتا ہے بلکہ بڑھا چڑھا کر بھی پیش کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ یہ معذوری کہانی کا محور اور ولنز کے لیے وژؤل استعارہ بن جاتی ہے۔
کہانی کو زیادہ تقویت دینے یا آگے بڑھانے کے لیے جس طرح معذوری کو پیش کیا جاتا ہے اس کے لیے ڈیوڈ مچیل اور شیرون سنڈر نے معذوری دکھانے کے موضوع سے متعلق اپنی کتاب میں ’narrative prosthesis‘ (کہانی کی مصنوعی عضوبندی) کی اصطلاح کا استعمال کیا ہے۔
مسئلہ کہاں ہے؟
اگرچہ جیمز بانڈ سیریز میں تسلسل کے ساتھ معذوری کو منفی علامت کے طور پر دکھایا جارہا ہے، لیکن یہ معاملہ یہاں تک محدود نہیں ہے بلکہ پیٹر پین اور دی لائن کنگ جیسی دیگر فلموں میں بھی یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ جیسے دی لائن کنگ میں اسکار کے چہرے پر داغ اور پیٹر پین میں کیپٹن ہوک کو ایک ہاتھ سے محروم دکھایا گیا ہے۔
ونڈر وومین میں ڈاکٹر پوائزن، ہیری پوٹر میں وولڈر مورٹ اور اسٹار وارز کے کائلو رین اور دیگر بالخصوص ڈراؤنی اور سائنس فکشن فلموں میں کرداروں کو آپ معذوری کا شکار پائیں گے۔ اکثر ان کرداروں کے پیچھے ایک المناک کہانی چھپی ہوتی ہے جس میں وہ اپنے چہرے کے بگاڑ اور اپنے منفی رویوں کی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے کردار ان کے ساتھ ہونے والے واقعات کا بدلہ چاہتے ہیں۔
معذور افراد کے حقوق سے متعلق کارکن فلموں میں معذوری کو بطور منفی علامت استعمال کرنے کو بے حسی، بوریت اور فرسودگی سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کردار ایسے اداکاروں نے نبھائے ہیں جن کے چہرے کسی قسم کے بگاڑ کا شکار نہیں ہیں اور یہ فلمی صنعت میں نمائندگی سے متعلق ایک اور مسئلہ ہے۔
یہ مسئلہ اہم کیوں ہے؟
اس طرح کی نمائندگی چہرے پر نقائص رکھنے والے افراد کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ جب چہرے کی تفریقات کو شیطانی صفت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو پھر ان افراد سے متعلق معاشرے میں موجود تصورات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ افراد معاشرے کے لیے خطرناک یا نقصان دہ ہوتے ہیں۔
معذور افراد معذوری کو فلم میں صرف منفی، قابلِ رحم یا مزاحیہ کرداروں تک محدود نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ وہ اسے فلموں کے دیگر کرداروں اور بیانیوں کے ساتھ بھی جڑا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔
معذوری سے متعلق موضوعات پر تحقیق کرنے والے ٹام شیکسپیئر کہتے ہیں کہ 'معذوری کو کردار کی صفت، کہانی کو آگے بڑھانے یا کہانی کے مزاج کے لیے استعمال کرنا ایک بے حس شارٹ کٹ ہے۔ اس طرح معذور افراد کے تجربات کی درست یا منصفانہ ترجمانی نہیں ہوپاتی۔ معذوری سے منسلک کی جانے والی فرسودہ سوچ معذور افراد کی جانب منفی رویوں اور معذوری کی فطرت کے بارے میں پائی جانے والی لاعلمی کو تقویت دیتی ہے‘۔
مختلف جسمانی نقائص کے شکار افراد کے لیے کام کرنے والے 'چینجنگ فیسز' نامی ایک فلاحی ادارے نے معذوری یا نقائص کے شکار افراد کی اسکرین پر مساوی نمائندگی دینے کی جدوجہد کے لیے 'I am not your villain' کے نام سے مہم کا آغاز کیا ہے۔
اس مہم کے ذریعے فلمی صنعت سے چہرے پر زخم اور جلنے کے داغ یا کسی قسم کے نقص کو ولن کی صفات کے لیے مخصوص نہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
دی برٹش فلم انڈسٹری (بی ایف آئی) وہ پہلا ادارہ ہے جس نے ہامی بھری اور کرداروں کو منفی دکھانے کے لیے نقص زدہ چہروں کا استعمال کرنے والی فلموں کو فنڈ نہ دینے کا وعدہ کیا۔ یقیناً یہ درست سمت کی جانب پہلا قدم ہے۔
چینجنگ فیسز کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ نقص زدہ چہرے والوں کو معاشرے اور پاپولر کلچر میں مناسب نمائندگی نہ مل پانے کی وجہ سے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے، اور یوں انہیں اپنی ذات اور جسمانی ساکھ پر عدم اعتماد اور ذہنی صحت سے جڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
فلمی صنعت میں تبدیلی کی اہمیت پر زور دینے والی اس مختصر فلم سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح فلموں میں غیر مناسب نمائندگیاں نقص زدہ چہرے والوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ اس فلم میں ایک خاتون کہتی ہے کہ، 'عام طور پر مسئلے کی اصل وجہ ان کا خود کو قبول کرنے سے زیادہ معاشرے کی قبولیت کا ہوتا ہے۔ اوریہ کہ آپ خود کو کام کی جگہوں، ملاقاتوں اور اسکولوں میں ہونے والی سرگرمیوں کا حصہ کیسے بناتے ہیں؟ لیکن اگر آپ مثبت کردار کے مالک ہوئے تو ایسے سارے معاملات سے نمٹنا نہایت سہل ہوجائے گا'۔
چنانچہ معذوری کو منفی صفت سے جوڑنے کے رجعت پسندانہ فرسودہ تصورات سے جان چھڑانے اور نقائص رکھنے والے چہروں کو ہیرو یا محبوب کے کردار میں دکھانے کا وقت آگیا ہے۔
یہ مضمون 24 اکتوبر 2021ء کو ڈان، ای او ایس میں شائع ہوا۔
لکھاری برطانیہ کی یونیورسٹی آف یارک کے شعبہ ریسرچ آن ایجوکیشن اینڈ جسٹس سے پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔