انتظار قتل کیس: دو پولیس اہلکاروں کو سزائے موت، 6 ملزمان کو عمر قید
کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے 2018 میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں قتل ہونے والے نوجوان انتظار احمد کے مقدمے میں اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) کے سابق سربراہ کے گارڈ اور ڈرائیور کو سزائے موت سنا دی۔
اے ٹی سی کے جج نے فیصلے میں کہا کہ پولیس اہلکار بلال رشید اور محمد دانیال پر 19 سالہ نوجوان کو فائرنگ کرکے قتل کرنے کا جرم ثابت ہوا، دونوں اہلکار اس وقت اے سی ایل سی کے سابق سربراہ اور موجودہ ڈی آئی جی مقدس حیدر کے ساتھ گن مین اور ڈرائیور کی حیثیت سے تعینات تھے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: انتظار قتل کیس میں ’اہم گواہ‘ کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
عدالت نے اس وقت کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) سمیت اے سی ایل سی کے دیگر 6 اہلکاروں طارق محمود، سابق انسپکٹرز طارق رحیم اور اظہر حسین، کانسٹیبل شاہد عثمان، سابق ہیڈ کانسٹیبلز غلام عباس اور فواد خان کو عمر قید کی سزا سنا دی۔
مقدمے میں نامزد ایک اور سابق ہیڈ کانسٹیبل غلام عباس کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا۔
انتظار احمد ملائیشیا میں زیر تعلیم تھے اور چھٹیوں پر پاکستان آئے تھے۔
وہ اپنی گاڑی میں دوست مدیحہ کیانی کے ساتھ سوات تھے کہ 13 جنوری 2018 کو سادہ لباس اہلکاروں کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے تھے۔
اس قتل کے چند ماہ بعد مدیحہ کیانی نے ایک ویڈیو بیان میں، جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں سے اپیل کی تھی کہ وہ اسے سیکیورٹی فراہم کریں۔
انہوں نے انتظار احمد کے قتل کے بارے میں انکشاف کیا تھا کہ اسے ’منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا تھا‘۔
مدیحہ کیانی نے مزید کہا تھا کہ ’چونکہ میں واقعے کی واحد عینی شاہد ہوں اور مونچھوں والا شخص قاتل ہے اس لیے میں اپنی زندگی کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہوں‘۔
مزید پڑھیں: انتظار قتل کیس: عینی شاہد 'پولیس اہلکاروں' کو شناخت کرنے میں ناکام
انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے سزا سنانے کے بعد ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے مقتول انتظار احمد کے والد اشتیاق احمد نے کہا کہ ‘میں مطمئن ہوں کہ میرے بیٹے کے قاتلوں کو سزائے موت سنادی گئی ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘یہ ثابت ہوگیا کہ دونوں ملزمان نےمیرے بیٹے کو فائرنگ کرکے قتل کیا’۔
اشتیاق احمد کا کہنا تھا کہ ‘لیکن انصاف مکمل طور پر اس وقت ملے گا جب سزا پانے والے مجرمان کو پھانسی دے دی جائے گی’۔
خیال رہے کہ رواں برس جولائی میں عدالت نے گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے اور وکیل صفائی اور استغاثہ کے وکلا کے حتمی دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
زیر حراست تمام پولیس اہلکاروں کو 15 مئی 2018 کو انتظار احمد کے قتل کے الزام پر فرد جرم عائد کی تھی، سماعت کے دوران استغاثہ نے 20 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے۔
ماہر نے تصدیق کی تھی کہ طالب علم کے قتل میں استعمال ہونے والا اے سی ایل سی اہلکاروں کا اسلحہ سرکاری تھا۔
انتظار قتل میں کب کیا ہوا؟
یاد رہے کہ ڈیفنس کے علاقے خیابان اتحاد میں 13 جنوری 2018 کی شب کو اے سی ایل سی اہلکاروں کی جانب سے ایک گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا گیا تھا، جس کے نہ رکنے پر اہلکاروں نے فائرنگ کی تھی، جس سے 19 سالہ نوجوان انتظار احمد جاں بحق ہوگیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈیفنس میں نوجوان کا قتل: اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اہلکار گرفتار
ابتدائی طور پر پولیس کی جانب سے اس واقعے کو دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا جارہا تھا، بعد ازاں درخشاں تھانے میں اس کا مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد مقتول انتظار کے والد اشتیاق احمد کی جانب سے چیف جسٹس اور آرمی چیف سے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی گئی تھی جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ملوث اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔
14 جنوری کو اس کیس میں 6 اے سی ایل سی اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا تھا جس میں 2 انسپکٹر، 2 ہیڈ کانسٹیبلز اور 2 افسران بھی شامل تھے۔
15 جنوری کو ان ملزمان کو کراچی کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں عدالت نے ملزمان کو 7 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: انتظار قتل کیس: مفرور ملزم کی درخواست ضمانت منظور
بعد ازاں انتظار احمد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی سامنے آئی تھی، جس میں معلوم ہوا تھا کہ نوجوان کی ہلاکت صرف ایک گولی لگنے سے ہوئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اے سی ایل سی اہلکاروں نے انتظار پر 17 سے زائد گولیاں چلائیں جبکہ مقتول انتظار کو سیدھے کان کے پیچھے ایک گولی لگی جو اس کے سر سے آر پار ہوگئی تھی جس کے بعد وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا تھا۔
علاوہ ازیں مقتول کی ابتدائی فرانزک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس کے مطابق انتظار پر 2 پستول سے 18 گولیاں فائر کی گئی تھیں۔