چلغوزے کے جنگل میں منگل کب ہوگا؟
بلوچستان، خیبرپختونخوا اور پنجاب کے درمیان موجود سلیمان پہاڑی سلسلہ نہ صرف اپنے پُرکیف نظاروں بلکہ بلندیوں پر واقع دنیا کے سب سے بڑے چلغوزے کے جنگل کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے فراہم کردہ ایک اندازے کے مطابق 26 ہزار ہیکٹر پر محیط اس جنگل میں سالانہ 6 لاکھ 40 ہزار کلوگرام چلغوزے کی پیداوار ہوتی ہے۔
چلغوزے کے جنگل کی افادیت کو نظر انداز کیے جانے اور چلغوزے کی برآمدات میں اضافہ کس طرح مقامی کاشت کاروں اور پاکستانی معیشت کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، اس حوالے سے بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔
چلغوزے سے آمدنی کے مواقع ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ ایف اے او کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی چلغوزے کے دانے کا سائز دنیا میں سب سے بڑا ہے اور پاکستان چلغوزہ پیدا کرنے والا پانچواں سب سے بڑا ملک ہے جو خشک میوہ جات کی عالمی طلب کا تقریباً 15 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے۔
ملک میں چلغوزے کی مجموعی پیداوار کا 74 فیصد حصہ سلیمان پہاڑی سلسلے سے ہی حاصل کیا جاتا ہے۔ پھر جنوبی وزیرستان، چترال اور گلگت بلتستان میں تو درختوں کی متعدد اقسام پائی جاتی ہیں مگر سلیمان کے پہاڑی سلسلے پر موجود جنگلات میں صرف اور صرف چلغوزے کے درخت ہی پائے جاتے ہیں۔
چنانچہ یہ جنگلات مقامی آبادیوں کے لیے منافع بخش سماجی و معاشی مواقع پیدا کرتے ہیں۔ ایف اے او کے صوبائی کوآرڈینیٹر یحییٰ خان موسیٰ خیل کہتے ہیں کہ 'چونکہ چلغوزے کے جنگلات غیرآباد زمین پر واقع ہیں اس لیے یہ ایک ٹیکس سے آزاد علاقہ ہے'۔
مگر پورے پاکستان کو چلغوزے کی فراہمی اور چین و مشرق وسطیٰ کو سالانہ برآمدات کے باوجود کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے کی حدود میں واقع ضلع شیرانی کے مختلف علاقوں سمیت چلغوزہ پیدا کرنے والی پٹی میں پھیلے دیہات پسماندہ ہیں۔
گزشتہ برس چلغوزے کے مقامی کاشت کاروں کو اس وقت مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی منڈیوں اور شاہراہوں کو بند کردیا گیا تھا۔ چلغوزے کے کاشت کاروں کے مطابق انہیں عالمی وبا سے جڑی بندشوں کے باعث بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے تاہم وہ اس مصیبت کے آگے ہار ماننے والے نہیں۔
بڑھتی مشکلات
وسائل کی کمی کے باوجود کلی سمزئی کے سرسبز و شاداب علاقے میں مٹی سے بنے گھر میں مقیم محراب خان جیسے رہائشی دہائیوں سے چلغوزے کی تجارت کرتے آ رہے ہیں۔ شیرانی قبیلے کے معمر افراد بتاتے ہیں کہ کس طرح ستمبر میں کٹائی کا موسم آتے ہی دیہات کے لوگ سرگرم ہوجاتے ہیں۔
محراب خان کہتے ہیں کہ 'علاقے کے لوگ پہاڑوں پر پڑاؤ ڈالنے کے لیے ضروری ساز و سامان کے ساتھ بلندیوں کا سفر کرتے ہیں جہاں وہ دن بھر کام اور پھر رات میں آرام کرتے ہیں'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ لمبی ڈنڈیوں کے ایک سرے پر تیز دھار آلہ باندھا جاتا ہے، پھر ان کی مدد سے چلغوزے کے گچھوں (کونز) کو توڑ کر آٹے یا چینی کی خالی بوریوں میں بھر لیا جاتا ہے۔ کٹائی مکمل ہونے کے بعد دیہاتی گچھوں کو اونٹوں پر لاد کر دیہاتوں کی طرف بھیج دیتے ہیں۔
ابتدائی طور پر چلغوزے کے گچھوں سے بھری بوریوں کو چلغوزے کے پکنے تک 3 ہفتوں کے لیے گڑھے میں گاڑھ دیا جاتا ہے اور پھر 3 دنوں کے لیے دھوپ میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ گچھوں کے خشک ہوجانے کے بعد مرد، خواتین اور بچے گچھوں سے چلغوزے نکالنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ لوگ یا تو گچھوں کو ڈنڈے یا لاٹھی سے مار مار کر چلغوزے نکالتے ہیں یا پھر گچھوں کو ٹاٹ کی بوریوں میں بھر لیتے ہیں اور سخت سطح پر پٹخ کر چلغوزے نکالتے ہیں۔
دیہاتیوں کے لیے بغیر کسی مشین کی مدد سے انجام دیا جانے والا یہ کام نہ صرف مشقت بھرا اور بوجھل ہے بلکہ چند افراد کے مطابق پائیدار بھی نہیں ہے۔
ایف اے او سے وابستہ یحییٰ خان موسیٰ خیل کہتے ہیں کہ 'چلغوزے کی کٹائی ایک بہت ہی نازک عمل ہے اور ٹہنیوں اور شاخوں کو کسی قسم کے نقصان سے بچانے کے لیے نہایت احتیاط برتنی پڑتی ہے۔ چلغوزے نکالنے کا روایتی طریقہ کار بھی غیر پائیدار اور وقت طلب ہے'۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ چونکہ مختلف اقسام کے گچھے مختلف وقت پر پکتے ہیں اس لیے تیز دھار آلے کی مدد سے ان کی کٹائی پوری فصل کو ہی برباد کرسکتی ہے۔
یحییٰ خان موسیٰ خیل کا مزید کہنا تھا کہ 'گچھوں کو گڑھے میں گاڑھنے کا عمل ٹھیک نہیں ہے کیونکہ فنگس کی وجہ سے پوری فصل برباد ہوسکتی ہے۔ بعض اوقات جب موسلادھار بارش ہوتی ہے تو گچھے نمی جذب کرلیتے ہیں اور چلغوزے روایتی طریقے سے نکالے جانے کی وجہ سے ٹوٹ جاتے ہیں‘۔
تاہم عرصہ دراز تک کاشت کاروں کے پاس ان روایتی طریقوں کے علاوہ اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا اور انہیں ان طریقوں سے ہونے والے نقصان کو بھی برداشت کرنا پڑا۔ اگرچہ سست روی کے ساتھ لیکن حالات تبدیل ضرور ہو رہے ہیں۔
سحرِ نو؟
2019ء میں چلغوزے کی پراسیسنگ کے لیے ژوب شہر میں 3 یونٹس قائم کیے گئے تھے اور رواں سال بلوچستان کے شہر سر لکی اور احمدی درگاہ میں بھی چند دیگر یونٹس قائم کیے گئے ہیں۔ ان یونٹس میں چلغوزوں کو دھویا، بھونا اور پیک کیا جاتا ہے۔ گاؤں کے لوگوں کو بھی اس عمل کا حصہ بنایا گیا ہے۔ مقامی افراد کو چلغوزے کے گچھوں کو مسلنے کی مشینیں فراہم کی گئی ہیں جن کی مدد سے ہاتھ سے چلغوزے نکالنے کے پُرمشقت اور وقت طلب کام سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔
جن دیہاتیوں کو مشینوں تک رسائی ہے وہ ان سے کافی خوش دکھائی دیتے ہیں لیکن چونکہ چلغوزے کو پیدا کرنے والی وسیع رقبے پر محیط پٹی میں ہر جگہ ٹیکنالوجی دستیاب نہیں ہے اس لیے وسیع طور پر آج بھی چلغوزوں کو گچھوں سے نکالنے کے لیے روایتی طریقے ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔
بلوچستان کے علاقے کلی منڑہ سے تعلق رکھنے والے عبدالودود نامی 40 سالہ کاشت کار کہتے ہیں کہ 'پراسیسنگ کے لیے چلغوزوں کو کوہ سلیمان کے دامن میں واقع کیسا غر، منڑہ، شین غر، اوبشٹھا سکہ، زرغون زوار، تور غر، ناری، پونگہ اور پڑئی جیسے علاقوں سے ژوب لایا جاتا ہے جہاں سے پھر چلغوزے ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، پشاور، لاہور اور چین بھیج دیے جاتے ہیں'۔
عبدالودود گزشتہ 20 برس سے چلغوزے کا کاروبار کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 'چلغوزے کو پختہ ہونے میں 3 برس کا وقت لگتا ہے اور ان کی کٹائی کا عمل مشکل ہے، اسی وجہ سے یہ سب سے مہنگا خشک میوہ ہے'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'ایک وقت تھا جب فی کلو گرام چلغوزے 8 ہزار روپے میں بکتے تھے لیکن گزشتہ سال چونکہ تاجر چلغوزے چین نہیں بھیج پائے تھے اس لیے مقامی منڈی میں اس کی قیمت میں نمایاں کمی آئی'۔
جدید ٹیکنالوجی اور ترقیاتی منصوبوں سے کاشت کاروں کو اپنا منافع بڑھانے اور نقصان گھٹانے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔
چلغوزے کے جنگلات کے تحفظ اور کوہِ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں شجرکاری کو بڑھانے کے لیے ایف اے او کے شروع کردہ منصوبے کو گلوبل انوائرنمنٹ فیسلٹی کی مالی معاونت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ یہاں مقامی افراد کو ایندھن کے متبادل کے طور پر لکڑی فراہم کرنے کے لیے تیزی سے بڑھنے والے درختوں کو بھی اگایا جا رہا ہے۔
اس منصوبے کے ذریعے کٹائی میں حصہ لینے والے دیہاتیوں کو ایگرو فارسٹری سے متعلق معاونت، ضروری آلات اور تکنیکی رہنمائی کی فراہمی بھی یقینی بنائی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی تاجروں کو عالمی منڈی سے جوڑنا اس منصوبے کا ایک سب سے اہم حصہ ہے۔
گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران کوہِ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں ہزاروں درختوں کو بڑی ہی سنگدلی سے کاٹ کر 'ٹمبر مافیا' اور مقامی لوگوں نے قیمتی لکڑی کو بیچا۔ بلاشبہ بقیہ جنگلات کا تحفظ اور علاقے میں شجرکاری بڑھانے سے ہی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔
مقامی افراد نے ان منصوبوں کا خیر مقدم کیا ہے لیکن اگر ہم چلغوزے کی تجارت کو حقیقی معنوں میں پاکستان کے لیے غیر معمولی کامیابی میں بدلنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے متعدد اقدامات کی ضرورت ہے۔
سڑکوں کی تعمیر سمیت بنیادی انفراسٹرکچر کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے سے نہ صرف چلغوزے کی تجارت کو تقویت ملے گی بلکہ ان دلکش نظاروں سے بھرپور علاقوں میں سیاحت کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی اس علاقے اور یہاں ہونے والی چلغوزے کی تجارت میں چھپے مواقع کی قدر شناسی بلاشبہ ایک اہم قدم ہے لیکن ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔
یہ مضمون 24 اکتوبر 2021ء کو ڈان، ای او ایس میں شائع ہوا۔