میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل کی تحقیق میں 38 ایسی خواتین کا جائزہ لیا گیا تھا جو حمل کے دوران کورونا وائرس سے متاثر ہوئی تھیں۔
ان میں سے 50 فیصد کے بطن میں لڑکے تھے، بیشتر خواتین میں کووڈ 19 کی شدت معمولی یا معتدل تھیں۔
محققین نے جلد ماں بننے والی ان خواتین میں بیماری سے بننے والی اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال خون کے نمونوں اور ہونے والے بچوں میں آنول کے ٹشوز کے ذریعے کی گئی۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ جن خواتین کے ہاں لڑکوں کی پیدائش متوقع تھی انہوں نے بیماری کے بعد لڑکیوں کے مقابلے وائرس سے تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز کی کم مقدار کو بیٹوں میں منتقل کیا۔
اسی طرح جن خواتین کے ہاں لڑکوں کی پیدائش متوقع تھی ان میں بیماری کے بعد بننے والی اینٹی باڈیز کی تعداد لڑکیوں کو جنم دینے والی خواتین کے مقابلے میں کافی کم تھی۔
محققین نے بتایا کہ اس سے ماں اور بچے کے مدافعتی نظام کے حوالے سے چند اشارے ملتے ہیں۔
نتائج سے ممکنہ عندیہ ملتا ہے کہ مردوں اور خواتین کا کووڈ 19 کے حوالے سے مدافعتی ردعمل کتنا مختلف ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق لڑکوں میں وائرس سے بظاہر ورم کا ردعمل تشکیل پاتا پے جو لڑکیوں میں نظر نہیں آتا۔
محققین نے بتایا کہ ورم ممکنہ طور پر ماں کی کورونا وائرس اینٹی باڈیز کو پطن میں موجود بچے میں منتقل کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ لڑکوں سے حاملہ خواتین کے آنول میں ورم کو بڑھانے والے جیز زیادہ متحرک ہوتے ہیں جبکہ لڑکیوں والی حاملہ خواتین میں ایسا نہیں ہوتا۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس طرح کا ردعمل اس بات کی اہمیت ظاہر کرتا ہے کہ ماں کو وائرل انفیکشن ہونے پر آنول اور ہونے والے بچوں کا تحفظ کتنا ضروری ہ۔
محققین نے اس سے ملتے جلتے مدافعتی ردعمل کا مشاہدہ کووڈ 19 سے متاثر مردوں میں بھی کیا ہے۔