دنیا

اقوام متحدہ کا میانمار میں سنگین جرائم کے ارتکاب کے خدشات کا اظہار

میانمار میں لوگ فوجی حکومت کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں، جس سے کشیدگی اور مسلح تنازعات پیدا ہوسکتے ہیں، نمائندہ اقوام متحدہ

اقوام متحدہ نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ میانمار میں فوج کے سنگین جرائم میں ملوث ہونے کی رپورٹس موصول ہوئی ہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق جنرل اسمبلی کے لیے میانمار کی انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ پیش کرنے والے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ٹوم اینڈریوز نے کہا کہ انہیں معلومات ملی ہیں کہ ہزاروں فوجی اور اسلحہ ملک کے شمالی اور شمال مغربی علاقے میں منتقل کیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف احتجاج، فورسز کی فائرنگ سے 7 افراد ہلاک

رپورٹ میں بتایا گیا کہ فوجی حکومت ملک میں انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم میں ملوث ہے۔

ٹوم اینڈریوز نے کہا کہ ہم سب کو تیار رہنا چاہیے کہ میانمار کے اس علاقے کے لوگ مزید سنگین جرائم کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں، مجھے شدت سے چاہوں گا کہ میں غلط ثابت ہوجاؤں۔

مقامی تنظیم کے مطابق ملک میں بدترین کارروائیوں کے دروان ایک ہزار 100 سے زائد عام شہریوں کو قتل کیا گیا اور رواں برس فوجی حکومت کے قیام کے بعد ملک بھر میں 8 ہزار سےزائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے نمائندے نے کہا کہ یہ حربے 2016 اور 2017 میں ریاست رخانے میں روہنگیا کے خلاف بدترین جرائم کے ارتکاب سے قبل فوج میں بھرتی کیے جانے والے افراد کی کارروائیوں کی یاد دلاتے ہیں۔

یادرہے کہ میانمار میں 2017 میں ریاست رخانے میں فوج کی جانب سے کارروائی کرکے 7 لاکھ 40 ہزار روہنگیا مسلمانوں کو ریاست سے ہجرت پر مجبور کیا گیا تھا۔

میانمار کی فوج کے حوالے سے اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ ان کارروائیوں کے دوران نسلی کشی کے خدشات ہیں۔

مزید پڑھیں:میانمار: فوجی حکومت کے خلاف احتجاج، پولیس کی فائرنگ سے مزید 38 افراد ہلاک

ٹوم اینڈریوز نے دنیا پر زور دیا کہ وہ میانمار کی فوج کی جانب سے اسلحہ، رقم اور ان کی حکومت کو قانونی تسلیم کرنے کی خواہش کو مسترد کردیں اور حالیہ ہفتوں میں رہا ہونے والے ایک قیدی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دباؤ کارآمد ہے۔

گزشتہ ہفتے میانمار کے فوجی سربراہ سینئرجنرل من آنگ ہلینگ نے اعلان کیا تھا کہ فوجی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیے گئے 5 ہزار سے زائد قیدیوں کو رہا کردیا جائے گا۔

میانمار کے جنرل کی جانب سے یہ اعلان ایسوسی ایشین آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز (آسیان) نے فوجی حکومت کو 10 ملکی اتحاد کے اگلے اجلاس کی نمائندگی سے باہر کرنے کے فیصلے بعد سامنے آیا تھا۔

اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی کرسٹین شرینر نے بتایا کہ میانمار میں خانہ جنگی کا خطرہ موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگ کی اب آئی فونز اور دیگر انفارمیشن کے دیگر بڑے ذرائع تک رسائی ہے اور ان کے پاس فیس بک اور ٹوئٹر کی سہولت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار: فوجی بغاوت کیخلاف مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 800 سے زائد ہوگئی

انہوں نے کہا کہ وہ فوجی حکومت کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور اگر انہوں نے معاف نہیں کیا اور مزید بپھر گئے تو کشیدگی پھیلائیں گے اور اس سے مزید کشیدگی پھیلے گی اور اندرونی طور پر مسلح تنازع کھڑا ہوگا۔

ٹوم اینڈریوز نے کہا کہ میانمار میں فورسز نے ایک تہائی آبادی کو بےگھر کردیا ہے، اور زیر حراست اکثر افراد پر تشدد کیا گیا ہے، جن میں درجنوں افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

ترک صدر کا جرمنی اور امریکا سمیت 10 ممالک کے سفیروں کو ملک بدر کرنے کا حکم

امریکا کا ہائپرسونک میزائل کا 'کامیاب' تجربہ

بلوچستان: ہرنائی میں دہشت گردوں کے ٹھکانے پر کارروائی، کمانڈر سمیت 6ہلاک