قومی اسمبلی میں حکومت کا اپنی پالیسیوں کا دفاع، اپوزیشن کی تنقید
اسلام آباد: قومی اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومتی بینچز بحث میں الجھی رہیں، اپوزیشن نے حکومت کو ’ناقص معاشی پالیسیوں‘ پر عمل پیرا ہونے پر تنقید کی جبکہ حکومت نے ان کا دفاع کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی بحث کے دوران ایک اہم موضوع بنا رہا جو وقفہ سوال و جواب اور اس سے آگے بھی جاری رہا۔
قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کو ان کے حالیہ ریمارکس پر تنقید کا نشانہ بنایا کہ روپے کی قدر میں کمی نے 60 سے 70 لاکھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اسٹیٹ بینک کے گورنر نے اس بات کا تذکرہ نہیں کیا کہ ملک میں رہنے والے 22 کروڑ لوگوں کا کیا ہوگا، یہ خالصتاً ایک سیاسی بیان ہے جو کسی ایسے عہدیدار کو نہیں دینا چاہیے تھا جو مانیٹری پالیسی کا انچارج ہو‘۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی نے 2 آرڈیننسز کی مدت میں 120 روز کی توسیع کردی
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی قومی قرضوں میں اربوں کا اضافہ کرتی ہے، مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے بیرونی قرضوں کا حجم ناقابل یقین حد تک بڑھ گیا ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بلایا گیا جہاں انہوں نے 3 ارب ڈالر کے بینفشریز کا نام ظاہر کرنے سے انکار کر دیا جو ’پاکستان میں آئے اور پھر دوسری جگہ پر بھیج دیے گئے‘۔
انہوں نے کہا کہ چند افراد کو رقم کے بیرون ملک جانے سے قبل 13 فیصد سے زائد شرح سود پر بھاری منافع کمانے کی اجازت دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب اسٹیٹ بینک کے گورنر سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’یہ ایک راز ہے‘۔
لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ ’یہ لوگ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی طرف سے بھیجے گئے لیکویڈیٹر ہیں، ان کا کام معیشت کو تباہ کرنا ہے جیسا کہ مصر میں کیا گیا تھا، یہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ پاکستان کا مالی پالیسیوں کے ذریعے دیوالیہ ہو جائے وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں اور اپنا کام پورا کرنے کے بعد ملک چھوڑ دیں گے‘۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان جواب دینے کے لیے اپنی نشست پر کھڑے ہوئے تاہم جواب نہ دے سکے کیونکہ پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے کورم کی نشاندہی کردی۔
گنتی کے بعد اور کورم پورا نہ ہونے پر سیشن کو ملتوی کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں مندر واقعہ کے خلاف متفقہ قرارداد منظور
اس سے قبل وقفہ سوال و جواب کے دوران وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کے آخری دور کے ابتدائی چار سالوں کے دوران اس وقت کے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے مصنوعی طور پر روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کو کنٹرول کرنے کی پالیسی اختیار کی۔
انہوں نے کہا کہ جب شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم بنے اور مفتاح اسمٰعیل وزیر خزانہ تھے تو پالیسی بدل دی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے صرف مارکیٹ پر مبنی کرنسی ایکسچینج ریٹ کی پالیسی کو بہتر بنایا ہے‘۔
وزیر برائے اقتصادی امور عمر ایوب نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے خسارے کے لیے 23 ارب 60 کروڑ ڈالر قرض لیا، پاکستان اس سے قبل ہر سال قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 5 ارب ڈالر خرچ کرتا تھا جو کہ بڑھ کر 90 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے زرمبادلہ کے ذخائر کو صرف دو ہفتوں کے لیے کافی چھوڑا تھا۔
دریں اثنا ایوان کو بتایا گیا کہ رواں مالی سال کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی آئی ہے جو جون کے اختتام تک 157.54 روپے سے 18 اکتوبر تک 172.78 روپے ہو گئی ہے جو کہ 8.8 فیصد کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔
ایوان کو بتایا گیا کہ مئی 2019 سے پاکستان نے مارکیٹ پر مبنی لچکدار ایکسچینج ریٹ سسٹم اپنایا ہے جس کے تحت ایکسچینج ریٹ کا تعین مارکیٹ کی طلب اور رسد کی شرائط سے ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کا بجٹ کثرت رائے سے منظور
مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز قیصر احمد شیخ نے الزام لگایا کہ ڈالر کی شرح 120 روپے سے بڑھا کر 175 روپے کر کے حکومت نے قومی معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ملک کی درآمدات اس کی برآمدات سے تین گنا زیادہ ہیں لیکن حکومت برآمدات میں اضافے کا دعویٰ کر رہی ہے۔
پارلیمانی سیکریٹری تجارت عالیہ حمزہ ملک نے اپوزیشن کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ معیشت درست سمت میں جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی گاڑیوں اور آئی ٹی کے صنعتوں کے لیے اسپیئر پارٹس کی درآمد کے ساتھ ساتھ کووڈ 19 ویکسی نیشن کا سامان درآمد کرنے کے کی وجہ سے درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال حکومت کی دانشمندانہ پالیسیوں کی وجہ سے برآمدات 25 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہیں۔
عالیہ حمزہ نے کہا کہ برآمدی شعبوں کے لیے گیس کی قیمتوں کو معقول بنایا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو بجلی کے نرخ میں 50 فیصد ریلیف اس سال جون تک دیا گیا تھا۔