'طالبان نے بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکنے کی یقین دہانی کرائی ہے'
اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان کی نئی قیادت نے مشکل وقت میں مدد کرنے پر پاکستان کے کردار کا اعتراف کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ایل پی) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) سمیت کسی بھی گروپ کو پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔
دورہِ افغانستان کے بعد اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری افغان وفود سے چند طے شدہ ملاقاتیں وقت کی قلت کے باعث نہ ہو سکیں لیکن ان سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔
مزید پڑھیں: کابل: وزیر خارجہ شاہ محمود کی افغانستان کے وزیراعظم سے ملاقات
انہوں نے کہا کہ میری سابق صدر حامد کرزئی، ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار کے ساتھ فون پر گفتگو ہوئی اور آج ہونے والی ملاقاتوں کے خلاصے سے انہیں آگاہ کیا اور انہیں اعتماد میں لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ جانے والے وفد میں ان تمام امور کے سینئر عہدیدار اور حکام موجود تھے جن پر ہم نے افغان قیادت سے بات کرنی تھی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میری افغان قیادت سے گفتگو بہت تسلی بخش تھی، گفتگو بڑے اچھے اور دوستانہ ماحول میں ہوئی اور مجھے پاکستانی قوم کو یہ بتاتے ہوئے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ افغانستان کے نئے حکمران مشکل وقت میں افغانستان کی مدد کرنے پر پاکستان کے کردار کے معترف تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے بھی انہیں پیغام دیا کہ پاکستان کی قوم اس مشکل گھڑی میں افغانستان کی قوم کے ساتھ کھڑی ہے، ہم نے ماضی میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آج بھی ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کو اس وقت اقتدار کی منتقلی اور انسانی اور معاشی بحران کا چیلنج درپیش ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے پاکستان ہر ممکن حد تک اپنا کردار ادا کررہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیرخارجہ کو ایرانی ہم منصب کا فون، افغانستان سے متعلق اجلاس میں شرکت کی دعوت
وزیر خارجہ نے کہا کہ افغان قیادت سے نشست کے بعد مختلف گروپوں سے بات ہوئی جس میں ان کے ویزا، تجارت اور سرحدی نقل و حرکت سے متعلق مسائل کو سنا اور ہمارے تحفظات سے انہیں آگاہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آج جو نشست ہوئی ہے اس کے بعد جلد افغانستان سے ایک وفد اسلام آباد آئے گا تاکہ جو بات ہم نے چھیڑی ہے اس کو حتمی انجام تک پہنچایا اور چھوٹے موٹے مسائل کا فی الفور ازالہ کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ علاقائی روابط کے حوالے سے اہمیت کے حامل منصوبوں پر بھی نئی افغان قیادت سے بات ہوئی اور ان تمام منصوبوں پر ان کے وزیر اعظم اور بقیہ قیادت نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 15 اگست کے بعد درپیش کچھ پیچیدگیوں کو بھی دور کرنے پر گفتگو ہوئی تاکہ سرحدی مینجمنٹ مؤثر ہو سکے، افغان حکومت کو گیٹ پاس متعارف کرانے پر اعتراض تھا کیونکہ اس سے ان کے بقول تاخیر ہوتی تھی تو اس پر انہیں بتایا گیا کہ حکومت پاکستان نے غوروخوض کے بعد اسے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان پر ’مشترکہ مؤقف‘: روس، چین، پاکستان اور امریکا کی میزبانی کرے گا
وزیر خارجہ نے کہا کہ افغان قیادت کے تحفظات کے بعد ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر کوئی میڈیکل کیس آئے گا تو انہیں فوری ویزا فراہم کردیا جائے گا اور اس سے بہت سی جانیں بچ جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ویزا درخواستوں کے عمل کو تیز کرنے کے لیے آن لائن ویزا کے اجرا کا فیصلہ کیا جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے جبکہ کاروبار کے لیے پاکستان آنے والی افغانستان کی کاروباری شخصیات کو ملک آمد پر فوری طور پر 30 دن کا ویزا جاری کردیا جائے گا اور اس کے لیے کوئی سیکیورٹی کلیئرنس درکار نہیں ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ کابل میں پاکستانی سفارتخانے کو بھی اختیار دے دیا ہے کہ وہ ازخود پانچ سال کے لیے ملٹی اینٹری ویزا دے سکتے ہیں، ہماری بزنس مین ویزا لسٹ میں پہلے افغان کاروباری شخصیات موجود نہیں تھیں لیکن ان کو شامل کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاشی طور پر افغانستان کی مدد کرنے کے لیے پاکستان کے تمام پھل اور سبزیوں کو کوئی ڈیوٹی یا ٹیکس عائد کیے بغیر افغانستان امپورٹ کرنے کی اجازت ہو گی جس سے یقیناً ان کی معیشت اور کسان و کاشتکار کو فائدہ ہو گا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم معاشی استحکام میں افغانستان کی مدد کے لیے تیار ہیں اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمارے اور ان کے ماہرین آپس میں بیٹھ کر فیصلہ کریں گے کہ مزید کون سی اشیا ہے جن کی ڈیوٹی کو ہم ختم یا کم کر سکتے ہیں تاکہ ان کی ایکسپورٹ میں آسانی ہو۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان کو تنہا نہ کیا جائے، قطر کا مغربی دنیا کو مشورہ
انہوں نے کہا کہ سرحد پر نقل و حرکت میں آسانی پیدا کرنے کے لیے دو فیصلے کیے ہیں، پیدل گزرنے والوں کے لیے اوقات کو آٹھ گھنٹے سے بڑھا کر 12 گھنٹے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے لوگوں کو آسانی ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ تجارت میں ٹرکوں کو درپیش مشکلات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ تجارت کی حد تک سرحد 24 گھنٹے کھلی رہے گی جس سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو گا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ افغان قیادت نے ہمیں یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہوتے ہوئے پاکستان کو یہ وہم نہیں ہونا چاہیے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو گی، پھر چاہے وہ تحریک طالبان پاکستان کرنا چاہے یا بلوچ لبریشن آرمی کرنا چاہے، اس کی ہم ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے طالبان کو بتایا کہ پاکستان دنیا کو یہ باور کرا رہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی قیادت سے بات کرنے کی اور معاشی بحران سے بچانے کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں: یورپی یونین کا افغانستان کیلئے ایک ارب یورو کے امدادی پیکج کا اعلان
انہوں نے کہا کہ آج وزیراعظم سے بات کے بعد میں نے وہاں اعلان کیا ہے کہ ہم انسانی بنیادوں پر ان کی مدد کرتے ہوئے ادویہ اور خوراک سمیت فی الفور 5 ارب کی اشیا فراہم کریں گے۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ طالبان کی بہت زیادہ خواہش کے پاکستان کے ساتھ ان کی تجارت اور معاشی سرگرمیاں بڑھیں اور وہ ہمارے ساتھ تجارتی روابط بڑھانا چاہتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ طالبان کو اب تک پاکستان سمیت کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا لیکن ان کی خواہش ہے کہ ان کو تسلیم کیا جائے، میں نے بحیثیت پڑوسی ان کو بتایا کہ انہیں عالمی سطح پر خود کو تسلیم کرانے کے لیے کیا کیا اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ روس اور چین طالبان کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے کچھ تحفظات ہیں، اسی طرح ایران کے بھی افغانستان ہزارہ برادری اور اہل تشیع کی مساجد پر ہونے والے حملوں کے حوالے سے تحفظات ہیں اور طالبان کو ان تحفظات کو دور کرنا ہو گا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اسی طرح اگر ہم یہ کہیں کہ ہمیں تحریک طالبان پاکستان یا وہاں سے کام کرنے والی بلوچستان لبریشن آرمی کے حوالے سے تشویش نہیں تو یہ کہنا درست نہ ہو گا، ہمیں اس پر تحفظات ہیں اور میں نے انہیں انسداد دہشت گردی پر تعاون کو بڑھانے کی تجویز پیش کی۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان کے صوبہ قندوز کی مسجد میں دھماکا، 55 افراد جاں بحق
انہوں نے کہا کہ طالبان دنیا کے مطالبات پر اپنی حکومت اور ملک میں اصلاحات کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن سالوں سال کے بگاڑ کے شگاف کو چند ہفتوں میں درست نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر سمت درست ہو تو آہستہ آہستہ پیشرفت ہو سکتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کے جنرم منیجر کو افغانستان میں حبس بے جا میں رکھنے کی رپورٹس افواہوں پر مبنی ہیں، میرا نہیں خیال کہ یہ خبر درست ہے۔