دنیا

جرمنی: یمن جنگ میں حصہ لینے کیلئے ’فورس‘ تیار کرنے والے 2 سابق فوجی گرفتار

دونوں اہلکاروں نے 100 سے 150 افراد پر مشتمل فوجی طرز کا تربیت یافتہ یونٹ بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے تھے، پراسیکیوٹر

برلن میں پولیس نے 2 سابق جرمن فوجیوں کو گرفتار کر لیا جن پر الزام ہے کہ وہ یمن کی خانہ جنگی میں لڑائی کے لیے ’دہشت گرد‘ پیراملٹری گروپ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جنوب مغربی جرمنی میں کارلسروہے وفاقی پراسیکیوٹر دفتر نے کہا کہ دونوں افراد نے ’100 سے 150 افراد پر مشتمل فوجی طرز کا تربیت یافتہ یونٹ بنانے’ کے لیے اقدامات اٹھائے تھے۔

دونوں جرمن شہریوں آرینڈ اڈولف جی اور آکیم اے پر الزام ہے کہ انہوں نے 2021 کے آغاز میں اپنی ‘دہشت گرد تنظیم’ شروع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جرمنی: مسلمانوں پر حملوں کی 'منصوبہ بندی' کرنے والا ملزم گرفتار

پراسیکیوٹر نے بتایا کہ آرینڈ اڈولف جی نے، جس پر تنظیم میں مبینہ طور پر لوگوں کو بھرتی کرنے کا الزام ہے، تقریباً 7 افراد کو اعتماد میں لینے کی اُمید پر ان سے رابطے کیے ‘تاکہ یمن کی خانہ جنگی میں مداخلت کی جاسکے’۔

پراسیکیوٹر کے مطابق دونوں ملزمان کا ارادہ تھا کہ مشن کے دوران ان کی قیادت میں یونٹ لازمی طور پر قاتلانہ کارروائیاں کرے گا اور شہریوں کے ہلاک و زخمی ہونے کی اُمید تھی۔

انہیں منصوبے کے لیے سعودی عرب سے مالی معاونت حاصل ہونے کی اُمید تھی اور ملزمان کا یونٹ کے اراکین کو ماہانہ 40 ہزار یورو (46 ہزار ڈالر) تنخواہ دینے کا ارادہ تھا۔

پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اکیم اے پر الزام ہے کہ وہ سعودی عرب حکومت کے نمائندگان سے رابطہ کرکے ملاقات کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن حکومت نے اسے جواب نہیں دیا۔

سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد گزشتہ کئی سالوں سے یمن میں نام نہاد حوثی باغیوں کے خلاف لڑ رہا ہیں، جنہیں ایران کی حمایت حاصل ہے۔

مزید پڑھیں: یمن: سعودی عرب نے امن معاہدے کے تحت 200 باغیوں کو رہا کردیا

پراسیکیوٹر کے مطابق دونوں ملزمان چاہتے تھے کہ ان کا یونٹ حوثی باغیوں اور یمن کی حکومت کے درمیان مذاکرات کے ذریعے یمن میں امن قائم کرنے میں مدد کرے۔

دونوں ملزمان کو خصوصی فورسز نے جنوب مغربی ضلع بریساؤ ہوکشیوارزوالڈ اور میونخ سے گرفتار کیا گیا بعد ازاں انہیں عدالت میں پیش کیا گیا جہاں عدالت نے ان کا ریمانڈ دے دیا۔

منچ اور جنوبی جرمنی کے ضلع کالو میں ملزمان کے فلیٹ کی تلاشی لی گئی جبکہ بادین ویٹیمبرگ اور باوریا میں ملزمان کی دیگر جائیدادوں کی بھی تلاشی لی گئی۔

جرمن وزارت دفاع کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ کیس پر تفتیشی حکام کے ہمراہ بہت قریب سے تحقیقات کر رہے ہیں لیکن دونوں ملزمان گزشتہ 25 سالوں سے بوندسویہر کا حصہ نہیں ہیں۔

کے-الیکٹرک کی بجلی 3 روپے 45 پیسے مہنگی کرنے کی درخواست

اندورنِ ملک پروازیں منسوخ کرنے پر 4 ایئرلائنز کو نوٹس جاری

عثمان مختار کی شادی کی تقریبات کا آغاز