چین نامہ: چینیوں سے متعلق پاکستانیوں کے عجیب و غریب مغالطے (تیرہویں قسط)
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
ہمارے چین جانے کی اطلاع ہمارے قریبی لوگوں کو ہوئی تو انہوں نے ہمیں چینیوں کے بارے میں سنی ہوئی ساری باتیں بتانا شروع کردیں۔ شروعات ان کے کھانے پینے کی عادات سے ہوئی۔ جو آتا کہتا کہ سنو وہ سب کچھ کھا لیتے ہیں۔ دھیان کرنا، کہیں تمہیں بھی وہی سب نہ کھلا دیں۔
ان کے کھانے کی عادتوں سے نکلے تو ان میں ہی اٹک گئے۔ کچھ نے کہا وہ تو بونے سے ہوتے ہیں لیکن دُبلے پتلے نظر آتے ہیں۔ کسی کا پیٹ باہر نہیں نکلا ہوتا۔ آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں۔ محنتی بہت ہوتے ہیں۔ ہر وقت کام کرتے ہیں۔ تبھی تو اتنی ترقی کرگئے ہیں۔
ہم چینیوں کے کھانے پینے کی عادات اور چین میں حلال کھانوں کی دستیابی پر اس سفرنامے کی دوسری قسط میں تفصیلی بات کرچکے ہیں لہٰذا یہاں دوبارہ نہیں لکھ رہے۔ بس اتنا لکھ دیتے ہیں کہ چینی کم از کم جو کہتے ہیں وہی کھلاتے ہیں۔ بکرے کے گوشت کی قسم بتا کر گدھے کا گوشت نہیں کھلاتے۔
پاکستان میں لوگ سمجھتے ہیں کہ ہر چینی پست قامت ہوتا ہے۔ ہم نے یہاں آکر دیکھا کہ ہم جو اپنے 5 فٹ اور 4 انچ قد کے ساتھ پاکستان میں نارمل لڑکیوں میں شمار ہوتے تھے، چین میں بھی نارمل ہی تھے۔ کچھ لڑکیاں تو ہم سے بھی لمبی تھیں۔ لڑکوں کا بھی ایسا ہی حال تھا۔ کچھ ہمارے جتنے اور کچھ ہم سے چھوٹے بھی تھے لیکن پُراعتماد نظر آتے۔
ہم نے اپنی ایک چینی دوست سے پوچھا کہ کیا چینی چھوٹے قد والوں کا مذاق اُڑاتے ہیں تو اس نے ہمیں ایسی حیرانی سے دیکھا کہ ہمیں خود اپنے آپ سے شرم محسوس ہونے لگی۔
چین کے قومی کمیشن برائے صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے 35 برسوں میں چینیوں کے قد میں اضافہ ہوا ہے۔ اب چین میں 19 سالہ لڑکے کا اوسط قد 5 فٹ 8 انچ جبکہ اسی عمر کی لڑکی کا اوسط قد تقریباً 5 فٹ 4 انچ ہے۔
اب چینیوں کے قد سے نکل کر پیٹ پر آجائیں۔ ہمارے بہت سے بہن بھائی سمجھتے ہیں کہ گرم پانی پینے کی وجہ سے چینیوں کے پیٹ بالکل چپٹے ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی جریدے فوربز کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ارب پتی یعنی 'سیٹھ' چین کے دارالحکومت بیجنگ میں رہتے ہیں۔ ہم نے یہاں 'پیٹ نہیں تو سیٹھ نہیں' والے سیٹھ بھی دیکھے ہیں۔ گرمیوں میں ایسے سیٹھ پیٹ کے اوپر سے اپنی قمیض اٹھا کر سینے تک لے آتے ہیں۔ اسے بیجنگ بکنی کہا جاتا ہے۔ ہم ان کی توندوں کے نظارے کرتے ہوئے سوچتے ہیں کہ پاکستان میں جانے لوگوں کو چینیوں کے چپٹے پیٹوں کی کہانیاں کس نے سُنا رکھی ہیں۔
چینیوں کے لیے گرم پانی پتلے ہونے کے نسخے سے زیادہ ہر بیماری کی دوا ہے۔ ہم ایک بار کچھ چینیوں کے ساتھ سفر میں تھے۔ ہماری ایک ساتھی نے بتایا کہ ان کے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔ ہمارے پاس پیٹ درد کی ایک دوا موجود تھی۔ ہم نے اسے پیش کی تو اس نے ہماری آنکھوں کے سامنے اپنی گرم پانی کی بوتل لہراتے ہوئے کہا کہ وہ گرم پانی پی رہی ہیں۔ وہی ان کے درد کی دوا ہے۔
چینیوں کے بارے میں یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ وہ بہت محنتی ہوتے ہیں، اور یہ صد فیصد درست بات ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ محنت ان کی جینیات میں شامل ہے۔ چینیوں کے اسمارٹ ہونے پر سوال کیا جاسکتا ہے لیکن محنتی ہونے پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ چینی ناکامی پر ہمت نہیں ہارتے۔ انہیں جو کام دیا جاتا ہے وہ اسے کرکے ہی دم لیتے ہیں۔ چاہے اس میں انہیں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگ جائے۔
چینیوں کے بارے میں یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ وہ دماغی طور پر اپنی حکومت کے غلام بن چکے ہیں۔ ان کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہے۔ ان کی حکومت انہیں جیسا کہتی ہے وہ ویسا ہی کرتے ہیں۔ اس میں بھی سچائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ چینی اپنی نجی محفلوں میں جہاں انہیں لگے کہ ان کی بات سنی جائے گی وہاں حکومتی پالیسیوں کے بارے میں بات چیت کرتے ہیں۔ چینی سوشل میڈیا پر بھی ان پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہاں، یہ الگ بات ہے کہ حکومت ایسی پوسٹس کو فوراً ڈیلیٹ کردیتی ہے۔ مگر چینیوں نے اس سنسرشپ کے ساتھ رہنا اور اس سے نمٹنا سیکھ لیا ہے۔
پچھلے سال لاک ڈاؤن کے دوران جب یونیورسٹی کی طرف سے بیرونِ ملک سے آئے ہوئے طالب علموں کو کیمپس سے باہر جانا منع تھا، تب ہم پورا دن کیمپس میں اِدھر سے اُدھر لڑکھتے ہوئے گزارتے تھے۔ ایک دن ایسے ہی لڑکھتے ہوئے اپنے ماسٹرز کے سپروائزر سے جا ٹکرائے تو اپنے دیسی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ان سے شکایتیں لگانا شروع کردیں۔
انہوں نے پورے تحمل سے ہماری بات سنی، پھر ہمارے فون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے اسے کمرے میں رکھو اور جہاں جانا ہے چلی جاؤ۔ ہم ہکا بکا ان کی شکل دیکھنے لگے۔ ایک چینی ہمیں اصول توڑنا سکھا رہا تھا۔ ہمیں ان کی بات سمجھ ضرور آئی لیکن ہم نے اس پر عمل نہیں کیا۔ ملکِ غیر میں پنگا اتنا ہی لینا چاہیے جتنا برداشت کیا جاسکے۔
ہمارے کچھ ہم وطن چین کو سستا بھی سمجھتے ہیں۔ جانے انہیں چین کے بارے میں اتنی بڑی غلط فہمی کیسے لاحق ہوئی ہے۔ شاید اس میں ایک بڑا کردار محلے میں موجود چائنہ شاپس کا ہے جہاں ہر چیز 50 روپے سے کم قیمت پر مل جاتی ہے۔ ان اشیا کا معیار بھی کچھ خاص نہیں ہوتا۔ چلیں تو چاند تک ورنہ رات تک والا حساب ہوتا ہے۔
چین میں اُلٹ سین ہے۔ چین کے بڑے شہروں میں قیمتیں نیویارک، لندن، پیرس اور ایمسٹرڈم جیسے بڑے شہروں سے بھی زیادہ ہیں۔ چیزوں کا معیار بھی بہترین ہے۔ ہر برانڈ اور ہر قسم کی نقل مل جاتی ہے۔ آپ جو خریدنا چاہیں خرید لیں۔ یہاں دھوکا ملنے کے امکانات بہرحال دیگر ممالک سے کم ہیں۔ اس کی وجہ ہمیں آج تک سمجھ نہیں آسکی۔ آپ کو آئے تو ہمیں ضرور بتائیں۔
تحریم عظیم چین کے دارالحکومت بیجنگ میں موجود کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنا سے پی ایچ ڈی کر رہی ہیں.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔