طالبان کی امداد کیلئے تیار ہیں، ابھی حکومت کو تسلیم نہیں کرسکتے، ماسکو
روسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ روس، چین اور پاکستان، افغانستان کو امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن وہ اس وقت طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق انسانی امداد و اقتصادی حمایت کا وعدہ روسی، پاکستانی اور چینی عہدیداران کی درمیان گفتگو کے بعد سامنے آیا جو بدھ کو ماسکو میں ہونے والے اجلاس میں افغانستان حکومت کے نمائندگان سے ملیں گے۔
تاہم روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا کہنا تھا کہ جب تک اقتدار سنبھالتے وقت کیے جانے والے وعدے پورے نہیں ہوجاتے روس، طالبان کو تسلیم نہیں کرے گا، ان وعدوں میں نئی حکومت میں سیاسی اور نسلی گروپوں کی شمولیت شامل ہے۔
مزید پڑھیں: امریکا کا ماسکو میں افغانستان سے متعلق اجلاس میں شرکت کا امکان
ناقدین کا کہنا تھا کہ سابقہ باغی تحریک، خواتین، اقلیتوں اور دشمنوں کو دیوار سے نہ لگانے کے وعدوں سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔
سرگئی لاروف نے رپورٹرز کو بتایا کہ ‘طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا حالیہ گفتگو میں شامل نہیں ہے، خطے کے دیگر بااثر ممالک کی طرح ہم بھی ان سے رابطے میں ہیں، ہم چاہتے ہیں وہ اپنے وعدے پورے کریں جو انہوں نے اقتدار میں آنے پر کیے تھے’۔
روس کو افغانستان میں قیادت کی تلاش
اگست کے وسط میں 20 سال بعد امریکا و اتحادی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد افغانستان کی حکومت تحلیل ہوگئی تھی۔
1979 سے 1989 تک افغانستان میں تباہ کُن جنگ لڑنے والا ملک روس، وسیع خطے میں عدم استحکام کو روکنے کے لیے سفارتی اقدامات اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ عدم استحکام سے اس کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان کے معاملے پر ماسکو میں مذاکرات: روس کی دعوت پر بھارت شرکت کیلئے رضامند
روس، خاص طور پر وسطی ایشیا کی سابق سویت جمہوریتوں میں دہشت گردوں کی موجودگی کے امکانات سے پریشان ہے، اس خطے کو ماسکو دفاعی بفر کے طور پر دیکھتا ہے۔
روس کے دیگر عہدیداران نے بدھ کو ہونے والی گفتگو کے لیے توقعات کو تبدیل کیا ہے جبکہ امریکا کا کہنا تھا وہ اس مرحلے پر گفتگو کا حصہ نہیں ہوگا لیکن مستقبل میں شامل ہونے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
صدر ولادی میر پوٹن کے نمائندہ نمائندے ضمیر کابولوف نے افغانستان کے حوالے سے کہا کہ گزشتہ ہفتے انہوں نے کوئی اہم پیش رفت کی توقع نہیں کی تھی۔
کریملن کے ترجمان دیمیرتی پیسکوف نے کہا کہ ان مذاکرات کے ذریعے ‘وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آگے افغانستان میں کیا ہوگا’۔