حکومتِ سندھ نے ’ایم ڈی کیٹ‘ کے پاسنگ مارکس کم کردیے
حکومت سندھ نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کی جانب سے مقرر کردہ ایم ڈی کیٹ کے مارکس 65 فیصد سے کم کر کے ایم بی بی ایس میں داخلہ لینے کے خواہشمند طلبا کے لیے 50 فیصد جبکہ بیچلرز آف ڈینٹل سرجری (بی ڈی ایس) میں داخلہ لینے کے خواہاں طلبا کے لیے 40 فیصد کردیا جائے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اگر پی ایم سی کے ساتھ معاملات طے نہ پاسکے تو صوبائی حکومت آئندہ سال سندھ میڈیکل اور ڈینٹل کونسل کے قیام کے لیے قانون بھی بنائے گی۔
مذکورہ فیصلے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو کے زیر صدارت اجلاس میں کیے گئے، سرکاری و نجی میڈیکل جامعات کے وائس چانسلرز نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔
اجلاس ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کے بعد پیش آنے والے حالات کے پیش نظر بلایا گیا تھا جس کے آغاز میں صوبائی وزیر نے امتحان کے لیے اختیار کیے جانے والے طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی ایم ڈی کیٹ کے امتحانات دوبارہ لینے کی سفارش
ڈاکٹر عذرا پیچوہو کا کہنا تھا کہ پی ایم سی نے میڈیکل کے طلبا اور صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے سنگین مسائل پیدا کیے ہیں اور اب حکومت سندھ کے لیے یہ ضروری ہوچکا ہے کہ وہ اگلے سال سے میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے خود امتحان لے۔
ان کا کہنا تھا اگر پی ایم سی نے ہماری تحفظات دور نہ کیے تو ہم صوبائی سطح پر میڈیکل اور ڈینٹل کونسل کا قانون بنائیں گے۔
صوبائی وزیر نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ کے وائس چانسلر کو ہدایت دی کہ ایک ویب پورٹل قائم کریں جس میں ان بچوں کا ڈیٹا جمع کریں جنہوں نے ایم بی بی ایس میں داخلے کے لیے ایم ڈی کیٹ میں 50 فیصد اور بی ڈی ایس میں داخلے کے لیے 40 فیصد نمبرز حاصل کیے ہیں۔
مزید پڑھیں: ایم ڈی کیٹ کے خلاف مرحوم ڈاکٹر عبدالقدیر کی درخواست پر وزارت داخلہ و صحت سے جواب طلب
انہوں نے کہا کہ ڈیٹا جمع ہونے کے بعد کسی مخصوص ضلع کے کالج میں دستیاب نشستوں، طلبا کے ڈومیسائل اور ان کی ایم ڈی کیٹ میں کارکردگی کے مطابق داخلہ پالیسی بنائی جائے گی۔
صوبائی وزیر نے زور دیا کہ دیہی علاقوں کے طلبہ کو میڈیکل کالجز میں داخلہ لینے کا موقع دینا چاہیے۔
سندھ کے میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں نشستوں کی مجموعی تعداد 5 ہزار 490 ہے، صوبے سے 68 ہزار 680 طلبہ نے ایم ڈی کیٹ کا امتحان دیا تھا جن میں سے 7 ہزار 797 طلبہ نے کامیابی حاصل کی۔
پی ایم سی نے امتحان میں کامیابی کے لیے 65 فیصد نمبرز کو لازمی قرار دیا تھا۔
ٹیسٹ میں پہلے روز سے بدانتظامی اور بدعنوانی کے الزامات کے باعث خرابی پیدا ہوئی اور ملک بھر میں اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا وفات سے قبل ’ایم ڈی کیٹ‘ کو چیلنج کرنے کا ارادہ تھا
ڈاکٹروں کی نمائندگی کرنے والی پیشہ ورانہ تنظیموں نے بھی طلبہ کے احتجاج کی حمایت کی اور الزام عائد کیا کہ ایم ڈی کیٹ کے انعقاد کا کانٹریکٹ ایک نجی فرم کو دے کر پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کی خلاف ورزی کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ تیاری کے بغیر آن لائن امتحانات لے کر طلبہ کا وقت ضائع کیا گیا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتے ہوئے امتحان دوبارہ شفاف انداز میں منعقد کیے جائیں۔
دریں اثنا پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے نمائندگان کی جانب سے ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس میں ایم ڈی کیٹ میں حصہ لینے والے طلبہ کو درپیش مسائل کے حوالے سے گفتگو کی گئی اور اب وہ نتائج کا جائزے کے لیے درخواست دینا چاہتے ہیں۔
ایسوسی ایشن نے اپنے بیان میں کہا کہ ‘ہر درخواست کی مد میں 5 ہزار 30 روپے لیے جارہے ہیں، یہ طلبہ اور ان کے والدین کے ساتھ ناانصافی ہے جو پہلے ہی متنازع امتحان کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا ہیں’۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میڈیکل کمیشن کو ایم ڈی کیٹ کے انعقاد سے روک دیا گیا
ایسوسی ایشن نے کہا کہ ’طلبہ پہلے 6 ہزار روپے امتحانی فیس کے عوض ادا کر چکے ہیں’۔
پی ایم اے نے مطالبہ کیا کہ نتائج کا دوبارہ جائزہ بغیر کسی فیس کے لیا جائے کیونکہ اس مخصوص معاملے میں متعدد غریب طلبہ جائزے کی درخواست نہیں دے سکتے۔
اجلاس میں دور دراز علاقوں سے درخواست گزاروں کو اسلام آباد بلانے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’وہ طالبات جو تنہا سفر نہیں کر سکتیں ان کے لیے اسلام آباد جانا بہت مشکل ہے’۔
ایسوسی ایشن نے متفقہ طور پر امتحان کے نتائج مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ٹیسٹ دوبارہ منعقد کیا جائے اور پورے پاکستان میں ایک ہی دن امتحان لیا جائے۔