نقطہ نظر

18 اکتوبر 2007ء: مجھے یاد ہے ذرا ذرا

2008ء کے الیکشن آئے تو سیاسی پنڈتوں کا کہنا تھا اگر محترمہ واپس نہیں آئیں تو سیاسی طور پر محاورے کی زبان میں ان کی موت ہوجائے گی۔

یہ ضیا دور کے کڑے بلکہ سیاہ دن تھے مگر ہمارے جیسے نووارد صحافیوں کے لیے یہ بڑے ہی پُرجوش اور ہنگامہ خیز شب و روز تھے، نہ گھر کی فکر نہ ایسا روزگار جو پیروں کی زنجیر بنے۔

ان دنوں ہم سڈنی میں مقیم صحافی اور ادیب اشرف شاد کے حوالے سے ہفت روزہ معیار سے وابستہ ہوچکے تھے۔ معیار کے مدیر محمود شام بھٹو صاحب کے جیالے مگر ایڈیٹری کے معیار کی بھی تمام صلاحیتوں کا تجربہ رکھتے تھے۔

ہم طالب علمی کے زمانے سے ہی ماسکو نواز نیشنل عوامی پارٹی کی سیاست کے اسیر ہوچکے تھے۔ کابل میں ماسکو نواز حکومت آئی تو ایک دن کہنے لگے کہ ’کابل حکومت میں جلا وطن اجمل خٹک اہم مقام رکھتے ہیں، راستے کھلے ہیں، اور ہاں آپ کی روانگی سے پہلے 70 کلفٹن میں بے نظیر بھٹو سے ملاقات ضروری ہے کہ آپ کو علم ہے کہ مرتضیٰ اور شاہنواز بھٹو کابل میں ہیں‘۔

مئی 1978ء اور رمضان کا مہینہ تھا۔ شام گئے بی بی کو دیکھا تو وسیع میز پر افطار کا پورا اہتمام تھا۔ شام صاحب نے علیحدگی میں کچھ باتیں کرکے بعد میں بی بی کو ہمارے کابل جانے کی اطلاع دی۔ بی بی نے خوشگوار حیرت سے کہا کہ ’جس حوالے سے آپ کابل جارہے ہیں وہاں صدر نور محمد ترہ کئی سے ملاقات تو ہوگی ہی۔ ان سے کہیں صاحب کی رہائی کے لیے بیان دیں، ماسکو پر بھی اس کے اثرات پڑیں گے مگر ہاں 'میر' سے ملنے میں احتیاط کرنا‘۔

کابل سے واپسی پر ایک کتاب ’طورخم کے اس طرف‘ لکھی تو بے روزگاری اور تھانہ کچہری میں دہائی نکل گئی۔ اس دوران محترمہ بھی یا تو نظر بندی میں ہوتیں یا جلاوطنی میں۔

اپریل 1986ء میں ان کی لاہور واپسی پر لاکھوں کی عوامی ریلی میں راقم بھی شامل تھا۔ جنرل ضیاالحق کی حادثاتی موت، بے نظیر بھٹو کا وزیرِاعظم بننا اور پھر اقتدار سے محروم ہونے کے بعد شریفوں سے نبرد آزما ہونے کے دنوں میں محترمہ سے اس لیے قربت ہوئی کہ ان دنوں ہم کراچی پریس کلب کے سیکرٹری ہوا کرتے تھے۔ محترمہ سمیت اپوزیشن کی میڈیا تک پہنچنے کی واحد پناہ گاہ پریس کلب ہی تھا۔

1993ء میں بی بی کی دوبارہ حکومت آئی تو ایران اور ترکی کے دورے میں ہمراہی کا موقع بھی ملا۔ دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد پھر ان کی جلا وطنی کا سلسلہ شروع ہوا۔

یہاں لندن جلاوطنی سے پہلے ایک دلچسپ واقعہ یاد آرہا ہے۔ بلاول ہاؤس کے ایک مختصر ڈرائنگ روم میں چند سینئر صحافیوں، غازی صلاح الدین، محمود شام اور صلاح الدین حیدر کے ساتھ ہم بھی مدعو تھے۔ محترمہ نے اپنے ملک چھوڑنے کے حوالے سے بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ مجھ پر اور آصف پر سیکڑوں مقدمات ہیں، ہمارے اکاؤنٹ بند ہیں۔ پھر پاس رکھے بیگ کو اٹھاتے ہوئے کہا کہ بچوں کی فیس دینا بھی مشکل ہورہا ہے، یہ سب کچھ اتنا ڈرامائی تھا کہ ہم میں سے ایک دو کے ہاتھ جیبوں میں بٹوے ٹٹولنے لگے۔

2002ء میں جب پرائیویٹ چینل آئے تو ہمارے بھی اچھے دنوں کا آغاز ہوا، اور اسی سلسلے میں باقی تمام سیاستدانوں سے سمیت بی بی سے بھی گاہے بہ گاہے فون پر رابطہ رہتا۔ 2002ء کے بعد 2008ء کے الیکشن آئے تو سارے سیاسی پنڈتوں کا کہنا تھا اگر محترمہ الیکشن سے پہلے واپس نہیں آئیں تو سیاسی طور پر محاورے کی زبان میں ان کی موت ہوجائے گی۔

2007ء کے آس پاس ہمارا لندن جانا ہوا۔ پی پی ٹکٹ کے لیے سارے ملک کے پارٹی جیالوں نے لندن میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ بے نظیر بھٹو کا قیام ایجویڑ روڈ کے ایک فلیٹ میں تھا، اور اس کے قریب ہی ایک ریسٹورینٹ میں واجد بھائی (سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے قلم تھرتھرارہا ہے) بشیر ریاض، سینئر صحافی ضیاالدین اور مشتاق لاشاری کے ساتھ خوش گپیاں ہورہی تھیں۔ وہیں اطلاع ملی کے بی بی میٹنگ چھوڑ کر ابوظہبی چلی گئی ہیں اور صدر مشرف سے ملاقات کے بعد این آر او کی نوک پلک پر کام ہورہا ہے۔

خیر، ہم کراچی واپسی پر انتخابی مہم میں جتے ہوئے تھے اور بی بی کی اکتوبر 2007ء میں آمد کی خبر آچکی تھی۔ ساری دنیا کے میڈیا کی طرح ہماری بھی خواہش تھی کہ ’چند منٹ‘ کا انٹرویو لے کر ایک بڑے اسکوپ کا اعزاز حاصل کیا جائے اور پھر اکتوبر کے دوسرے ہفتے یہ موقع مل بھی گیا۔

14 سال تو ہو ہی گئے تھے اسکرین پر آواز لگاتے، بڑے بڑے گھاگ سیاستدانوں کا انٹرویو کرچکا تھا مگر وہ ایکسائٹمنٹ بھولی نہیں جاتی جو محترمہ کے انٹرویو کے وقت تھی۔ سب سے زیادہ ڈر یہ تھا کہ ٹیلی فون لائن دھوکا نہ دے جائے، مگر مقررہ وقت پر محترمہ کی کھنکناتی ہوئی ہیلو کی آواز سنائی دی تو 18 اکتوبر کی واپسی کے حوالے سے میری زبان پھسلی کہ ’اچھا تو 27 اکتوبر کو آپ کی کراچی آمد ہر صورت میں ہوگی؟‘

محترمہ خوشگوار موڈ میں تھیں، ’قطع کلامی معاف‘ کی مشکل اردو کا جملہ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے تو آنے کی جلدی ہے، آپ چاہتے ہیں میں دیر سے آؤں۔‘

اپریل 1986ء کی طرح اس بار بھی بی بی کی آمد پر لاکھوں کا ہجوم تھا جس نے ان کے مخالفین کو پریشان اور دنیا کو حیران کردیا تھا۔

اس وقت تک جولائی 2007ء میں لال مسجد کا واقعہ ہوچکا تھا اور خلافِ معمول بی بی کے جو بیان سامنے آرہے تھے اور ان کے انٹرویوز میں مذہبی انتہا پسندوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا، ان کو سامنے رکھتے ہوئے بی بی یہ اچھی طرح جان گئی تھیں کہ مذہبی شدت پسند پاکستان واپسی پر ان کی جان کے درپے ہوں گے۔ اسی لیے واشنگٹن، متحدہ عرب امارات اور جی ایچ کیو سے طویل اور اپنی سیاسی زندگی کی مشکل ترین مشاورت کے بعد بی بی کا خیال تھا کہ وہ ایک پاپولر حمایت اور ریاست کے مضبوط ستونوں کی مدد سے اپنا اقتدار قائم کرلیں گی، مگر اس بار کئی سالوں کی جلاوطنی کے بعد وہ اس بات سے شاید پوری طرح آگاہ نہیں تھیں کہ انتہا پسندوں کی جڑیں وطن عزیز میں کتنی گہری اور مضبوط ہوچکی ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف پر ہونے والے دونوں حملوں میں اس بات کے شواہد سامنے آئے کہ اس میں فضائیہ سے تعلق رکھنے والے نچلے درجے کے اہلکار ’القاعدہ‘ کے معاون بنے تھے۔

18 اکتوبر کو بی بی کا استقبال اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت تھا کہ ایک دہائی کی غیر موجودگی کے باوجود ان کی مقبولیت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے۔ ملکی و غیر ملکی میڈیا سارا دن بی بی کے ساتھ رہا۔ کئی بار انہوں نے مجھے دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور مسکراہٹ کا اظہار کیا۔ سارے راستے ایک عجیب والہانہ پن تھا۔ ناچتے گاتے لاکھوں عوام بی بی کے ٹرک کے ساتھ اس طرح چل رہے تھے جیسے ساری رعایا اپنی فاتح ملکہ کے استقبال کے لیے اُمڈ آئی ہو۔

رات کو مجھے اسٹوڈیو سے لائیو شو کرنا تھا اسی لیے شام 7 بجے ایک لمبا راستہ لے کر 4 گھنٹے میں آفس پہنچا۔ سارے چینلز پر بی بی کے جلوس کی لائیو کوریج تھی۔ اندازہ یہی تھا کہ رات کے 2، 3 بجے یہ جلوس مزارِ قائد پہنچے گا۔ اب مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ کیا وقت تھا لیکن اچانک سارے دفتر میں ٹیلیفون کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ پہلے بڑے دھماکے کی خبر سن کر میں دہل گیا۔ میں نے سب سے پہلا فون پیپلزپارٹی کی ایم این اے فوزیہ وہاب کو کیا۔ فون مسلسل انگیج جارہا تھا۔ اس وقت تک تمام چینلوں پر خودکش حملے کے مناظر آنے لگے تھے۔

فوزیہ سے جیسے ہی رابطہ ہوا تو مجھے لگا کہ فوزیہ کی روتی بلکتی آواز کربلا سے آرہی ہو۔ ’مجاہد بی بی پر خودکش حملہ ہوگیا ہے‘۔ چیخیں اور بلکتی، سسکتی آوازیں کان میں ایسی پڑیں کہ مجھ میں فوزیہ کی مزید آواز سننے کی تاب نہیں تھی۔

خبر آگئی کہ بی بی دونوں حملوں میں بچنے میں کامیاب ہوگئیں۔ سارا میڈیا بلاول ہاؤس دوڑ پڑا۔ اگلے دن ہمارا خیال تھا کہ شام کو کوئی پریس کانفرنس ہوگی اور بی بی بریفنگ دیں گی۔ میں آغا خان اسپتال میں تھا کہ خبر آئی بی بی لیاری سے جناح اسپتال ہوتی ہوئی اب بلاول ہاؤس میں ان کارکنوں کے اہلِ خانہ سے مل رہی ہیں جو رات کو شہید ہوئے تھے۔

اگلے دن جب میڈیا سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو بی بی کے پرسنل سیکرٹری نے دو دن بعد شام کو ملاقات کا وقت دیا۔ بلاول ہاؤس کے اندر جانا اس وقت بڑا جان جوکھوں کا کام تھا کہ ایک تو باہر بے پناہ میڈیا اور پارٹی کے حامیوں کا ہجوم اور سیکیورٹی کا سخت نظام تھا۔

بی بی سے کوئی 6 سال بعد ملاقات ہورہی تھی۔ سفید کپڑوں میں کئی دن کی جاگی تھکی بی بی سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ ان پر یہ حملہ بڑی پلاننگ کے بعد کیا گیا ہے اور حکومت کے اندر اور باہر موجود مذہبی شدت پسند طویل عرصے سے اس کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ انٹرویو کے بعد انہوں نے روایتی محبت سے بھرپور دھیمی مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا کہ جلد تفصیلی ملاقات ہوگی۔

جنوری انتخابات کے لیے ہنگامہ خیز مہم جاری تھی۔ ایک دن میں کئی کئی شہروں میں دن رات بی بی کے جلسے جلوسوں کا سلسلہ جاری تھا۔ بی بی کی تقریروں میں اب کھل کر کہا جارہا تھا کہ مشرف حکومت میں شامل چند بڑے قبائلی علاقوں کے شدت پسندوں کی مدد سے انہیں مارنا چاہتے ہیں۔

ممتاز سفارت کار ظفر ہلالی جو بی بی اور افغان صدر حامد کرزئی کی آخری ملاقات میں موجود تھے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ ’افغان صدر نے بی بی کو تفصیل سے آگاہ کیا تھا کہ کس طرح خودکش حملے ڈیورنڈ لائن کے اس طرف اور اس طرف اب ایک کاروبار کی صورت اختیار کرگئے ہیں۔ پہلے فون آتا ہے کہ اتنے ملین دے دو ورنہ کل دس خودکش حملہ آور مقررہ مقامات پر خود کو اڑادیں گے اور باقاعدہ ثابت کرنے کے لیے اگلے دن ایک خودکش حملہ آور اپنے آپ کو اڑا بھی دیتا ہے۔ افغان صدر اپنی گفتگو سے بی بی کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ وہ اس وقت سب سے بڑا ٹارگٹ ہیں‘۔

افغان صدر سے ملاقات کے بعد بی بی کو لیاقت باغ کے جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ بی بی کا خطاب اور رخصتی آج ساری دنیا کے کیمروں میں محفوظ ہے۔ جلسے سے خطاب کے بعد ایک عجیب جوش وخروش، مستی و سرشاری ان کی چال میں تھی۔

بی بی کی شہادت نے انہیں اپنی سیاسی زندگی سے بڑا بنادیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اتنی طویل جدوجہد اور پھر اس طرح کی شہادت کا رتبہ نہ کسی کو ملا ہے اور نہ شاید کسی کو ملے گا۔

جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

مجاہد بریلوی

مجاہد بریلوی ’جالب جالب‘، ’فسانہ رقم کریں‘ اور ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں پاکستان کے پہلے نجی چینل پر مجاہد آن لائن نامی پروگرام کی میزبانی کی اور پھر 8 سال تک سی این بی سی پر پروگرام ’دوسرا پہلو‘ کی میزبانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈان نیوز ٹی وی پر ’سوال سے آگے‘ کی میزبانی بھی وہ کرچکے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔