امریکا اور اسرائیل کی تنبیہ کے باوجد ایران کا میزائیل تجربہ
ایرانی فوج کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام پر اسرائیل اور امریکاکی تنبیہ کے بعد ایران کی مرکز میں جنگ کے دوران ‘حساس’ مقامات کے دفاع کےلیے اینٹی میزائل کا کامیابی سے تجربہ کیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘فارز نیوز’ نے سیمنان میں واقع حضرت ختم الانبیا ائیر بیس کے کمانڈر جنرل عامر قادر رحیم زادہ کے بیان کا حوالہ دیا کہ،انہوں نے کہا ہے کہ’ حساس اور اہم تصنیبات کی حفاظت کے لیے ملک کا فضائی دفاعی نظام متعدد تہوں کے ذریعے مکمل طور پرتیار ہے’۔
ملک کی طرف آنے والے کروس میزائل کو تباہ کرنے کے لیے ‘ماجد’ دفاعی نظام نےایلیٹ ریولوشنری گارڈ کور ‘ڈیسفول ’ نظام کے ساتھ مل مشقیں شروع کی ہیں، مشترکہ مشقوں کا آغاز منگل کو ہوا تھا۔
مزید پڑھیں: ایران کا جوہری معاہدے سے مکمل دستبرداری کا اعلان
ایران کا وسطی علاقہ نیطنز افزودگی کے پلانٹس کا گھر ہے اور دوسرا جوہری مقام ہے۔
جنگی گیم سے قبل یورپی یونین کے سفیر کا ایران کا دورہ متوقع تھا جو جمعرارت کو تہران اور امریکا سمیت دیگر مرکزی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدہ بحال کرنے سے گفتگو میں معاون کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
جنرل عامر قادر رحیم زادہ کا کہنا تھا کہ ‘مشترکہ فضائی دفاعی مشقوں کا اہم مقصد کروس میزائل حملے کے خلاف ٹھوس اور متعدد تہوں پر مشتمل دفاع کرنا ہے جو کامیابی سے مکمل ہوا تھا’۔
بریگیڈئیر جنرل عامر علی حاجی زادہ کاکہنا تھا کہ یہ فضائی دفاعی نظام اب سے ’پورے ملک میں نصب کیا جائے گا’۔
انہوں نےکہا کہ’ ہمارے پاس یہ صلاحیت 15 سال پہلے نہیں تھی ہم زمین سے فضا اور رڈار کے لیےغیر ملکی آلات پر انحصار کرتے تھے’۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کے ساتھ جوہری نگرانی کا معاہدہ، مذاکرات کی اُمید بڑھ گئی
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ‘اِرنا’ کا کہنا تھا کہ آپریشن میں راڈار اور الیکٹرونکس نظام بھی نصب کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہاکہ اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینٹ نے گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں خبردار کیا تھا کہ ان کا ملک تہران کو جوہری ہتھیار بنانے کی ‘اجازت نہیں دے گا’۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اگست میں کہا تھا کہ واشنگٹن نے بھی یہ اس عزم کیا ہے کہ ‘ ایران ہرگز’ جوہری بم نہیں بنائے۔
انہوں نے کہاکہ ‘ ہم پہلی بار اس سے سفارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ یہ ہمیں کہاں لے کر جاتی ہے’۔
ایران کے اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری علی شام خانی نے ٹویٹ کیا تھا کہ’ اگر سفارتی تعلقات ناکام رہے تو ہم دوسرے اختیارات کی طرف بڑھیں گے جوبائیڈن اور نفتالی بینیٹ دونوں نے فوج کے ممکنہ استعمال کا اشارہ دیا تھا’۔
تہران کا کہتا ہے کہ اس کا جوہری منصوبہ پُرامن مقاصد کےلیے ہے۔
یورپین یونین کے سفیر انریق مورا نے 2015 کی امریکی ڈیل پر مذاکرات کی فوری طور پر بحالی کےلیے یورپی ممالک اور جو بائیڈن انتظامیہ کے دباؤ کے ہمراہ ایران کا دورہ کیا۔
مزید پڑھیں: امریکا جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے ایران کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار
ایران کی وزارت خارجہ نے ملک میں مورہ کے میشن کا اعلان کیا تھا۔
2015 کا معاہدہ جوہری پروگرام سے رکنے پر ایران کا پابندیوں سے مستثنیٰ کرتا ہے لیکن یہ 2018 سے ایران کا حامی رہا جس کے بعد سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر دستبرداری اختیار کر کے دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھی۔
ایران کی جانب سے بارہاں کہا ہے کہ وہ ‘جلد’ دوبارہ گفتگوکرنے کے لیے تیار ہے۔
ایران سے بلا وسطہ امریکی مذاکرات کے سربراہ روب ملی کا کہنا تھا کہ واشگٹن اور بائیڈن انتظامیہ نے سال 2015 کے معاہدے پر واپس آنے کو ترجیح دی تھی ،لیکن ممکن ہے کہ ایران مختلف راہ کا انتخاب کرے۔
انہوں نے کہاکہ امریکا اور اس کے علاقائی اتحادی پلان بی پر کام کر رہے ہیں۔