پارلیمانی کمیٹی نے جبری مذہب تبدیلی سے متعلق بل مسترد کردیا
وزارت مذہبی امور کی جانب سے مخالفت کے بعد پارلیمانی کمیٹی نے جبری مذہب تبدیلی سے متعلق مسترد کردیاجبکہ اقلیتی اراکین نے اس فیصلے پر احتجاج کیا۔
جبری مذہب تبدیلی بل اقلیتوں کے تحفظ کی پارلیمانی کمیٹی میں زیر بحث آیا جہاں وزیر مذہبی امور نورالحق قادر نے کہا کہ جبری مذہب تبدیلی کے خلاف قانون بنانے کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: کم عمری کی شادی اور جبری مذہب تبدیلی کے خلاف بل پیش
انہوں نے خبردار کیا کہ جبری مذہب تبدیلی کا قانون ملک کے امن کو نقصان پہنچائے گا اور اقلیتوں کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے اور وہ مزید خطرات کا شکار ہوں گے۔
صوبوں میں جبری مذہب تبدیلی کو روکنے کے لیے قومی اسمبلی کے اسپیکر اور وزیراعظم کے دفتر کو اقدامات کرنے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر قانون سازی ہنگامہ آرائی کا باعث بن سکتی ہے۔
پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ جبری مذہب تبدیلی کا مسئلہ وزیراعظم کے سامنے پہلے ہی اٹھایا جاچکا ہے اور انہوں نے اس معاملے پر ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنادی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم جبری مذہب تبدلی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں’ اور انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ‘قانون مسائل کا احاطہ کرے گا اور اس کا مقصد بین الاقوامی اداروں سے داد لینا نہیں ہے’۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس موضوع پر قانون سازی کی عمر کی حد پر مخالفت کی گئی ہے جو اسلام اور آئین پاکستان کے خلاف ہے۔
وزیر مملکت نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنے دفتر میں بلایا تھا اور اس حوالے سے قانون سازی سے خبردار کرتے ہوئے اس کو خطرناک قدم سے تعبیر کیا۔
یہ بھی پڑھیں: جبری مذہب تبدیلی کی وضاحت اسلامی نظریاتی کونسل کرے گا، پارلیمانی کمیٹی
علی محمد خان نے کہا کہ ‘فروغ نسیم نے مجھے کہا کہ وزارتوں کی اہمیت بہت کم ہوتی ہے کیونکہ وہ آتی جاتی ہیں لیکن ہمیں اسلام کے خلاف نہیں جانا چاہیے’۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے بھی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جبری مذہب تبدیلی کا رجحان نہیں ہے اور ‘یہ بل اسلام مخالف ہے’۔
حکومت کی جانب سے یہ قانون پیش کرنے پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘یہ موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں اور نہ صرف پاکستان بلکہ پوری مسلم دنیا اور مشکلات کا سامنے کرنے والی اقلیتوں کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے ہے’۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن اسمبلی لال چند ملہی نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وزیر کے الفاظ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جبری مذہب تبدیلی پاکستان میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘آپ اقلیتوں کو دیوار سے لگا رہے ہیں اور بل کو مسترد کرنے جیسے فیصلوں سے اقلیتوں کا اس ملک میں رہنا جہنم بنادیں گے’۔
لال چند ملہی نے دعویٰ کیا کہ بل وزارت مذہبی امور یا اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے مسترد نہیں کیا گیا بلکہ میاں مٹھو کی ہدایات پر خارج کیاگیا ہے۔
واضح رہے کہ میاں مٹھو بھرچونڈی شریف کے پیر ہیں، جن پر الزام ہے کہ وہ سندھ کے مضافات میں ہندو لڑکیوں کی جبری مذہب تبدیلی میں ملوث ہیں۔
لال چند ملہی کے الزامات پر جواب دیتے ہوئے علی محمد خان نے کہا کہ یہ جھوٹا اور سیاسی بیان ہے۔
سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ ‘کچھ بھی ہوجائے، ہم کسی کو اسلام کے خلاف جانے کی اجازت نہیں دیں گے’۔
کمیٹی کے ایک اور رکن مولانا فیض احمد نے کہا کہ بل غیر اسلامی اور غیر شرعی ہے، اور ‘ہم اس ملک میں کسی کو ایسا قانون بنانے کی اجازت نہیں دیں گے جو اسلام کے خلاف ہو’۔
پارلیمانی کمیٹی کے اس فیصلے پر اقلیتی اراکین نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو دن دہاڑے اغوا کیا گیا ہے اور اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کے مسلمان اراکین نے مؤقف اپنایا ہے کہ پاکستان میں جبری مذہب تبدیلی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: اقلیتی کمیشن نے جبری مذہبی تبدیلی کے خلاف قانون کا مسودہ تیار کرلیا
پی ٹی آئی کے رکن رمیش کمار نے کہا کہ ہم مرضی سے مذہب تبدیلی کے مخالف نہیں ہیں لیکن کئی ہندووں کو پیسے اور شادی کی لالچ دے کر اسلام قبول کروایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جب انہیں وہ سب کچھ نہیں ملتا جس کا وعدہ کیا گیا ہے تو پھر وہ گھر واپس آتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل نہیں کیا تھا’۔
انہوں نے کہا کہ جبری مذہب تبدیلی کے خلاف قانونی سازی کی مخالف کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ‘حکومت ان عناصر سے خوف زدہ ہے جو مسائل پیدا کرتے ہیں’۔
قبل ازیں اگست میں مختلف مکاتب فکر کے علما نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک سازش ہے اور حکومت کو تجویز دی تھی کہ وہ مغرب کے دھوکے میں نہ آئے اور اس بل کو اسمبلی میں پیش نہ کرے۔
ڈاکٹر قبلہ ایاز کی زیر صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں بل کے ڈرافت کا جائزہ لیا گیا تھا اور کئی شقوں پر اعتراض کیا تھا کہ جس میں مذہب تبدیلی کے لیے عمر کی حد بھی شامل تھی۔