طالبان نے پابندیاں جاری رہنے پر امریکا، یورپی یونین کو خبردار کردیا
طالبان کی نئی حکومت نے امریکا اور یورپ کے سفرا کو خبردار کیا ہے کہ پابندیوں کے ذریعے انہیں مسلسل دباؤ میں رکھنے کی کوششوں سیکیورٹی میں کمزوری پیدا ہونے کے ساتھ معاشی مہاجرین کی لہر کو جنم دے سکتی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے دوحہ میں گفتگو کے دوران مغربی سفرا کو بتایا کہ ’افغان حکومت کو کمزور کرنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ اس کے منفی اثرات دنیا کو سلامتی کے شعبے میں متاثر کریں گے اور ملک سے معاشی ہجرت ہوگی‘۔
اگست میں دو دہائیوں کے تنازع کے بعد طالبان نے امریکی حمایت یافتہ افغانستان کی حکومت کا تختہ الٹتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اسلامی امارات میں مذہبی قوانین کے تحت حکمرانی کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان کی آمد کے بعد افغانستان کے معاشی چیلنجز اور ان کا حل
تاہم ملک کو، جسے اب تک دہشت گرد تنظیم ’داعش‘ کے حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا، مستحکم کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو بین الاقوامی پابندیوں نے کمزور کردیا ہے، ملک میں بینک بغیر نقدی کے چل رہے ہیں جبکہ ملازمین بلامعاوضہ کام کر رہے ہیں۔
ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ امیر خان متقی نے دوحہ اجلاس کو بتایا کہ ‘ہم دنیا کے تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ موجودہ پابندیاں ختم کرتے ہوئے بینکوں کو معمول کے مطابق کام کرنے دیں تاکہ مخیر گروپس، تنظیمیں اور حکومت اپنے ذاتی ذخائر اور بین الاقوامی مالیاتی مدد سے عملے کی تنخواہیں ادا کر سکیں‘۔
مزید پڑھیں: طالبان کی معاشی بحران کے درمیان نئی افغان حکومت سامنے لانے کی تیاری
یورپی ممالک کو تشویش ہے کہ اگر افغان معیشت بحران کا شکار ہوتی ہے تو بڑی تعداد میں شہری ہجرت کریں گے جو پڑوسی ممالک پاکستان، ایران اور بالآخر یورپ کی سرحدوں پر دباؤ کا باعث بنے گا۔
واشنگٹن اور یورپی یونین کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھانے کو تیار ہیں لیکن طالبان کو اس ضمانت کے بغیر براہ راست تعاون فراہم کرنے سے انکاری ہیں کہ وہ انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے۔