دنیا

طالبان، 'داعش کے سنگین خطرے' پر قابو پانے میں کامیاب ہوسکیں گے؟

طالبان نے داعش کو بطور ایک منظم گروہ، اس کی قابلیت اور صلاحیت کو نظر انداز کیا تھا۔

طالبان کو افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل ہے لیکن ساتھ ہی انہیں نئے دشمن کا بھی سامنا ہے۔

شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ (داعش) نے مزید پر تشدد کارروائیوں کی دھمکی دی ہے لیکن اس مرتبہ طالبان بطور ریاست کردار ادا کررہے ہیں کیونکہ امریکی فوجی اور ان کی اتحادی افغان حکومت رخصت ہوچکی ہیں۔

طالبان نے امریکا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ عسکریت پسند گروپ پر نگرانی رکھیں گے، 2020 میں امریکا اور طالبان کے درمیان ہوئے معاہدے کے تحت طالبان نے اس بات کی ضمانت دی تھی کہ افغانستان، امریکا یا اس کے اتحادیوں کو دھمکی دینے والے دہشت گرد گروہوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دے گا۔

لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ 15 اگست کو طالبان کے ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے داعش کے حملوں میں اچانک اضافے کے ساتھ وہ اپنے عہد پر برقرار رہ سکیں گے یا نہیں۔

شمالی صوبے قندوز میں ایک بم دھماکے میں مسجد کے اندر 55 نمازی جاں بحق ہوگئے تھے۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں ’انتہا پسندی سے متعلق پروگرام‘ کے ریسرچ فیلو اینڈریو مائنز نے کہا کہ داعش نے زیادہ تر حملوں میں ریاست کو نشانہ بنایا ہے جبکہ اب امریکا اور بین الاقوامی فورسز جا چکی ہیں، داعش اب ریاست کے خلاف فعال ہے اور وہ ریاست طالبان ہے۔

طویل دشمنی

طالبان اور داعش دونوں اسلامی قانون کی بنیاد پر حکومت قائم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اہم نظریاتی اختلافات ہیں جو ان کے درمیان نفرت کا باعث ہے۔

طالبان کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان میں ایک اسلامی ریاست بنا رہے ہیں۔

داعش کا کہنا ہے کہ وہ اسلامک اسٹیٹ کے خواہاں ہیں، ایک عالمی خلافت ہے اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے مسلمانوں کو مدد کرنی چاہیے، یہ ہی وہ پہلو ہے جو طالبان کے حوالے سے ان کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے اور انہیں خالص اسلامی تحریک کے طور پر تسلیم نہیں کرتی۔

طالبان اور داعش دونوں خاص طور پر شریعت کے سخت ورژن کی حمایت کرتے ہیں اور انہوں نے خودکش حملہ آوروں جیسے حربے استعمال کیے ہیں لیکن جب داعش نے شام اور عراق کے علاقے پر حکومت کی، داعش اس سے بھی زیادہ سفاک نکلی اور اس نے طالبان سے زیادہ خوفناک سزائیں دیں۔

داعش 2015 میں افغانستان کے صوبے خراسان میں اسلامک اسٹیٹ کے نام سے ابھری اور عراق اور شام کے بیشتر حصے پر کنٹرول حاصل کرلیا، اس نے افغان اور عسکریت پسندوں کے ارکان کو بھی اپنی جانب متوجہ کرلیا ہے، جو طالبان کے ناراض اراکین تھے۔

طالبان نے ہمیشہ داعش کی قابلیت اور صلاحیت کو نظر انداز کیا اور طالبان کی بااثر شخصیت شیخ عبدالحمید حماسی نے غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کو بتایا کہ ان کی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

داعش ناقابل تردید خطرہ

آج بھی داعش ناقابل تردید خطرہ ہے۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے کنسلٹنٹ ابراہیم باہس نے کہا کہ حملوں کی شدت اور وسعت نے طالبان کو حیران کر دیا کہ داعش ’کوئی قلیل مدتی خطرہ نہیں ہے‘۔

اس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے کہ داعش دوبارہ علاقوں پر قبضہ کرلے جبکہ اس کا اولین مقصد طالبان کو غیرمستحکم کرنا اور نگراں کے طور پر طالبان کی ساخت کو خراب کرنا ہے۔

فی الحال اس کی حکمت عملی سست ہے، داعش قبائل اور دیگر گروہوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ اپنی تعداد کو بڑھائیں۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں ’انتہا پسندی سے متعلق پروگرام‘ کے ریسرچ فیلو اینڈریو مائنز نے کہا کہ ’یہ سب مل کر شورش کا مکمل طریقہ جانتے ہیں جسے سنبھالنے کے لیے طالبان تیار نہیں ہیں۔

فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز تھنک ٹینک کے تیار کردہ لانگ وار جرنل کے بل روجیو نے ایک مختلف نقطہ نظر پیش کیا، ان کا خیال ہے کہ طالبان اپنے طور پر داعش کو اکھاڑ پھینک سکتے ہیں یہاں تک کہ امریکی فضائی حملوں کے بیک اپ کے بغیر بھی جو داعش کو تقریباً ختم کر چکے تھے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان نے اپنے وسیع مقامی انٹیلی جنس پر مبنی نیٹ ورک کا استعمال کرتے ہوئے داعش کے کچھ گروہوں کو ختم کردیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ داعش کو پاکستان اور ایران میں محفوظ ٹھکانوں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

طالبان نے امریکا کے ساتھ داعش کے خلاف تعاون کو مسترد کر دیا ہے۔

طالبان کے سخت گیر ارکان داعش میں شامل ہو سکتے ہیں کیونکہ طالبان قیادت جو اب اقتدار میں ہے، انہیں داخلی یا خارجی سطح پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا، طالبان نے ایک جامع حکومت کا وعدہ کیا ہے حالانکہ انہوں نے جو عارضی انتظامیہ قائم کی ہے وہ مکمل طور پر طالبان کے ارکان پر مشتمل ہے۔

طالبان بین الاقوامی ریاستوں کے ساتھ جتنا زیادہ تعاون کرتے ہیں اتنا ہی وہ مجاہدین کے مزاحمتی جنگجو کے خلاف چلے جائیں گے جس کے نتیجے میں طالبان اپنی اہم شناخت کھو دیں گے۔

اقلیتی گروہوں کا تحفظ

جیسا کہ طالبان شورش سے حکمرانی کی طرف منتقل ہو رہے ہیں دراصل یہ ایک اہم امتحان ہوگا کہ آیا وہ اقلیتی گروہوں کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں جن پر ان کے جنگجوؤں نے ظلم کیا تھا جیسے ہزارہ برادری وغیرہ۔

افغانستان میں ہزارہ برادری کے خلاف ظلم و ستم کی تاریخ طویل ہے، نسلی پشتونوں کے قتل عام کے بدلے میں 1990 کی دہائی میں طالبان نے برادری کا قتل عام کیا۔

دوسری جانب داعش نے ہزارہ برداری کو نشانہ بنایا کیونکہ وہ بیشتر اہل تشیع ہیں، ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔

جمعہ کو قندوز میں مسجد میں حملہ طالبان کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ ایک ریاستی طاقت کے طور پر ایک نئی تصویر پیش کریں۔

طالبان نے تیزی سے کام کیا، اسپیشل فورسز نے وقوع کو گھیر لیا، تحقیقات شروع کی گئیں اور صوبائی پولیس چیف نے اقلیتی بھائیوں کے تحفظ کے بلند وعدے کیے۔

کراچی: ڈالر کی بیرون ملک غیر قانونی فروخت، اسمگلنگ میں ملوث 8 افراد گرفتار

منشیات کیس: شاہ رخ خان کے ڈرائیور سے 6 گھنٹے تک تفتیش

ہونڈا کی نئی سی جی 125 پاکستان میں '55 تبدیلیوں' کے ساتھ پیش