کراچی کے دُور اندیش کاشت کاروں کی یاد میں
گلشن اقبال کے کنکریٹ جنگل اور خشک لیاری ندی پر بل کھاتے لیاری ایکسپریس وے کے درمیان واقع، اکثر شہریوں کی آنکھوں سے اوجھل، یہ فارم 102 سالہ آرگینک (نامیاتی) کاشت کار محمود فتح علی اور ان کی اہلیہ فاطمہ کا تھا۔
جب میری اس متاثر کن جوڑے سے پہلی ملاقات ہوئی تو اس وقت میری عمر 20 کے پیٹے میں تھی۔ جولائی 2010ء میں فطرت پسندوں کا ایک گروپ بطور سماجی ارکان سبز طرزِ زندگی کو فروغ دینے کے حوالے سے بیٹھک لگانے کے لیے کسی جگہ کے متلاشی تھے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ گلشن اقبال میں واقع سہانا ریسرچ فارم پر ملتے ہیں۔
اگلے اتوار کو جب ہماری گاڑی بلند و بالا رہائشی عمارتوں کے درمیان تنگ و ناہموار سڑکوں پر آڑھے ٹیڑھے موڑ لینے لگی تب مجھے یہ یقین سا ہوگیا تھا کہ ہم بھٹک چکے ہیں۔ مگر جلد ہی گاڑی پرانی طرز کے فولادی دروازے کے آگے کھڑی ہوگئی جہاں میں نے خاکی پتلون اور آدھی آستینوں والی سفید کڑک شرٹ میں ملبوس ایک شائستہ عمر رسیدہ شخص کو دیکھا تھا۔ انہوں نے اپنے ہاتھ بڑے ہی نفیس انداز میں اپنی چھڑی پر رکھے ہوئے تھے، اور مشفق مسکراہٹ کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔ وہ محمود انکل تھے۔
2 ایکڑ پر محیط اس فارم کی سیر کے دوران میں ایک دیوقامت پن چکی کی توانائی سے چلنے والے آر او (reverse osmosis) پلانٹ، ان کے باورچی خانے کو گیس فراہم کرنے والے بائیو گیس کے پلانٹ اور فارم کے اردگرد تیزی سے پروان چڑھتے نائیٹروجن سے بھرپور درختوں کے ٹکڑوں کو کیڑوں کے ذریعے کھاد میں بدلنے کے لیے استعمال ہونے والا ورمی کمپوزٹنگ کا انتظام دیکھ کر دنگ رہ گئی تھی۔
ان کا 2 کمروں پر مشتمل گھر اور ایک چھوٹا دفتر انگور کی بیلوں، لیمونی پھلوں اور شہتوت کی جھاڑیوں، چیکو اور چند دیگر 50 سالہ درختوں سے گھرا ہوا تھا۔ اس جگہ کے اور بھی زیادہ حیران کن پہلوؤں میں وہاں موجود آرگینک فارم، ڈرپ آبپاشی نظام کے پائپوں کا جال، اور محمود انکل کے ایجاد کردہ ایندھن سے پاک کاشت کاری کے اوزار شامل تھے۔
90 کے پیٹے میں ہونے کے باوجود محمود فتح علی ماحولیاتی کارکنوں کو فارم کی سیر کرواتے وقت مٹی کو چھونے کے لیے نیچے جُھک گئے اور اپنے ہاتھوں میں تھام کر اس کی ساخت دکھائی۔ انہوں نے سمجھایا کہ آر او پلانٹ کس طرح کام کرتا ہے اور کس طرح بلند عمارتیں زیر پانی چوس لیتی ہیں۔ انہوں نے ہمیں اپنی گوڈی کرنے والی مشین دکھائی اور انہوں نے ہمیں یہ عملی تجربہ کرکے دکھایا کہ کس طرح دیواروں کو پلستر کرتے وقت ضائع ہونے والے سیمنٹ کی مدد سے سڑک کے گڑھوں کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔
سرمئی کاٹن کی ساڑھی میں ملبوس فاطمہ آنٹی بھی ہماری گفتگو کا حصہ بن گئیں۔ انہوں نے اپنے سرمئی بالوں کا جوڑا باندھا ہوا تھا، حالانکہ وہ چھڑی کے سہارے چل رہی تھیں لیکن ان کا جسمانی وضع کمال کا تھا۔ اس دن میاں بیوی کے اس جوڑے اور ان کے فارم پر میرا دل آگیا تھا۔
مجھے ناریل کے خشک پتوں سے ڈھکے چھپرے کے سائے میں بیٹھ کر محمود انکل کے وژن اور خوابوں کو سُن کر بہت ہی اچھا لگ رہا تھا۔ کبھی کبھی محمود انکل اینٹوں کی پست دیوار کے پیچھے نظر آنے والے اونچے لیاری ایکسپریس وے کی طرف دیکھتے اور ماضی کی کہانیوں کو یاد کرنے لگتے تھے۔
وہ 1948ء میں پاکستان منتقل ہوئے تھے اور انہوں نے اس وقت تیزی سے بہتی لیاری ندی کے برابر میں چند ایکڑ پر محیط ذرخیز زمین خریدی تھی۔ سہانا پکارا جانے والا یہ فارم شہر کے شور سے دُور ایک پُرسکون مقام تھا۔ چند سفیروں اور غیر ملکیوں نے بھی ہفتہ وار چھٹیاں گزارنے کے لیے یہاں فارمز خریدے ہوئے تھے۔
زرعی سائنسدان ہونے کے ناطے فتح علی نے آہستہ آہستہ اپنے فارم کو شجرکاری کی مختلف تکنیکوں کے ماڈلز، کھاد کی تیاری کی جگہوں، پودوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں پر قابو پانے کے نامیاتی طریقوں، آر او پلانٹ اور بائیو گیس پلانٹ سے آراستہ ایک خود پائیدار نظام کے حامل سہانا ریسرچ فارم میں تبدیل کردیا۔
1970ء کی دہائی میں محمود فتح علی نے پروفیسر ڈاکٹر کرار حسین اور دیگر ہم خیال افراد کے ساتھ مل کر سڑک کے بیچ میں موجود خالی جگہوں پر درخت لگانے کے لیے گرینر کراچی ٹرسٹ تشکیل دیا۔ ان کا پہلا بڑا منصوبہ واٹر پمپ سے سہراب گوٹھ چورنگی تک جاتی سڑک پر شجرکاری تھا۔
کرار حسین کے بیٹے شبیہہ حیدر بتاتے ہیں کہ 'میری اور میرے والد کی محمود فتح علی سے پہلی ملاقات ان کے فارم پر اس وقت ہوئی تھی جب اس علاقے کا نام گلشن اقبال بھی نہیں پڑا تھا۔ ان جیسی مثبت سوچ رکھنے والے شخص سے پھر کبھی ملاقات نہیں ہوئی کہ جن کے لیے مشکلات اور ناکامیاں سبق سیکھنے کا موقع ہوا کرتی تھیں‘۔
حیدر نے ان کے پہلے منصوبے کے چند منفرد پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ، 'کم وقت میں سبزہ پیدا کرنے کے لیے تیزی سے پروان چڑھنے والے جنگلی املی کے درختوں کو لگایا گیا۔ یہ درخت بلدیاتی ادارے کے فراہم کردہ پانی کے بجائے زیرِ زمین پانی کا استعمال کرتے تھے۔ پن چکی کی مدد سے پانی نکال کر سڑک پر سب سے اونچے مقام پر بنی بڑی ٹینکی میں جمع کرلیا جاتا تھا۔ کششِ ثقل کی وجہ سے آبیاری کے لیے توانائی بھی خرچ نہیں ہوتی تھی جبکہ پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ڈرپ آبپاشی کی تکنیک استعمال کی گئی۔'
فتح علی گھرانے کے پُرانے خاندانی دوست عابد لاکھانی نے دیکھا کہ کس طرح یہ فارم موسمیاتی تبدیلی، کراچی کی سیاست اور شہر کاری یا اربنائزیشن کے زیرِ اثر آیا۔ لاکھانی اس وقت فتح علی گروپ آف کمپنیز کے چیف فنانشل افسر اور کمپنی سیکریٹری ہیں، مگر وہ پہلی بار بچپن کے دنوں میں اس فارم پر آئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 'محمود فتح علی ہمارے لوگوں میں تبدیلی لانے کا جذبہ رکھتے تھے‘۔
'ان کا یہ پختہ یقین تھا کہ اس قوم کو خرابیوں سے نجات دلانے کے لیے چند ثابت قدم لوگ اپنے کاموں سے پورے علاقے اور پھر پورے ملک کے لوگوں کو مثبت تبدیلی کی طرف راغب کرسکتے ہیں۔ محمود فتح علی اور ان کی اہلیہ اتوار کی صبحوں کو اپنے علاقے میں کوڑا کرکٹ صاف کرنے کے لیے صفائی مہمات کا اہتمام کیا کرتے تھے تاکہ علاقہ مکینوں میں آگاہی اور احساسِ ذمہ داری پیدا ہو۔ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ تبدیلی کی جدوجہد نہ کرنے پر ان سمیت ہر ایک کو خدا کے سامنے جواب دینا پڑے گا'۔
ہم کئی برسوں تک اتوار کے روز ملتے رہے۔ محمود انکل اکثر مجھ سے گجراتی زبان میں پوچھا کرتے تھے کہ 'بڑی تبدیلی لانے کے لیے ہمیں کرنا چاہیے؟'
میاں بیوی کے اس جوڑے کی موجودگی ہی لوگوں کو گھر سے نکلنے اور مل کر کام کرنے کا حوصلہ بیدار کرنے کے لیے کافی تھی۔ سماجی اور ماحولیاتی بہتری کے لیے سرگرمی سے حصہ لینے اور رضاکارانہ کاموں کو انجام دینے کے علاوہ بھی محمود انکل کی شخصیت کے کئی عمدہ پہلو تھے۔
ان کے ساتھ ایک دہائی سے بھی طویل تعلق رہا اور میں کچھ عرصے کے لیے گرینر کراچی ٹرسٹ کی صدر بھی رہی۔ اس دوران کام کے سلسلے میں ہونے والی ملاقاتوں میں کبھی بھی کسی قسم کی ریفرشمنٹ پیش نہیں کی گئی۔ کبھی کبھار فاطمہ آنٹی میرے لیے گھر میں اُگائے گئے چیری ٹماٹر ان کے مکان کے ساتھ ہی موجود میرے دفتر لایا کرتی تھیں۔
ایک بار عشائیے کی دعوت دے کر انہوں نے مجھے حیران کردیا تھا۔ بریانی سے بھرے ہوئے ایک بڑے برتن کو میز پر رکھتے ہوئے وہ بولیں کہ 'ہم رسمی آداب کے چکر میں نہیں پڑتے‘۔ اس رات ہم نے ڈائننگ ٹیبل پر ایک دوسرے کو خوب لطیفے سنائے اور قہقہے بلند کیے۔
بعد کے برسوں میں کراچی میں آلودگی کی شدت میں اضافہ ہوا، زیرِ زمین پانی بھاری ہونے لگا، دیمک نے ان کی زمین کو تباہ کردیا، تیزی سے بہتی لیاری ندی خشک ہوگئی، اور آر او پلانٹ کی مدد سے بھی وہ فارم پر بمشکل ہی فصل اگا پارہے تھے جبکہ نئی بلند و بالا عمارتوں نے پائپ لائنوں سے سارا پانی کھینچ لیا۔
مختصراً یہ کہ صورتحال پر قابو پانا ان کے بس میں نہیں رہا تھا۔ بالآخر اپنی عمر کے 100 سال پورے کرنے کے بعد محمود انکل اور فاطمہ آنٹی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ رہنے کے لیے بمبئی منتقل ہوگئے۔
3 سال پہلے فتح علی اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور ان کی وفات کے بعد بستر پر پڑجانے والی فاطمہ آنٹی رواں سال فتح علی کی تیسری برسی کے دن بمبئی میں چل بسیں۔ اس جذباتی خبر نے ان یادوں کو تازہ کردیا جن کے بارے میں اس شہر کے زیادہ تر لوگ انجان تھے، اسی لیے یہ تحریر قلمبند کرنی پڑی۔
اپنی اب تک کی زندگی میں ان جیسے لوگوں کو دیکھنے کے لیے میری آنکھیں ترس گئی ہیں، اور مجھے یقین ہے کہ میں ان جیسا کوئی دیکھوں گی بھی نہیں۔ میں صرف اپنی اس خواہش کا اظہار ہی کرسکتی ہوں کہ ان کی خوبصورت کہانی کو آنے والی نسلیں نہ صرف یاد رکھیں بلکہ دہرائیں بھی۔
یہ مضمون 10 اکتوبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
زہرہ علی سید ماہرِ ماحولیات، پائیداریت کی معلمہ اور Crops in Pots and The Green Pilgrim کی بانی ہیں۔ ان سے اس ای میل ایڈریس پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: zahra@cropsinpots.pk
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔