سفرِ ترکی قبل از لاک ڈاؤن اور بعد از لاک ڈاؤن (دوسرا حصہ)
اس سلسلے کی پہلی قسط یہاں پڑھیے۔
استنبول کے تاریخی ضلع سلطان احمد میں نیلی مسجد کے علاوہ 2 انتہائی اہم اور تاریخی عمارتیں آیا صوفیا اور توپ کاپی محل ہیں۔ یہ دونوں مقامات اور باسفورس برج ہم نے بعد میں آنے والے ساتھیوں کے ساتھ دیکھے تھے لیکن تسلسل کے لیے ساتھ ہی بیان کردیتا ہوں۔
آیا صوفیا اور توپ کاپی محل دیکھنے کے لیے آپ کو ایک پورا دن چاہیے۔ اس وقت آیا صوفیا عجائب گھر تھا اور اسے دیکھنے کے لیے ٹکٹ خریدا گیا۔ اسی طرح توپ کاپی محل دیکھنے کے لیے بھی ٹکٹ درکار تھا۔ ہم پہلے توپ کاپی محل پہنچے۔
توپ کاپی کی تعمیر سلطان محمد دوئم کے دور (1459ء) میں شروع ہوئی تھی اور اسے ابتدائی طور پر نیا یا جدید شاہی محل پکارا جاتا تھا۔ 17ویں صدی تک یہی محل سلطان کی رہائش گاہ بنا رہا لیکن بعد کے سلطانوں نے باسفورس کے کنارے اپنی رہائش پسند کی اور یہ محل جزوی طور پر استعمال میں رہا۔
بعد کے زمانوں میں 2 مرتبہ زلزلے اور آگ سے متاثر ہونے کی وجہ سے اس کی مرمت بھی ہوتی رہی ہے۔ 1923ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے اختتام کے بعد اسے عجائب گھر کا درجہ دے دیا گیا۔ تاہم اب بھی محل کے صرف مخصوص حصوں تک سیاحوں کا داخلہ ممکن ہے۔
توپ کاپی محل میں سلطان کی رہائش کا حصہ بالکل الگ ہے جبکہ باقی محل بڑے بڑے میدانوں، ہال، خوبصورت راہداریوں اور بڑے بڑے حمام پر مشتمل ہے۔ دیواروں پر قرانی آیات کے نقش بہت ہی خوبصورتی سے کندہ ہیں جو ترک نقاشی کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ ایک جانب بڑی بڑی چمنیوں والا باورچی خانہ بھی دکھائی دے گا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک وقت میں وہاں ہزاروں افراد کا کھانا تیار ہوتا رہا ہے۔
محل کے ایک حصے میں وہ ہال بھی موجود ہے جہاں سلطان کا دربار سجتا تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے کسی ڈرامے میں ہم دیکھتے آئے ہیں۔ اس مقام پر وزیروں اور مشیروں کی ترتیب سے لے کر مسندِ سلطان تک کا تصور آپ کے ذہن میں ابھرنے لگتا ہے۔
محل میں مختلف مقامات پر لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ اور خوبصورت فوارے جابجا دکھائی دیں گے۔ محل کی اپنی مسجد، سلطان اور ان کے خاندان کے رہائشی کمروں سمیت سب ہی مقامات انتہائی خوبصورت نقش و نگار سے مزین ہیں۔ چھت سے لے کر زمین تک ہر چیز نفیس فنِ تعمیر اور نقش و نگاری کی اعلیٰ مثال معلوم ہوتی ہے۔ یہ تو تذکرہ ہے توپ کاپی محل کے ان پہلوؤں کا جو ہماری نگاہ میں کسی نہ کسی زاویے سے گزرے ورنہ اس تاریخی محل کی تفصیلات بیان کرنے میں تو کئی دن گزر جائیں۔
وہاں موجود ایک مقامی گائیڈ نے یہ بھی بتایا کہ اس محل کو بنانے والے تمام مزدوروں کو شہر سے باہر ٹھہرایا گیا تھا جو باوضو و پاک صاف ہوکر صبح کے وقت محل کی تعمیر کے لیے یہاں آیا کرتے تھے۔ تاریخ میں سلطنتِ عثمانیہ کا یہ عقیدت بھرا تعمیراتی طریقہ کار مختلف مقامات پر بیان بھی ہوا ہے۔ پاک صاف اور باوضو رہتے ہوئے تعمیراتی طریقہ کار مسجد نبوی کے گنبدِ خضرا کے حوالے سے بھی بیان ہوا ہے کہ معمار حفاظ تھے جو تلاوت کرتے ہوئے تعمیراتی کام میں حصہ لیتے تھے۔
ویسے تو محل کے چار دروازے ہیں لیکن ہمیں ایک ہی دکھائی دیا۔ اونچی دیواروں والی مرکزی فصیل سے داخل ہوتے ہی ایک جانب تراشے ہوئے پتھر کے بڑے بڑے فن پارے نہ جانے کیوں رکھے ہوئے تھے۔ اس جگہ اس طرح رکھے جانے کا کوئی مقصد سمجھ نہیں آیا۔ اگر آپ کو سمجھ آئے تو ضرور بتائیے گا۔ کوئی قبر اور کوئی صندوق سے مشابہہ ہے اور کسی کسی چیز پر نہانے کے ٹب کا گمان گزرتا ہے۔ خوبصورت سرسبر میدان کو دیکھتے دیکھتے محل کا شاہی دروازہ آ جاتا ہے جس پر سنہرے حروف سے کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے۔
بلاشبہ ترکی کے تاریخی مقامات میں مسلمانوں کی شان و شوکت منعکس ہوتی ہے۔ مصطفیٰ کمال اتا ترک کے دورِ حکومت سے قبل ترک زبان کا رسم الخط عربی اور فارسی زبان جیسا تھا جو بعدازاں لاطینی کردیا گیا۔ اب ترک رسم الخط لاطینی سے ملتا جلتا ہے۔ عربی و فارسی والا ترک رسم الخط مختلف تاریخی مقامات پر کہیں کہیں کندہ نظر آجاتا ہے۔
ترکی میں ہم جیسے غیر ملکیوں کو زبان کے فرق کا مسئلہ ہمیشہ درپیش رہتا ہے۔ زبان کے فرق کی وجہ سے مقامی لوگوں سے بات چیت میں نہایت دشواری ہوتی ہے۔ کیا کیجیے کہ انہیں انگریزی نہیں آتی اور آپ کو ترک!
معلومات کے لیے دستیاب کتابچے یا جگہ جگہ نصب رہنمائی کرتی تختیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ خیر چلیے اس زبان کے فرق کو یہیں غرق کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
دروازے سے داخل ہوتے ہی دونوں جانب مختلف چھوٹے چھوٹے مزارات اور کمرے بنے ہوئے ہیں۔ کشادہ راہداریوں کے بعد آپ ایک وسیع ہال تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس ہال میں کچھ ایسی مقدس اشیا آپ کی منتظر ہوتی ہیں جن کا احترام سر جھکانے اور آنکھوں کو بھر آنے پر مجبور کردیتا ہے۔ ہال میں قاری صاحبان تلاوت کرتے دکھائی دیں گے جو اسپیکر کے ذریعے ہر جانب گونجتی ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ تلاوت عرصہ دراز سے بغیر تعطل کے جاری رہتی ہے۔ اسے کسی صورت روکا یا بند نہیں کیا جاتا۔
وہاں موجود مقدس نوادرات میں نبی ﷺ کے زیرِ استعمال پانی کا پیالہ مبارک، صحابہ کرامؓ کی تلواریں، لباسِ بی بی فاطمہؓ، قمیضِ حضرت حسینؓ اور حضرت موسیؑ کا عصا شامل ہیں۔ سیف اللہ کا لقب پانے والے حضرت خالد بن ولید کی تلوار مبارک دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے نبی کے صحابہ کس قدر مضبوط جسم کے مالک تھے اور بہادر جان نثار تو تھے ہی۔ یہ 3 سال پرانی باتیں ہیں اور تصویر لینے کی ممانعت تھی۔
کہا جاتا ہے کہ یہ تمام چیزیں سلطنت عثمانیہ کے قیام کے بعد مکہ اور مدینہ سے استنبول لاکر بحفاظت رکھی گئی تھیں۔ مجھ سے تو تصویریں لینے کی نہ ہمت ہوئی اور نہ قانون شکنی کی کوشش۔ مگر ہمارے کچھ دوست شاید عقیدت میں اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے اور تصویریں کھینچ لیں۔
توپ کاپی سے سیدھا آیا صوفیا عجائب گھر پہنچے۔ 2017ء میں آیا صوفیا عجائب گھر ہی تھا جسے گزشتہ سال عدالتی حکم پر ایک مرتبہ پھر مسجد میں تبدیل کردیا گیا۔ اب 2021ء میں کیسا منظر دیکھنے کو ملتا ہے یہ آگے ضرور بیان کروں گا لیکن پہلے آیا صوفیا عجائب گھر کی بات ہوجائے۔
یہ عمارت عروج و زوال کی داستانوں کو اپنے سینے میں سمائے ہوئے ہے۔ یونانی طرزِ تعمیر کے اس شاہکار پر قسطنطنیہ کے فاتحین اپنے اپنے مذہب کا اثر چھوڑتے رہے۔ یہ عمارت صرف مسجد ہی نہیں بلکہ رومن کیتھولک اور آرتھوڈوکس عیسائیت کے عقیدے کے مطابق چرچ میں بھی بدلتی رہی ہے۔ یہ تاریخی عمارت صدیوں تک کیتھڈرل چرچ کا صدر مقام بھی رہا۔ سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کرنے کے بعد اس کے گرد اسلامی طرزِ تعمیر کے مطابق مینار تعمیر کروائے اور منبر و محراب کا اضافہ بھی کیا جبکہ مرکزی عمارت میں تبدیلی سے گریز کیا گیا تھا۔
یہ عمارت کبھی مشرقی رومی سلطنت کا سب سے بڑا چرچ رہا اور کبھی اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتی مسجد رہی۔ پھر 1935ء سے 2020ء تک عجائب گھر کی حیثیت سے پہچانی گئی اور اب ایک مرتبہ پھر مسجد کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہیں پر بازنطینی سلطنت کے اختتام اور خلافتِ عثمانیہ کے اعلان کا سنگم بنتا ہے۔ اس عمارت کی تاریخ تو توپ کاپی محل سے بھی پرانی ہے اور تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف عقائد اور مذاہب کی بالادستی کا منظر بھی پیش کرتی ہے۔
البتہ ہم یہاں صرف وہی بیان کریں گے جو ہم نے دیکھا۔ عمارت کے بیرونی حصے میں چھوٹے باغ ہیں جہاں یادگاریں یا چھوٹے پتھروں کے ستون اور کتبے بنے ہوئے ہیں۔ ان پر مختلف رسم الخط میں عبارتیں درج ہیں۔ وضو کی جگہ بھی ملے گی۔ اندرونی ہال کی دیورایں مختلف ادوار کے مذہبی اثر و رسوخ کی داستان بتاتی ہیں، مثلاً صلیب کی شکل اب تک کندہ ہے اور خلفائے راشدین کے نام بھی آویزاں ہیں۔
مسلم فاتحین نے کسی بھی عبارت یا نقش کو مسخ نہیں کیا، حتیٰ کہ حضرت عیسیٰؑ اور بی بی مریمؓ سے منسوب شبیہات بھی اپنی اصل حالت میں نظر آتی ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ نماز کی ادائیگی کے وقت ان تصاویر کو ڈھک دیا جاتا تھا۔
2017ء میں ہی ہم نے رومی رقص درویش بھی دیکھا۔ تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر ہی آپ لطف اندوز ہوسکتے ہیں کیونکہ اس رقص کی خوبصورتی کو لفظوں میں بیان کرنا کچھ مشکل ہے۔
2017ء میں سفرِ ترکی کے آخری دن ہم رسول اللہ ﷺ کے مدینہ میں میزبان حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر بھی گئے۔ حضرت ابو ایوب انصاری کا دورانِ جنگ ہی بیماری سے انتقال ہوا اور آپ کی آخری وصیت کے مطابق بازنطینی سلطنت کے داخلی دروازے کے قریب تدفین ممکن بنائی گئی۔
قسطنطنیہ کے فاتح سلطان محمد نے خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آپؓ کا مزار بنوایا تھا جو آج بھی مسلمان سیاحوں کے لیے مرکزِ محبت و عقیدت ہے۔ مزار کے گرد و نواح کا علاقہ بھی ایوب کہلاتا ہے۔ بہت سے سلطان خواہش کرتے رہے کہ انہیں حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار کے احاطے میں ہی دفن کیا جائے۔
مزار کو 1882ء میں دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔ اس مقام کی قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ ہر نئے آنے والے سلطان کو تلوارِ سلطانی دینے کی تقریب بھی اسی جگہ پر طویل عرصے تک منعقد ہوتی رہی۔
مزار کے احاطے میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بعد قریبی ریسٹورینٹ سے کھانا کھانے کا منصوبہ تھا۔ مزار کے باہر شیشے کے باکس میں بند کچلی ہوئی مرسیڈیز گاڑی کھڑی نظر آئی۔ جی ہاں کچلی ہوئی گاڑی۔ دراصل یہ 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کی یادگار ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ گاڑی اب بھی وہاں موجود ہے یا نہیں۔
باسفورس برج کے نظاروں کا احوال اگلی تحریر میں پڑھیے گا. اور ہاں، اگر آپ ترکی جانے کا سوچ رہے ہیں تو اگلا بلاگ جہاز کے ٹکٹ سے لے کر ہوٹل کی بکنگ اور شاپنگ جیسے تمام ہی معاملات پر لکھا جاسکتا ہے۔ تبصرے میں ضرور آگاہ کیجیے گا۔
لکھاری نیو ٹی وی کے پروگرام کرنٹ افیئرز کی میزبانی کرتے ہیں۔
نیو ٹی وی میں کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی کرتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔