نقطہ نظر

کیپٹن ظفراللہ پوشنی: پنڈی سازش کیس کے آخری کردار بھی رخصت ہوئے

پنڈی سازش کیس پر درجنوں کتابیں لکھی گئیں مگر اس پر ذرا آگے چل کر تذکرہ کرتے ہیں، پہلے ذکر کیپٹن ظفر اللہ پوشنی کا ہوجائے۔

مشہورِ زمانہ پنڈی سازش کیس کے آخری سزا یافتہ ملزم کیپٹن ظفراللہ پوشنی بھی 95 سال کی طویل حیاتی کے بعد بدھ کی شب کے پہلے پہر انتہائی خاموشی سے رخصت ہوگئے۔

پنڈی سازش کیس، جس کے سبب کیپٹن ظفراللہ پوشنی کو شہرت ملی تھی، اس کے سرخیل کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری سید سجاد ظہیر، بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر فیض احمد فیضؔ اور جنرل اکبر خان تھے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مبیّنہ طور پر حکومت کا تختہ الٹنے کی یہ پہلی سازش کہلائی جاتی ہے۔ پنڈی سازش کیس پر درجنوں کتابیں لکھی گئیں مگر اس پر ذرا آگے چل کر تذکرہ کرتے ہیں، پہلے ذکر کیپٹن ظفر اللہ پوشنی کا ہوجائے۔

کیپٹن ظفراللہ پوشنی سال بھر پہلے تک اتنے الرٹ، جسمانی اور ذہنی طور پر معروف اصطلاح میں فِٹ تھے کہ کورونا کی آمد سے ذرا پہلے 2019 میں 11ویں کراچی لٹریری فیسٹول میں اپنی کتاب (زندگی زنداں دِلی کا نام ہے) کے انگریزی ورژن Prison Interlude کی تقریبِ رونمائی میں بغیر کسی چھڑی اور سہارے کے تیز تیز چلتے ہوئے اسٹیج پر آئے تھے اور گھنٹے بھر اس کتاب، پنڈی سازش کیس اور اس میں ملوث کیے جانے والے سازشیوں کے بارے میں بڑے دلچسپ پیرائے میں گفتگو کی۔ تقریب کے بعد حسبِ روایت بڑی گرم جوشی سے ملے۔ ملاقات کا وعدہ بھی کیا مگر چونکہ پیٹ اسکرین سے لگا ہے اور مشکل سے ہی فرصت ملتی ہے، لہٰذا فوری طور پر ملاقات نہیں ہوسکی۔

عجیب اتفاق ہے کہ اگست کے پہلے ہفتے میں ہمارے ڈائریکٹر پروگرام نے کہا بھئی ذرا ان لوگوں کی یادوں کو کیمرے میں محفوظ کرلیا جائے جنہوں نے 47ء میں پاکستان بنتے دیکھا تھا۔ فوری طور پر اپنی دوست عالیہ نقوی کی نانی بیگم واجد علی شاہ کا نام یاد آیا جو اپنی 100ویں سالگرہ مناتے ہوئے ہشاش بشاش تھیں۔ عالیہ سے رابطہ ہوا تو کہنے لگیں سال ایک سے یادداشت جواب دے رہی ہے، اچھا نہیں لگے گا کہ اسکرین پر سپاٹ چہرے کے ساتھ آئیں۔

دوسرے ہی لمحے اپنے کیپٹن ظفر اللہ پوشنی کا خیال آیا۔ ان کی صاحبزادی انیتا سے سلام دعا تھی مگر ان کے شوہر ممتاز ماہرِ معیشت اسد علی شاہ سے بے تکلفانہ تعلق ہے۔ اسد کے توسط سے انیتا سے رابطہ ہوا۔ خوش ہوئیں مگر کہنے لگیں کورونا سے پہلے اچھے بھلے تھے، باقاعدگی سے مین ہٹن کے دفتر بھی جاتے تھے اور ہاں کراچی کے ادبی میلے میں بھی تم نے دیکھا ہوگا مگر مسئلہ یادداشت کا ہے۔

لیکن پھر بھی اگلے دن شام کا وقت طے ہوا ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کے ایک پُرانے طرز کے بنگلے کے برآمدے میں کیمرے لگا کر چائے کی چُسکی لی ہی تھی کہ کیپٹن پوشنی چھڑی پکڑے آہستہ آہستہ کرسی پر بیٹھ گئے۔ انیتا نے کہا آپ مجاہد بریلوی کو جانتے ہیں؟ میری خوشنودی کے لیے ہی سہی قہقہہ لگاتے ہوئے کہا 'بھئی مجاہد کو کون نہیں جانتا'۔ کیمرے آن ہوئے اور انیتا کی مدد سے سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔

سننے میں دشواری ہورہی تھی مگر ابتدائی تعلیم اور فوج میں بھرتی ہونے کے ساتھ یہ یاد ضرور تھا کہ تقسیم کے بعد پاکستان کو جو اسلحہ ملا تھا اسے لے کر وہ امرتسر سے ٹرین میں لاہور لے کر آئے تھے۔ لاہور میں داخلے سے پہلے انہیں ایک سکھ فوجی نے روک لیا۔۔۔؟

اب مشکل یہ پیش آرہی تھی کہ انیتا کے بار بار یاد دلانے کے باوجود وہ ٹرین اور سکھ سے نکل نہیں پارہے تھے۔ اچھا یہ لگا کہ اس ساری صورتحال کو ان کی بیٹی انیتا انجوائے کر رہی تھیں۔ گفتگو آگے بڑھانے کے لیے میں نے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کا ذکر کیا۔ ٹیمپل کا سنتے ہی کیپٹن پوشنی کی یادداشت لوٹ آئی۔

'ہاں بھئی، ہم سر پر رومال رکھ کر، جوتیاں اتار کر جاتے۔ بعد میں وہ کیا تھا۔۔۔ حلوہ پوری، چاٹ۔۔۔ ہاں، پرساد ملتا تھا۔'

تقسیم کے بعد لاہور میں قیام، ابتدائی فوجی ملازمت اور پھر پنڈی سازش کیس پر آئے تو سید سجاد ظہیر کے حوالے سے یہ یاد کیا کہ جواہر لعل نہرو انہیں واپس لے گئے تھے۔ پنڈی سازش کیس کے بڑے ملزم جنرل اکبر خان کے بارے میں ذہن پر زور ڈال کر بتایا کہ وہ لڑنے کے لیے کشمیر گئے تھے۔

کیپٹن پوشنی کا زیادہ طویل تعلق فیض احمد فیضؔ سے رہا مگر سازش میں ان کے ملوث ہونے کے حوالے سے صرف پنڈی میں ہونے والی ایک میٹنگ کی چند ادھوری باتیں یاد تھیں۔ مگر جنرل اکبر خان کی بیگم نسیم اکبر خان کا ذکر تفصیل سے کیا۔

جب میں نے ابھی فیض صاحب کی غزل 'گلوں میں رنگ بھرے' کا مصرعہ پڑھا ہی تھا تو یقین کریں کہ پہلے شعر سے مقطع تک پوری غزل سُنا دی۔

مقامِ فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

پنڈی سازش کی تفصیل میں جانے کے لیے ایک علیحدہ مضمون باندھنا پڑے گا۔ بے شمار کتابوں میں یہی پڑھا کہ کشمیر میں لڑنے والے فوجیوں کو سری نگر کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی جب فوج کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے یہ حکم ملا کہ واپس آجائیں تو گوریلا جنگ لڑنے والوں کے کمانڈر جنرل اکبر خان اس پر شدید ناراض ہوئے۔

پنڈی آنے کے بعد کشمیر میں لڑنے والے فوجیوں کے ایک گروپ کو گھر بلایا۔ یہ بھی طے ہوا کہ کمیونسٹ پارٹی سے رابطہ کیا جائے۔ ان کے انڈر گراؤنڈ سیکریٹری سجاد ظہیر کو دعوت دی گئی، ساتھ میں فیض احمد فیضؔ بھی تھے۔ کوئی 2 میٹنگز کے بعد طے ہوا کہ حالات ایسے نہیں کہ بغاوت کامیاب ہو اس لیے اسے ملتوی کردیا جائے۔

پنڈی سازش کیس کے 14ملزمان میں سب سے کم عمر کیپٹن ظفراللہ پوشنی تھے جن کی عمر اس وقت صرف 23 سال تھی۔ پاکستانی فوج کے انگریز جنرل گریسی اور ان کے ساتھ انگریز کے پروردہ جنرل ایوب خان کے لیے یہ ایک اچھا موقع تھا کہ ابتدا میں ہی ایسے تمام فوجیوں کو فارغ کردیا جائے جن کا قومی جذبہ ملٹری ڈسپلن پر غالب تھا۔ سو سازش کے تانے بانے چُنے گئے۔

مارچ 1951ء میں پکڑ دھکڑ شروع ہوئی۔ سویلین میں سید سجاد ظہیر، فیض احمد فیضؔ اور محمد حسن عطا اور نسیم اکبر خان جبکہ فوجیوں کی طویل فہرست میں سب سے سینئر، پختہ کار جنرل اکبر خان اور نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے کیپٹن ظفراللہ پوشنی شامل تھے۔ کُل 14 ملزمان ایک کے بعد دوسرے اپنی اپنی ہنگامہ خیز زندگی گزار کر رخصت ہوئے۔

پنڈی سازش کیس کی آخری یادگار کیپٹن ظفراللہ پوشنی ہی رہ گئے تھے۔ انیتا کہتی ہیں کہ ابا جی کی ہم 100ویں سالگرہ بلکہ اس کے بعد بھی سالگراہیں دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے۔ جب 92ویں سالگرہ منائی تو دفتر میں پورا دن گزارا مگر کورونا نے ایسا گھیرا ڈالا کہ اپنے کمرے کے ہوگئے۔ شام کو ضرور کافی کے گھونٹ لیتے، گھنٹہ دو برآمدے میں بیٹھتے، درختوں سے اترتی شام کو دیکھتے تو ان کی آنکھیں موندھنے لگتیں۔ مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ بدھ کی شام برآمدے سے بستر پر جانے کے بعد کبھی آنکھ نہیں کھولیں گے۔

چلے عدمؔ اکیلے میں تو زندگی بولی

ہوئی تمام عمر اور بس جناب چل دیے

ہاں، پنڈی سازش کیس کا آخر میں ذکر کیپٹن ظفراللہ پوشنی کے حوالے سے کرنا چاہتا تھا۔ فیض صاحب نے اسے ایک شعر میں سمیٹ دیا تھا کہ

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

بہرحال فیض صاحب اور کمیونسٹ سجاد ظہیر کی جنرل اکبر خان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ملاقاتیں محض کاک ٹیل پارٹیاں تو تھی نہیں۔ مگر ہاں، ٹائمنگ ٹھیک نہیں تھی۔ جس کی سزا بھی سازش کیس کے ملزمان اور یقیناً ملک کی ترقی پسند تحریک نے بُھگتی۔

مجاہد بریلوی

مجاہد بریلوی ’جالب جالب‘، ’فسانہ رقم کریں‘ اور ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں پاکستان کے پہلے نجی چینل پر مجاہد آن لائن نامی پروگرام کی میزبانی کی اور پھر 8 سال تک سی این بی سی پر پروگرام ’دوسرا پہلو‘ کی میزبانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈان نیوز ٹی وی پر ’سوال سے آگے‘ کی میزبانی بھی وہ کرچکے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔