نقطہ نظر

بک ریویو: فریگرینس آف تھری فوک سانگس

اس کتاب میں تھرپارکر کے مقبول گیتوں کو ترجموں اور تبصروں کے ساتھ پیش کیا ہے تاکہ قاری صحرائی ثقافت کی شان و شوکت سے روشناس ہوسکیں۔

کتاب Fragrance of Thari Folk Songs پاکستانی لوک ثقافت کے خزینے کا مختصر مگر جامع تعارف ہے۔ اس کتاب میں خطہ تھرپارکر کے مقبول عام ڈیڑھ درجن سے زائد گیتوں کو ترجموں اور تبصروں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے تاکہ قاری ہماری صحرائی ثقافت کی شان و شوکت اور تنوع سے روشناس ہوسکیں۔

کتاب کے مصنف نور احمد جنجھی کا تعلق تھرپارکر کے واکریو نامی گاؤں سے ہے۔ وہ ایک ممتاز دانشور، محقق اور مصنف ہیں۔ انہوں نے علاقائی ادب، صوفی شاعری اور لوک کہانیوں جیسے موضوعات پر مفصل تحریریں قلمبند کی ہیں۔ انہیں سندھی، اردو، انگریزی، عربی، فارسی، ڈھاٹکی اور ہندی زبان پر دسترس حاصل ہے اور وہ سندھی لینگوج اتھارٹی کے نمایاں رکن بھی ہیں۔ وہ مختلف میگزین کی ادارت کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں اور سندھی اور انگریزی مواد کو انگریزی اور سندھی میں ترجمہ کرچکے ہیں۔

جنجھی لکھتے ہیں کہ 'لوک گیت کسی بھی ملکی زبان اور ادب کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ سندھی لوک گیت سندھ کی ثقافت اور ادب کا آئینہ ہیں، جن میں عام لوگوں کی زندگی کا شفاف عکس نظر آتا ہے۔ لوگوں کی خواہشات اور زبانوں کی کوکھ سے جنم لینے والے یہ گیت شاعری کے روایتی اصولوں کی عدم موجودگی کے باوجود عاجز اور خوبصورت خیالات سے بھرپور ہوتے ہیں‘۔

وہ کتاب کے دیباچے میں بتاتے ہیں کہ سندھ کے صحرا میں مقیم آبادیوں کے ساتھ پلے بڑے اور بچپن سے سنتے چلے آ رہے گیتوں کا ان پر کس قدر گہرا اثر ہوا اور کس طرح ان گیتوں میں لوگوں نے اپنی روح کو سمودیا۔

کتاب کی ابتدا صحرائی خطے کے جغرافیے، اس کی ثقافت اور یہاں بولی جانے والی مختلف زبانوں پر مباحثے سے ہوتی ہے۔ جس کے بعد کتاب کے ہر باب کو ایک مخصوص لوک گیت سے منسوب کیا گیا ہے۔ ہر گیت کی تحریر کے بعد اس کا ترجمہ اور تبصرہ شامل کیا گیا ہے جس میں دانشورانہ ادب کے حوالہ جات بھی ملتے ہیں۔ کتاب میں مختلف موضوعات پر مبنی 19 گیت پڑھنے کو ملتے ہیں جن سے صحرا میں زندگی کی ایک تصویر ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔

ان گیتوں میں روزمرہ زندگی، رسومات، تہواروں اور روایات کا تذکرہ ملتا ہے۔ کچھ گیت غروبِ آفتاب سے منسوب ہیں تو کچھ گیت بارش کی خوشی میں گائے جاتے ہیں، کچھ گیت کام اور کھیل کے لیے ہیں، کچھ گیتوں کا موضوع سفر ہے تو کچھ گیت شادیوں کے مواقع پر گائے جاتے ہیں۔ ایسے بھی گیت ہیں جن میں صحرا کے خوبصورت مناظر، درختوں اور جانوروں کی بات ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ رشتوں، انسانی جذبات، بہادری، شفقت، محبت اور اشتیاق کے بارے میں بھی گیت ملتے ہیں۔

مثال کے طور پر ہمارے ہاں مور سے منسوب بھی ایک گیت مقبول ہے جسے موریو پکارا جاتا ہے۔

اے مور! گرجتی رات میں تم کتنے میٹھے اور من کو موہ لینے والے بول بولتے ہو

تم اس گرجتی رات میں اس قدر دردیلی دھنوں کو بلند کرتے ہو کہ درد و محبت کی تڑپ جاگ جاتی ہے

اشتیاق کی اس قدر مدھر دھنیں سن کر کسے نیند آئے گی

یہ لوک گیت استعارے سے بھرپور ہوتے ہیں۔ یہ جذبات کو بیدار کردینے والے تخیل سے بھرپور ہوتے ہیں اور ان میں بنجر صحرا میں زندگی کی نمایاں اور شاداب تصویر ملتی ہے۔ وقت کے ساتھ ان گیتوں کے الفاظ اور مناظر بھلے ہی تبدیل ہوگئے ہوں لیکن لہجہ، سُر اور تال اب بھی وہی ہے۔ 'ورسارو' ساون کا لوک گیت ہے جس میں ایک نوجوان بیوی اپنے سفر پر نکلے شوہر کو یاد کرتی اور ساس کو دہائیاں دیتی ہے۔

شمال رم جھم برس رہا ہے

ہائے میرے بادل! میرا ساون تمہارے بغیر بیتا جا رہا ہے

میں نے پنکھوں والا پرندہ دیکھا تو اسے ہنس سمجھ بیٹھی۔۔۔

شمال سے آتیں سرد ہواؤں نے میرا نو موتیوں والا ہار ہی توڑ ڈالا ہے

اے میری ساسو ماں! تیرا بیٹا مجھ سے دُور ہے

اس کے بعد ہمارے پاس ایک جدائی کا لوک گیت ہے جسے 'ڈورو' کہا جاتا ہے، اسے کسی لمبے سفر پر نکلنے یا دلہن کی رخصتی کے وقت گایا جاتا ہے۔

دریا کنارے کنول کے بہت پھول کھلے ہیں

کیا میں ندی کے سوکھے پیٹ کے کناروں پر کھڑے درختوں پر خود کو قربان کرسکتی ہوں

دھاگہ۔۔۔ خالص سونے کا دھاگہ

میری دوسری سہیلیاں تو میرے قریب ہیں مگر اے میری ماں، میری محبوب بیٹی مجھ سے بہت دُور ہے۔۔۔

دھاگہ۔۔۔ خالص سونے کا دھاگہ

میرا بھائی دیا اٹھائے کھڑا ہے اور اس کی بیوی نے 9 موتیوں والا ہار تیار کیا ہے۔۔۔

دھاگہ ۔۔۔ خالص سونے کا دھاگہ

جب میں نے پیچھے مڑ کر ریت کے ٹیلوں کو دیکھا

تو اپنا آبائی گاؤں دُور ہی پایا

دھاگہ۔۔۔ خالص سونے کا دھاگہ

اس گیت میں ڈورو یا دھاگہ ایک مضبوط اور اٹوٹ رشتوں کی علامت کے طور پر نظر آتا ہے۔ سونے کا دھاگہ جو ایک سے دوسری زندگی کو منتقل ہوتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا ہی رہتا ہے۔ ان گیتوں میں سمائے جذبات بھلے ہی سادہ سے ہوں لیکن ان میں ایسی خالصیت اور شدت پائی جاتی ہے جو ہمیں لاشعور میں اپنی طرف کھنیچ لیتے ہیں۔

کتاب میں چند خامیاں بھی ہیں: تحریر کافی ناہموار ہے اور اس میں اکثر جگہوں پر علمی تشریح اور عام مکالمے گڈمڈ ہوجاتے ہیں اور یوں بیانیے کی روانی متاثر ہوتی ہے۔ کتاب میں شامل زیادہ تر اقتباس شدہ گیتوں کا انگریزی ترجمہ تو کیا گیا ہے لیکن چند کا ترجمہ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے قاری کو اپنے اندازے سے ترجمہ کرنا پڑجاتا ہے۔ کچھ جگہوں پر ترجمے کا معیار خراب ہے جس کی وجہ سے کچھ گیتوں کے بول کی کشش ماند پڑجاتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ان گیتوں کی دھنوں کو کاغذ پر اتار کر اور ہر قسم کے قاری کے لیے انہیں پُرکشش بنایا جائے۔

یہاں ایک اور اہم سوال پیدا ہوتا ہے: اس ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے کیا کیا جا رہا ہے؟ آن لائن ذرائع پر دیکھا تو اس حوالے سے خاطرخواہ وسائل نظر نہیں آئے۔ ہمیں آڈیو ریکارڈنگ، میوزک البمز، دستاویزی فلموں اور ڈراموں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان قدیم مقامی ثقافتوں، ان کے رہن سہن، طرزِ زندگی اور تہواروں کو اجاگر کرنے کے لیے قومی سطح پر کوششیں ہونی چاہئیں۔ کیا یہ سوالات حکومت کی جانب سے سیاحت کو فروغ دینے کے حوالے سے جاری مہم کے لیے اہمیت رکھتے ہیں؟

کشش اور جمالیتی پہلو ایک طرف، مگر کتاب کی صورت میں لوک گیتوں پر ہونے والے اس کام کی اصل قدر ہمیں لوک ثقافت اور روایت کی اس دنیا کی اہمیت یاد دلانے میں پنہاں ہے جو عالمگیریت کی لہروں میں معدوم ہوتی جا رہی ہے۔

ہم ایک ثقافتی معیار کی طرف جکھاؤ رکھتے ہیں جس میں گہری توجہ درکار نہیں اور ہر مسئلے کا آسان حل موجود ہے، یہ بلاگ، سوشل میڈیا اور نیٹ فلکس کی دنیا ہے۔ ہم اب ثقافت میں 'حصہ' لینے سے زیادہ اسے 'صَرف' کرتے ہیں۔ آج کل ثقافتی مصنوعات میں کسی دوڑتی بھاگتی اسمبلی لائن کا سا احساس سمایا ہوتا ہے۔ ماورائیت کے پہلو باقی نہیں رہے۔

فطرت سے ہمارا اب کوئی براہِ راست تعلق نہیں رہا، ساون کا گیت اجنبی دنیا کی کوئی چیز معلوم ہوتی ہے۔ فطرت کے بارے میں گیت اور اس کے سر تال، ندی کنارے کھڑے پیپل کے پیڑوں پر لکھی نظمیں اور بادلوں کی گرج برس کے بعد پرندوں کی بولیاں ہمیں پُرکشش، پرانے وقتوں اور بسرے ہوئے زمانوں کی باتیں محسوس ہوسکتی ہیں۔ مگر لوک ثقافت ہمارے جدید صارفیت پسند رویے کے اثرات کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ البتہ دونوں کے اپنے فائدے اور نقصانات ہیں۔

تقریباً 700 سال پہلے معروف عالم اور دانشور ابنِ خلدون نے کہا تھا کہ تہذیب شہری علاقوں میں رہنے والوں کی ثقافت اور صحرا میں رہنے والوں کی ثقافت کے درمیان فطری تناو کا نام ہے۔ Fragrance of Thari Folk Songs کے مطالعے سے آپ کو یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ غلط نہیں تھے۔


کتاب کا نام: Fragrance of Thari Folk Songs

مصنف: نور احمد جنجھی

ناشر: کنول پبلیکشنز، حیدرآباد

صفحات: 150


یہ تبصرہ 3 اکتوبر 2021ء کو ڈان کے بکس اینڈ آتھرس میں شائع ہوا۔

طحہ علی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔