کے پی حکومت کی کراچی کے صنعت کاروں سے صوبے میں سرمایہ کاری پر زور
خیبر پختونخوا (کے پی) کے وزیر صنعت عبداللہ کریم توردھر کا کہنا تھا کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے متعدد صنعتی گروپ کے پی میں کامیابی سے اپنے صنعتی یونٹ چلارہے ہیں، جو بڑھتے ہوئے مواقع کی سرزمین ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری(کے سی سی آئی) میں تاجر برادری سے خطاب میں کہا کہ ہم نے 13 اقتصادی زون قائم کرنے کا ارادہ کیا ہے جن میں سے 7 پر کام جاری ہے جبکہ صوبے بھر میں 19 صنعتی علاقے قائم کیے جائیں گے تاکہ مقامی وسائل کا بہترین استعمال کیا جائے اور برآمدات بڑھانے کے لیے درآمدات کے نعم البدل کی طرف جایا جائے۔
عبد اللہ کریم توردھر کا مزید کہنا تھا کہ تاجر برادری مشترکہ منصوبوں کے تحت جیمز، جپسم، کان اور معدنیات، ٹھنڈے پانی کی مچھلی کے شکار، ہائیڈروپاور، پھل وسبزیاں، میوہ جات اور چائے جس کی کٹائی ایک لاکھ 80 ہزار ایکٹر پر کی جاسکتی ہے، میں سرمایہ کاری پر بھی نظر ثانی کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم نے 10 خصوصی اقتصادی زونز قائم کرنے کی منظوری دے دی
انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور صنعتوں کے فروغ کے لیے کے پی حکومت نے تقریباً 17 مختلف ٹیکسز ختم کیے ہیں۔
تقریب سے خطاب میں کے پی کے وزیر خزانہ تیمور سلیم کا کہنا تھا کہ کے پی میں اب سیکیورٹی کے حالات بہت حد تک بہتر ہوچکے ہیں، حکومت صوبے میں سرمایہ کاری اور صنعتوں کو فروغ دینے کے لیے متعدد سہولیات اور مراعات کی پیش کش کر رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کراچی کی تاجر برادری کو کے پی کے بے حد امید افزا معاشی شعبے میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے اپنے پیداواری یونٹ قائم کرکے موافق حالات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں وافر مقدار میں سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں جس میں ہائیڈرو پاور جنریشن، منتقلی و ترسیل شامل ہے جبکہ رواں سال کم از کم چار گنا تیزی سے بڑھنے والا شعبہ سیاحت مہمان نوازی سے متعلق کاروبار کے بے شمار مواقع فراہم کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تین نئے خصوصی اقتصادی زونز کی منظوری دے دی گئی
انہوں نے مزید کہا کہ کے کی حکومت چار سیاحتی زون قائم کر رہی ہے تاکہ سرمایہ کاروں کو زراعت، معدنیات، خدمات اور آئی ٹی کےشعبے میں سرمایہ کاری کی جانب مائل کیا جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ کے پی ملک کا واحد صوبہ ہے جس کے ہر شخص کے پاس انفرادی صحت کا بیمہ موجود ہے جو 10 لاکھ تک کے اخراجات اٹھاتا ہے اور یہ ان تاجروں کے لیے بھی سہولت ہے جو شعبہ صحت سے منسلک ہیں اور صوبے میں صحت سے متعلق سہولیات فراہم کرسکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کے پی حکومت نے پشاور سے طورخم تک سڑک کے انفراسٹرکچر تیار کرنے کے لیے 4 کروڑ ڈالر کا منصوبہ منظور کیا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 'ہمارا ہدف سڑک کے ذریعے رسائی کو بہتر بنانا ہے ہم افغانستان سے سینٹرل ایشیا تک زمینی راستے پر رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم نے اپنا مقصد حاصل کرلیا تو پاکستان کی جی ڈی پی پر50 سے 60 ارب ڈالر تک مثبت اثرات مرتب ہوں گے'۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں اراضی کی بلند قیمتیں، صنعتکاروں کا پنجاب، خیبرپختونخوا کی طرف رجحان بڑھنے لگا
اس موقع پر بزنس مین گروپ (بی ایم جی) کے چیئرمین زبیر موتی والا کا کہنا تھا کہ 'در حقیقت سرمایہ کاری کی طرف مائل کرنے کے لیے کے پی حکومت نے یقین دہانی کروائی ہے کہ سرمایہ کار کراچی میں جتنا منافع حاصل کر رہے ہیں اس کے مقابلے میں انہیں مزید منافع حاصل ہوگا، بصورت دیگر کوئی تاجر کے پی میں اپنا یونٹ قائم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ 'سرمایہ کاروں کو ضمانت دی جائے کہ انہیں تمام صنعتی سہولیات جیساکہ بلا تعطل گیس، پانی اور بجلی کی فراہمی دی جائے گی جو انہیں یہاں موصول نہیں ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ اگر وہ کراچی میں 10 فیصد کما رہے ہیں تو وہ کے پی میں 20 فیصد منافع حاصل کریں گے۔
زبیر موتی والا نے ترجیحی رعایت کے تعارف کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ گیس اور بجلی پر بلا تعطل فراہمی کی ضمانت کے ساتھ کراچی کے مقابلے میں ادائیگی کم ہونی چاہیے۔
مزید پڑھیں: رشکئی انڈسٹریل زون خیبر پختونخوا کے لیے بڑا سنگ میل ہے، وزیر اعظم
انہوں نے کہا کہ کے پی میں ترجیحی طور پر نجی شعبے کی جانب سے قائم کیے جانے والے خصوصی اقتصادی زونز کے لیے کے پی حکومت، وفاقی حکومت کو قائل کر ے کہ پانچ سے 10 سال کی مدت کے لیے ٹیکس کی چھوٹ دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ کے پی میں متعدد قدرتی خوب صورت مقامات ہیں جہاں بغیر بڑے سرمایہ، وقت اور تعمیر کے 21 ہزار میگاواٹ بجلی پیداکی جاسکتی ہے، بڑی تعداد میں سستی بجلی بنا کر پاکستان اور افغانستان میں فروخت کی جاسکتی ہے۔
کے سی سی آئی کے صدر محمد ادریس نے کے پی حکومت سے مطالبہ کیا کہ آئی ٹی پارک تعمیر کریں تاکہ مقامی مینوفیکچرنگ اور آئی ٹی ودیگر برقی آلات کی مقامی سطح پر تیاری کے لیے مراعات کے ذریعے حوصلہ افزائی کی جاسکے۔