نقطہ نظر

پہلی اینگلو افغان جنگ: ایک جنگی سفر کی کتھا (پانچواں حصہ)

کابل کی گلیوں میں جب شاہ شجاع کی روح اس کے جسم سے آزاد ہوئی تو کابل سیاسی حوالے سے 2 حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔

اس سیریز کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے


1842ء کے ابتدائی مہینوں میں جب رسوائی کا طوق انگریزوں کے گلے میں پڑا تو کمپنی سرکار سر جوڑ کر بیٹھ گئی، سرمایہ مسلسل لگ رہا تھا مگر اس کے بدلے کامیابی کے بیج کے اُگنے کی دُور دُور تک کوئی امید نہیں تھی۔

انڈس لشکر بھیجنے سے پہلے جو پیپر ورک کرنا چاہیے تھا وہ شاید مناسب طریقے سے نہیں کیا گیا بلکہ روس کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں نے شاید اتنا وقت ہی نہیں دیا کہ وہ افغانستان کے معروضی حالات اور وہاں کی نفسیات کا اچھی طرح مطالعہ کرسکتے۔ مگر جو ہونا تھا وہ ہوچکا۔

اس ناکامی کی ڈوبتی نیّا کو پار لگانے کے لیے 'لارڈ آکلنڈ' کی جگہ پر 'لارڈ ایلنبرو' کو گورنر جنرل مقرر کیا گیا۔ لاہور میں مسٹر کلرک نامی برٹش کمپنی کا نمائندہ موجود تھا جبکہ پشاور فوجی چھاؤنی میں برگیڈیئر وائلوس موجود تھا۔ اتنے میں نئے احکامات موصول ہوئے جس کے تحت جنرل پولاک اپنے فوجی جتھوں کے ساتھ پشاور آ پہنچا۔ ان جتھوں کے ساتھ توپ خانہ بھی تھا۔

جاڑوں کے انتہائی ٹھنڈے دن تھے اور یہ فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا تھا کہ کمپنی سرکار کو افغانستان میں آگے کیا حکمتِ عملی اختیار کرنی ہے۔ اپریل کے آواخر میں فیصلہ ہوا کہ، 'افغانستان سے فوجیں نکال لی جائیں مگر نکلنے سے پہلے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ اور وقار بحال کرنے کی پوری کوشش کی جائے اور افغانوں کو ان کی قسمت کے آسرے پر چھوڑ دینا ہے'۔ چنانچہ اب وقت قبضے کا نہیں تھا بلکہ نکلنے کا تھا۔

دوسری طرف کابل اور غزنی پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اب مجاہدین کی نظر جلال آباد پر تھی اور انہوں نے اس کی تیاری بھی شروع کردی تھی۔ جنرل سیل کو یہ یقین تھا کہ اس کے لیے پشاور کے راستے مدد ضرور آئے گی اور اس کا یہ یقین درست بھی تھا۔

سردار اکبر خان ہزاروں مجاہدین کے ساتھ جلال آباد کا محاصرہ کرنے لگا۔ اس محاصرے سے متعلق ہمیں محمد اسماعیل ریحان بتاتے ہیں کہ، 'اکبر خان نے 15 ہزار پیادے اور 5 ہزار گھڑسوار لے جاکر جلال آباد کا محاصرہ کرلیا۔ جلال آباد میں انگریزوں نے دفاعی انتظامات نہایت مستحکم رکھے تھے اور خوراک کے بے پناہ ذخائر ان کے پاس موجود تھے اس لیے محاصرہ طویل ترین ہوگیا۔ مجاہدین نے جلال آباد سے ایک میل دُور چھاؤنی قائم کرلی تھی اور وہ ایک بڑے حملے کی تیاری کر رہے تھے۔

'مارچ 1842ء میں کابل میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں امین اللہ خان لوگری اور میر حاجی کی قیادت میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جلال آباد پر عمومی یلغار کی جائے اور آخری زندہ انگریز سپاہی تک جنگ لڑی جائے۔ اس سلسلے میں وہ بالاحصار میں خود کو محدود کردینے والے شاہ شجاع سے بھی ملے اور جلال آباد پر حملے میں مدد کے لیے کہا۔ شاہ شجاع نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ وہ تذبذب کا شکار تھا اور کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا۔

'جنرل پولاک 4 اپریل 1842 تک، پشاور میں ایک بڑی فوج اکٹھی کرچکا تھا، اور سکھ فوجوں کے جتھے بھی آکر ان میں شامل ہوئے۔ جارج میکمین ہمیں بتاتے ہیں کہ 'پولاک کی کمان میں لڑنے والی فوج کی تعداد 8 ہزار تھی۔ 8 بٹالینز پر مشتمل اس فوج میں 2 انگریزوں اور 3 گھوڑسوار دستوں کی بٹالینز بھی شامل تھیں۔ گوری سرکار اسی فوج کے بل بوتے پر افغانوں کو سبق سکھانا چاہتی تھی اور ان کے زیرِ حراست فوجی عملداروں کو بمعہ خاندان آزاد کروانا تھا، انہی میں سے ایک لیڈی سیل بھی تھیں۔'

5 اپریل کو جب یہ قافلہ افغانستان کے لیے نکلنے والا تھا، انہی دنوں کابل کی صورتحال نیا موڑ لے رہی تھی۔ ہمارے نامعلوم مصنف لکھتے ہیں، 'شاہ شجاع کے پاس بالاحصار قلعہ، فوج اور خزانہ بھی تھا مگر وہ تنہا ہوگیا تھا۔ مقامی سردار اس کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے کہ وہ ان کا ساتھ دے جبکہ گوری سرکار سے وہ ساتھ رہنے کے وعدے کرچکا تھا۔ شجاع کے ذہن میں یہ بات ہمیشہ سے محفوظ تھی کہ امیر دوست محمد خان اور کابل کے سرداروں سے اس کی کبھی نہیں بنی۔ اس کے شب و روز پریشانی کے عالم میں گزر رہے تھے۔ سردار کہہ رہے تھے کہ اگر وہ ان کا ساتھ نہیں دے گا تو آنے والے وقتوں میں وہ ان سے کوئی اچھی امید نہ رکھے۔

’آخرکار بادشاہ نے امیروں سے ملنے کا فیصلہ کیا اور اپنے لشکر اور بیٹے کے ساتھ قلعے سے باہر نکلا۔ سرداروں کی طرف سے ایک شاندار تقریب منعقد کی گئی جس میں شاہ شجاع نے سرداروں کو رقمیں اور اعزاز میں شالیں اوڑھائیں۔محمد امین اللہ خان کو معزز فرد کا اعزاز دے کر اسے 'مُقرب بارگاہ' کا درجہ دیا۔ مگر 'محمد زمان خان' اور ان کے بیٹوں کو نہ تحفہ دیا گیا نہ انعام، اور ان سرداروں کو بھی نظرانداز کردیا گیا جو امیر دوست سے وابستہ تھے۔ محمد زمان خان اور اس کے بیٹے نامور اور بہادر تھے، چونکہ ایک زمانے میں محمد امین اللہ خان، محمد زمان اور اکبر کے پاس ایک خادم کی حیثیت سے رہتا تھا، اس لیے ان کو یہ مناسب نہیں لگا کہ امین اللہ خان، بادشاہ کے اتنے نزدیک رہے۔

بادشاہ کی یہ دانستہ غلطی کا نتیجہ اچھا ثابت ہونے والا نہیں تھا۔ بادشاہ نے تقریب کے بعد اعلان کیا کہ کل لشکر سمیت انگریزوں کے خلاف جنگ کے لیے جلال آباد روانہ ہونا ہے۔ شاہ شجاع کا یہ اعلان یقیناً ایک حیران کن اعلان تھا خاص کر کابل کے امیروں کے لیے۔ شاہ شجاع نے سوچا ہوگا کہ وہ جلال آباد جاکر کمپنی سرکار سے بات چیت کرکے ان کو واپس ہندوستان بھیج دے گا۔ کتنا اچھا ہوتا کہ جیسا انسان سوچتا بالکل ویسا ہوجاتا؟ اگر ایسا ہوتا تو اس دنیا کی ہئیت کیسی ہوتی؟ مگر ایسا نہیں ہوتا اس لیے دنیا بھی ایسی ہے۔

'جب محمد زمان اور اس کے بیٹے شجاع الدولہ نے یہ اعلان سنا تو جیسے چنگاری پر کسی نے تیل ڈال دیا ہو۔ شجاع الدولہ اپنے والد کے دورِ حکمرانی میں حاجی دیرو نامی علاقے میں پیدا ہوا تھا۔ ان دنوں شجاع الملک وہاں آیا ہوا تھا، محمد زمان خان اپنے نوزائیدہ بچے کو بادشاہ کی خدمت میں لے گیا اور بادشاہ نے بچے کو دیکھ کر اس کا نام شجاع الدولہ رکھا۔ یہ وہی شجاع الدولہ تھا جو بادشاہ کی طرف سے امین اللہ خان کو اعزازات ملنے اور انہیں نظرانداز کرنے پر سخت غصے میں تھا اور وہ مسلسل اپنے باپ کے سامنے شاہ شجاع کو قتل کرنے کی باتیں کر رہا تھا۔ محمد زمان خان اسے مسلسل اس عمل سے باز رہنے کی تلقین کرتا رہا۔ مگر غصے کی تپش کو نصیحت کی بدلی مشکل سے ہی بجھا سکتی ہے۔ چنانچہ اس غصے کی آگ کو بجھانے کے لیے خون کی ضرورت پڑگئی۔

'دوسرا دن 5 اپریل 1842 کا دن تھا، بادشاہ صبح کے وقت تیار ہونے کے بعد ڈولی میں سوار ہوکر بالاحصار قلعے سے باہر نکلا تاکہ فوج سے جاملے اور جلال آباد کے لیے قافلہ روانہ ہو۔ راستے میں، شجاع الدولہ اپنے 15 بندوقچیوں کے ساتھ گھات لگائے بیٹھا تھا۔ بادشاہ کی ڈولی جیسے ہی نزدیک آئی تو بندوقوں نے بارود اُگلنا شروع کردیا اور ڈولی بان بدحواس ہوکر ڈولی چھوڑ کر بھاگے، کچھ گولیاں ڈولی کو لگیں اور ان میں سے دو ایک بادشاہ کو لگیں۔ سانس ابھی چلتی تھی مگر شجاع الدولہ نے تلوار شاہ کی گردن پر چلائی اور یوں زندگی کا پرندہ قفس سے آزاد ہوا اور شاہ شجاع کا جسم ڈولی سے باہر گرا اور ٹھنڈا پڑگیا۔ بادشاہ کے زیورات، پوشاک پر لگے ہیرے جواہرات، سونے کی تلوار سمیت دیگر سامان شجاع الدولہ لے گیا، جن کی مالیت آٹھ لاکھ بتائی جاتی ہے۔ یہ خبر سن کر شہزادہ اور امین اللہ خان بھاگتے قلعے پہنچے اور قلعے کے دروازے بند کروادیے۔'

جیسے جیسے دن بڑے اور راتیں چھوٹی ہونے لگیں ویسے ویسے افغانستان کے منظرنامے میں بھی تبدیلی آنے لگی۔ دھوپ کی گرمی سے سفید دودھ جیسی برف پگھلنے لگی اور چشمے قُلقل کرکے بہنے لگے۔ زمین میں دبے وہ بیج جو دھوپ کی امید میں آنکھیں موندے پڑے تھے وہ دھوپ کی آمد کے ساتھ جاگ پڑے اور زمین کو ہریالی سے بھردیا۔

مصیبتیں موسم اور حالات دیکھ کر نہیں آتیں۔ ان دنوں جلال آباد کے قریب اکبر خان اپنے لشکر کے ساتھ موجود تھا۔ اپریل کے ابتدائی دن مجاہدین کے لیے اچھے ثابت نہیں ہورہے تھے۔ ان شب و روز میں ایک دن لالچ کے ورقوں میں لپٹی، 3 لاکھ میں خریدی گئی گولی اکبر خان پر چلی۔ جو سانس کی لے کو تو کچھ نہ کرسکی اور دائیں کندھے پر لگی۔ یہ گولی چلانے والا اور کوئی نہیں بلکہ اکبر خان کا انتہائی نزدیکی خدمت گار تھا۔ اس کی خدمت اور وفاداری کو کمپنی سرکار نے 3 لاکھ میں خرید لیا تھا۔ یہ سب ظرف کی بات ہے۔ کہیں تو زبان سے ادا کیے گئے چند الفاظ کے وعدے پر لوگ ساری دنیا کی دولت کیا اپنی زندگی تک لُٹا دیتے ہیں اور کہیں وفاداری جو اس انسان کا اس دنیا میں سب سے قیمتی جوہر ہے وہ 3 لاکھ میں بِک جاتا ہے!

مناسب ہوگا کہ میں آپ کے لیے مصنف کی تحریر کا وہ حصہ پیش کروں جو اس واقعے سے متعلق ان صاحب قلم نے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ 'اکبر کے خاص خدمت گار کو جنرل نے خرید لیا اور کہا کہ اگر اکبر کو قتل کرو گے تو تمہیں 3 لاکھ ملیں گے۔ خدمت گار نے ہامی بھری اور اس کو 3 لاکھ ادا کردیے گئے۔ ایک دن موقع پاکر اس نے چھپ کر اکبر کا نشانہ لیا اور فائر کردیا، مگر نشانہ چونک گیا اور گولی بائیں بازو پر لگی، مگر جب سپاہ تک یہ بات پہنچی کہ اکبر خان کو گولی لگی ہے اور اکبر مارا گیا ہے تو جتنی بھی سپاہ تھی وہ اِدھر اُدھر بھاگ گئی۔ جب اکبر نے یہ سب دیکھا تو اسے جلال آباد میں رہنا مناسب نہیں لگا اور کابل کی طرف روانہ ہوا۔ اس دوران یہ خبریں بھی مسلسل سننے کو مل رہی تھیں کہ انگریزوں کی فوجیں پشاور سے نکل چکی ہیں اور جلال آباد کی طرف بڑھ رہی ہیں۔'

جنرل سر جارج ہمیں بتاتے ہیں کہ، '5 اپریل کو جنرل پولاک اپنی فوجوں کو لے کر خیبر کی طرف روانہ ہوا۔ اس کے لشکر کو کسی افغانی نے نہیں روکا اور وہ کسی مدبھیڑ کے بغیر جلال آباد پہنچ گیا۔ وہاں اس کے لیے ایک اچھی خبر یہ تھی کہ مجاہدین بہت کوششوں کے باوجود جلال آباد پر قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں جبکہ انگریز فوج کے آنے کا سُن کر یہاں بیٹھے ہوئے افغانی کابل کی طرف چلے گئے تھے، یوں کمپنی سرکار وہاں بہتر اور محفوظ حالت میں آگئی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ناکامی اور اداسی کے بادل کمپنی سرکار کے سر سے چھٹ گئے۔'

کابل کی گلیوں میں جب شاہ شجاع کی روح اس کے جسم سے آزاد ہوئی تو کابل سیاسی حوالے سے 2 حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ جو حالات تھے اس میں ایسا ہونا کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں تھی۔ نواب زمان خان جس کے ہاتھ شاہ شجاع کے خون سے رنگے ہوئے تھے اس نے کابل میں اپنی بادشاہی کا اعلان کردیا۔ یہ وہ دن تھے جب سب طے تھا اور مجاہدین جلال آباد پر حملہ کرنے جا رہے تھے۔ ایسے موقعے پر شاہ شجاع کا قتل ہوجانا اور زمان خان کے حکومت کے اعلان نے سب اُتھل پتھل کردیا۔ نائب امین اللہ خان کی توجہ کا مرکز اب جلال آباد کے بجائے کابل بن گیا اور اس نے نواب زماں خان کی بادشاہت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا کیونکہ مجاہدین کی اکثریت یہ رائے رکھتے تھے کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد سلطنت اکبر خان کے حوالے ہونی چاہیے۔

ریحان لکھتے ہیں کہ 'کابل کے ایک حصے پر نواب محمد زمان کا قبضہ تھا، جبکہ بالاحصار پر نائب امین اللہ قابض تھا، حالات بگڑ رہے تھے یہاں تک کہ دونوں کے آدمیوں کی آپس میں جھڑپیں ہونے لگی تھیں۔ امین اللہ خان کا خیال تھا کہ جیسے ہی جلال آباد سے اکبر آئے گا اس کی بادشاہت کا اعلان کردیا جائے گا'۔

جلال آباد پہنچ کر جنرل پولاک نے راحت محسوس کی کیونکہ اس نے سوچا تھا کہ جلال آباد پہنچ کر وہ میدانِ جنگ میں ہوگا مگر حقائق اس کے بالکل برعکس نکلے۔ 4 جولائی کو قندھار میں موجود لارڈ ایلنبرو کو گورنر جنرل نے ایک خط لکھا جس میں یہ ہدایت تحریر تھیں کہ: وہ کابل سے ہوتا ہوا، افغانستان چھوڑ کر ہندوستان آجائے۔ ’جنرل پولاک‘ کو بھی اسی قسم کا پیغام بھیجا گیا جس میں اضافہ یہ تھا کہ وہ جنرل ناٹ کی مدد بھی کرے۔ گورنر جنرل کے یہ خط 20 جولائی کو موصول ہوئے تھے۔ جنرل پولاک گرمی کا موسم جلال آباد میں گزارنا چاہتا تھا مگر وہاں سے نکلنے کے سخت احکامات تھے۔

20 اگست کو جنرل ناٹ نے قندھار کی حکومت صفدر جنگ کے حوالے کی اور کابل کے لیے نکل پڑا جبکہ اسی تاریخ کو جنرل پولاک بھی اپنی فوج سمیت جلال آباد سے نکلا۔ جب کابل کے اطراف فوجیں اکٹھی ہو رہی تھیں ان دنوں کے بارے میں ہمارے نامعلوم مصنف ہمیں بتاتے ہیں کہ، ’کنرل پولاک اور جنرل سیل اپنی فوجوں کے ساتھ گندمک کے راستے کابل کی طرف بڑھے۔ گندمک پہنچ کر جنرل سیل نے اپنے جاسوسوں کو کابل شہر بھیج کر کابل کی دیواروں پر ایک پوسٹر لگوایا جس کی تحریر کچھ اس طرح تھی، 'اگر افغانوں نے انگریز قیدیوں کو معمولی سی بھی تکلیف پہنچائی تو کابل کو ایسا برباد کریں گے کہ اس شہر کا نام و نشان ہی مٹ جائے گا'۔

'اس پوسٹر نے افراتفری مچادی۔ اکبر خان اور سرداروں کے مابین ایک میٹنگ ہوئی اور انگریزوں سے لڑنے کے لیے 5 ہزار مجاہدین کو کابل سے گندمک اور تینین بھیجا گیا۔ اس افغان لشکر میں زیادہ تعداد غلزیوں کی تھی۔ جنگ چھڑی تو ابتدا میں مجاہدین انگریز فوج پر بھاری رہے مگر پھر پانسہ پلٹا اور مجاہدین کو شکست ہوئی۔ اس ہار کے بعد انگریز فوجوں کے لیے کابل تک راستہ بالکل صاف ہوگیا۔ اس ہار کی خبر جب کابل پہنچی تو بہت سارے لوگ ٹولیوں کی صورت میں کوہستان کی طرف نکل پڑے۔ حالات بگڑ رہے تھے، اکبر خان نے یہ دیکھتے ہوئے سارے انگریز قیدیوں کو باحفاظت بامیان کے قلعے تک پہنچانے کا فیصلہ کیا اور یہ ذمہ داری اپنے معاونِ خصوصی صالح محمد خان کو سونپ دی۔'

میں یہاں آپ کو ایک اور سچی کہانی بتانے والا ہوں جس کا تعلق اکبر خان کے ایک قریبی اور قابلِ بھروسہ ساتھی سے ہے، جی ہاں یہ صالح محمد خان سے متعلق ہے۔ جو واقعہ ہم بیان کرنے جارہے ہیں، وہ ان حالات میں تبدیلی کا محرک ثابت ہوتا ہے جب جنگ کا میدان سجا ہو اور غلطی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ اس کہانی سے یہ بھی اخذ کیجیے کہ ڈس انفارمیشن کس طرح لینڈ اسکیپ کو تبدیل کردیتی ہے۔

ہمارے بے نام مصنف بتاتے ہیں، 'جب سردار اکبر خان کی حکمتِ عملی کے تحت صالح محمد خان، سارے انگریز قیدیوں کو بامیان کے قلعے میں لے گیا تو اس نے ایک تنگ جگہ پر مرد اور عورتوں کو الگ الگ قید میں رکھا۔ قیدی انگریز افسران نے یہاں سے نکلنے کے لیے وہی کیا جو کوئی بھی قیدی کرسکتا ہے اور پھر یہاں تو قیدی گوری سرکار کے اعلیٰ افسران تھے۔ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ پیسوں کے جادو کا جال بچھایا جائے کیونکہ اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ سب نے مل کر مسٹر لارنس کو اپنا رہنما بنایا اور صالح محمد خان سے گفت و شنید کی ذمہ داری دے دی۔

'ابتدائی بات چیت کے دوران مسٹر لارنس نے کہا، ہم سب قیدیوں کی زندگیاں آپ کے ہاتھ میں ہیں، آپ پر ذمہ داری تو بہت بڑی ہے مگر امیروں نے آپ کی کوئی قدر نہیں کی۔ آپ جیسا ذہین انسان تو ہمارے پاس ہوتا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ آپ کی قدر کیسے کی جاتی ہے۔ اگر آپ ہم قیدیوں کو گندامک (جلال آباد اور کابل کے پرانے راستے پر واقع ایک گاؤں جو جلال آباد سے تقریباً 56 کلومیٹر دُور ہے) کی جگہ جنرل پولاک کے لشکر تک پہنچادیں تو ہم اس کے عوض ایک لاکھ روپے دینے کے پابند ہوں گے اور ساتھ میں یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کا سالانہ وظیفہ مقرر کرکے جاری کروایا جائے گا۔ یہ باتیں سن کر صالح محمد نے کوئی جواب تو نہیں دیا البتہ اس کے سخت رویے میں نرمی آگئی، قیدیوں پر جو تھوڑی بہت سختی تھی وہ ختم ہوگئی اور خوراک بھی بہتر ہوگئی۔

'ایک دو دنوں کے بعد کابل سے جنرل پولاک کا قاصد صالح محمد کے لیے ایک خط لے کر آیا جس میں لکھا تھا کہ، اگر آپ مہربانی کرکے ہمارے سارے قیدیوں کو آزاد کرکے ہماری طرف بھیج دیں گے تو ہم آپ کو 20 ہزار کا انعام اور ایک ہزار روپیہ سالانہ وظیفہ بھی جاری کروائیں گے۔ اسے یہ بات اچھی لگی اور جنرل پولاک کے خط کا جواب بھی دینا چاہتا تھا۔ مگر اگلے دن امیر اکبر خان کا معاونِ خصوصی یہ پیغام لے کر پہنچا کہ، بامیان کے قلعے سے سارے قیدیوں کو لے کر خلوم کی طرف آؤ، پیغام پہنچتے ہی اس پر فوری عمل ہونا چاہیے کیونکہ انگریزوں کا لشکر پھر سے کابل پر حاوی ہو رہا ہے اور وہ قیدیوں کی تلاش میں بامیان کے قریب پہنچ چکے ہیں، اس لیے فوری طور پر خلوم کے لیے نکلا جائے۔

'اکبر خان کو شاید یہ پتا نہ چل سکا تھا کہ کمپنی سرکار بامیان پہنچے یا نہ پہنچے لیکن ان کے آدمی اور آنے والے دنوں کے لیے اچھے خواب اور امیدوں کے نخلستان کب کے بامیان قلعے کے اندر پہنچ چکے تھے۔ جنگیں جب بھی لڑی گئی ہیں ان کے لیے ہمیشہ 2 میدان سجتے ہیں ایک جنگ کا میدان اور دوسرا نفسیاتی حربوں کا میدان۔ مگر یہاں اکبر خان کو ایک اور دھچکا لگنے والا تھا جس کے پیچھے کوئی اور نہیں بلکہ ان کا اپنا معاونِ خصوصی تھا۔ صالح محمد خان قیدیوں کو آزاد کرنے اور اپنا کل اچھا بنانے کے لیے مناسب موقع تلاش کر رہا تھا۔ اتنے میں خبر آئی کہ بامیان کے قریب تاجین، جہاں انگریزوں کی چھاؤنی تھی، وہاں افغانوں کو ناکامی ہوئی ہے۔

'منشی موہن لال جو برنس کا دوست اور انگریزی، فارسی، پشتو، ہندوستانی، کشمیری اور پنجابی زبانوں پر دسترس رکھتا تھا وہ لارنس سے آکر ملا اور پھر دونوں صالح محمد خان سے ملے۔ 'اس وقت ہمارا لشکر تاجین کے محاذ کو فتح کرچکا ہے اور کل تک یہاں پہنچ جائے گا۔ ہم کو یہ بھی پتا ہے کہ اب آپ میں مقابلے کی سکت نہیں ہے، ہم لشکر کے ساتھ چلے جائیں گے۔ ہمارے جانے کے بعد آپ کو جتنی رقم دینے کا وعدہ کیا گیا ہے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا، آپ نہ یہاں کے رہیں گے نہ وہاں کے رہیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ انگریز لشکر کے ہاتھوں گرفتار ہوجائیں اور گرفتاری کے بعد کیا ہوگا؟ اس بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، اس وقت کوڑیاں آپ اور ہمارے ہاتھ میں ہیں ہم جیسے چاہیں کھیل سکتے ہیں۔ مناسب یہی رہے گا کہ آپ ہمارے قیدیوں کو آزاد کرکے کابل بھیج دیں'۔ منشی موہن لال کی باتیں کام کرگئیں۔ صالح محمد نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا، ساتھیوں نے بھی یہ مناسب سمجھا کہ لارنس اور موہن لال کی باتوں پر عمل کیا جائے۔

'صالح محمد نے ان کی باتوں اور وعدوں کو دستاویزی صورت دے کر اس پر کسی ذمہ دار افسر کے دستخط ثبت کرانے کی بات کی۔ اقرار نامہ تحریر کیا گیا اور قید میں موجود کیپٹن میکنزی نے اس پر ضمانتی دستخط کیے۔ اس طرح انگریز سرکار کے یہ اہم قیدی بامیان کے قلعے سے آزاد ہوکر کابل روانہ ہوئے۔ انگریز سرکار نے صالح محمد خان کے لیے ماہانہ 300 روپے وظیفہ جاری کیا۔'

مناسب رہے گا کہ اتنے اہم واقعے کا کچھ احوال ہم 'جارج میکمین' کی زبانی بھی جان لیں۔ 'حالات اب افغانوں کے ہاتھوں سے نکل چکے تھے، اور ہر محاذ پر وہ پسپا ہو رہے تھے۔ جنرل پولاک نے 600 جنگی گھڑسواروں کو سر رچمنڈ شیکسپیئر کی کمان میں بامیان بھیجا تھا مگر لشکر کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی ڈر کر ان سارے قیدیوں کو آزاد کردیا گیا۔ ہمارے قیدیوں پر ایک ایسا فوجی عملدار مقرر کیا گیا تھا جو کسی زمانے میں شاہ شجاع کی ایک رجمنٹ میں صوبیدار کے عہدے پر رہ چکا تھا۔ اس کو انعام و اکرام اور پینشن لینے کی لالچ میں اس نے ہمارے قیدیوں کو آزاد کردیا'۔

1842ء کے ابتدائی مہینوں میں منظرنامہ مجاہدین کے حق میں تھا مگر اب جیسے جیسے موسم گرم تر ہو رہا ہے ویسے ویسے حالات ایک بار پھر گوری سرکار کا پلڑا بھاری کرتے جا رہے ہیں۔ یقیناً اکبر خان اور اس کے ساتھیوں کے لیے یہ ایک کشیدہ صورتحال ہے۔ مگر یہ مایوسی ان غلطیوں کا خمیازہ ہے جو ان سے گزشتہ مہینوں میں سرزد ہوئی تھیں۔

کابل کی گلیوں اور بازاروں میں ان دنوں خاموشی کی بیلیں اُگتی ہیں مگر وقت کی تیز آنکھ کو یہ خاموشی کی فصل دکھائی نہیں دے رہی بلکہ اسے تو وہ سُرخ طوفان دکھائی دے رہا ہے جو مشرق سے دھیرے دھیرے کابل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ طوفانوں کے سینوں میں بربادیاں ہی پنپتی ہیں۔ ہم جلدی ملتے ہیں بالاحصار قلعے اور کابل شہر کی پہاڑیوں پر۔


حوالہ جات:


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔