وہ آواز جو انسانی تہذیب کے ’خلائی عہد‘ میں داخلے کا اعلان تھی
اکتوبر 1957ء کا مہینہ دنیا بھر میں ریڈیو اور ریڈیائی لہروں سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے کسی خواب کے حقیقت بننے جیسا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا بھر اور خصوصاً روسی اور امریکی شہری اور ادارے اپنے نجی ریڈیو سیٹس اور ریڈیو اسٹیشنز پر ایک فریکیوئنسی سیٹ کرکے مخصوص بیپ سننے کا انتظار کرتے تھے۔
ہمیں 2021ء میں شاید یہ عمل غیر معقول لگے لیکن 1957ء میں ریڈیو سیٹ سے نکلنے والی وہ بیپ دراصل انسانی اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی معراج تھی۔ وہ بیپ انسان کی جانب سے خلا میں بھیجی گئی پہلی سیٹلائیٹ اسپٹنک-1 سے جاری ہونے والے سگنلز کی آواز ہوا کرتی تھی۔
اسپٹنک-1 کو سوویت یونین نے 4 اکتوبر 1957ء کو موجودہ قازقستان کے بائکونور کوسموڈروم سے خلا میں بھیجا تھا اور یہی دنیا میں ’اسپیس ریس‘ کا نقطہ آغاز تھا۔
اسپٹنک-1 لانچ کا پس منظر
اسپٹنک-1 کی لانچ کے کچھ سائنسی، سیاسی اور عسکری پہلو ہیں۔ اس کا ایک پہلو تو انٹرنیشنل جیو فیزیکل ایئر ہے۔ انٹرنیشنل کونسل آف سائنٹفک یونینز نے یکم جولائی 1957ء سے 31 دسمبر 1958ء تک کا وقت انٹرنیشنل جیو فیزیکل ایئر قرار دیا تھا۔ اس سال کو منانے کے اغراض و مقاصد میں دیگر نکات کے علاوہ یہ بات بھی شامل تھی کہ زمین اور خلا کے حوالے سے مختلف مطالعات کے لیے مصنوعی سیارے خلا میں بھیجے جائیں۔ اس اعلان کے بعد اس وقت کی دو بڑی طاقتوں یعنی سوویت یونین اور ریاست ہائے متحدہ امریکا نے مصنوعی سیاروں کی تیاری اور انہیں خلا میں بھیجنے کی کوششوں کا آغاز کردیا۔
اسپٹنک-1 لانچ کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ 1950ء کی دہائی میں دنیا کی دونوں بڑی طاقتیں یعنی امریکا اور سوویت یونین دُور مار ہتھیاروں کی تیاری کے لیے کوشاں تھیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے اختتام تک جرمن سائنسدان ایک بین البراعظمی میزائل کی تیاری کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ اگرچہ جنگ کے اختتام تک یا جنگ کے بعد ان میں اکثر سائنسدان امریکیوں کے ساتھ کام کرنے لگے تاہم ان کی کچھ تحقیق سویت یونین کے بھی ہاتھ لگی۔ یوں دو بڑی طاقتوں کے درمیان بین البراعظمی میزائل تیار کرنے کی دوڑ شروع ہوگئی۔
سوویت یونین کی کوششوں کا نتیجہ آر-7 راکٹ کی تیاری پر منتج ہوا۔ یہ پہلا بین البراعظمی بیلسٹک میزائل تھا۔ اس میزائل کی طویل پرواز کا پہلا کامیاب تجربہ 21 اگست 1957ء کو ایک ڈمی وارہیڈ کے ساتھ کیا گیا۔ یہ ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک اہم قدم ہونے کے ساتھ ساتھ عسکری میدان میں بھی امریکا پر سوویت یونین کی برتری کا مظہر تھا۔ تاہم سوویت یونین نے اپنی برتری کو مزید ثابت کرنے کے لیے فیصلہ کیا کہ اس میزائل کے وارہیڈ کی جگہ ایک سیٹلایٹ نصب کرکے اسے خلا میں بھیجا جائے۔ یوں آر-7 میزائل میں ضروری تبدیلیاں کرکے اسپٹنک-1 کو خلا میں لے جانے کے لیے تیار کیا گیا۔
اسپٹنک-1 کن آلات پر مشتمل تھی اور یہ کام کیسے کرتی تھی؟
اسپٹنک-1 تقریباً 86 کلو گرام وزنی اور تقریباً 23 انچ قطر کی گیند نما سیٹلائٹ تھی۔ اس میں 2.4 اور 2.9 میٹر کے کل 4 انٹینا نصب تھے۔ اس کے خول کی موٹائی تقریباً 2 ملی میٹر تھی جسے ایلومینم، مگنیشیم اور ٹائیٹینیم دھاتوں کے ایک خاص مرکب سے تیار کیا گیا تھا۔ اس میں ایک ریڈیو ٹرانسمیٹر اور مختلف طرح کے سینسر اور سوئچ نصب تھے اور انہیں چلانے کے لیے 3 سلور زنک بیٹریاں بھی نصب تھیں۔
اس سیٹلائٹ میں نصب ٹرانسمیٹر ایک مخصوص وقفے سے سگنلز ٹرانسمٹ کرتا تھا جسے ریڈیو سیٹ پر ایک بیپ کی صورت میں سنا جاتا تھا۔ بیپ کے درمیانی وقفے سے ہی سیٹلائٹ کے اندرونی و بیرونی درجہ حرارت اور اندرونی دباؤ کے حوالے سے معلومات موصول ہوتی تھیں۔
اسپٹنک-1 18 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی تھی اور تقریباً 96 منٹ میں زمین کے گرد ایک چکر مکمل کرتی تھی۔ اپنے مدار میں سفر کرتے ہوئے یہ زمین سے زیادہ سے زیادہ 528 میل دُور جاتی تھی اور کم از کم 143 میل کے فاصلے تک آتی تھی۔ اس کم فاصلے اور اپنی انتہائی چمکدار سطح کی وجہ سے اسے بعض اوقات دن کے وقت دُور بین کی مدد سے دیکھا جاسکتا تھا۔