مفاہمتی عمل کے تحت تحریک طالبان پاکستان سے ہتھیار ڈالنے کے لیے بات کررہے ہیں، عمران خان
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ مفاہمتی عمل کے تحت کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کچھ گروپوں سے ہتھیار ڈالنے کے لیے بات چیت کی جارہی ہے۔
خیال رہے کہ یہ بات وزیراعظم عمران خان نے ترک میڈیا 'ٹی آر ٹی ورلڈ' کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہی ہے جس کا مختصر ٹیزر ترک میڈیا کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کیا گیا ہے اور یہ مکمل انٹرویو بعد میں نشر کیا جائے گا۔
مختصر ٹیزر میں وزیراعظم کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ 'ٹی ٹی پی کے چند گروپس ہم سے مصالحت کے لیے بات کرنا چاہتے ہیں اور ہم ان گروپس کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ٹی ٹی پی مختلف گروپس پر مشتمل ہے اور ہم ان میں سے چند کے ساتھ ہتھیار ڈالنے اور مصالحت کے حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں'۔
افغان طالبان کے اس معاملے میں مدد کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'بات چیت افغانستان میں جاری ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ وہ مدد کر رہے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم ان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد انہیں معاف کردیں گے جس کے بعد وہ عام شہریوں کی طرح رہ سکیں گے'۔
انہوں نے کہا کہ 'میں فوجی حل میں یقین نہیں رکھتا، سیاست دان ہونے کے طور پر سیاسی مذاکرات کو ہی آگے کا راستہ سمجھتا ہوں جیسا میں نے افغانستان کے بارے میں بھی کہا تھا'۔
مذاکرات ہونے کے باوجود سیکیورٹی فورسز پر ٹی ٹی پی کے حملوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'ہم بات چیت کر رہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ کوئی نتیجہ نہ نکل سکے، مگر ہم بات کر رہے ہیں'۔
بعد ازاں معاون خصوصی شہباز گل نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا خصوصی انٹرویو کل بروز ہفتہ پاکستانی وقت کے مطابق صبح تقریباً 11:00 بجے @trtworld پر نشر کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے بات چیت کے حوالے سے بیان دیا گیا ہو اس سے قبل صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اسی قسم کے بیانات دے چکے ہیں۔
ٹی ٹی پی اراکین آئینِ کے تحت چلنا چاہیں تو معافی کا سوچ سکتے ہیں، صدر مملکت
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ کے آغاز میں صدر مملکت عارف علوی نے ڈان نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ جو کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے اراکین جرائم میں ملوث نہیں اور ٹی ٹی پی کے نظریات کو چھوڑ کر پاکستان کے آئین کے ساتھ چلنا چاہے تو حکومت عام معافی کا سوچ سکتی ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے افغان طالبان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہمارے لیے خطرہ ہے، ان کی تیسری یا چوتھی صف کے رہنماؤں کی طرف سے یہ بات ہوئی ہے کہ وہ کہیں گے ہمارے پاس رہیں مگر پاکستان کے خلاف کوئی حرکت نہ کریں'۔
اس انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ 'پاکستان کی حکومت نے کہا کہ جو ہتھیار ڈال کر پاکستان کے آئین کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، ان کو تسلیم کرتے ہوئے، پاکستان بھی سوچے گا کہ ان کو ایمنسٹی دے یا نہ دیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ایک قدم ہے، پاکستان عام معافی کا سوچے گا، اگر کوئی ہتھیار ڈالتا ہے'۔
میزبان کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں صدر مملکت نے کہا کہ 'میں کسی کا نام نہیں لے رہا، پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسے لوگ جو کریمنل سرگرمیوں میں نہیں رہے ہوں، ٹی ٹی پی والا نظریہ چھوڑ کر پاکستان کے آئین کی پابندی کرنے کے اعتبار سے آنا چاہیں تو حکومت سوچ سکتی ہے کوئی معافی کا اعلان کرے'۔
اگر کوئی ہتھیار ڈالتا ہے تو پاکستان عام معافی کا سوچے گا، وزیر خارجہ
علاوہ ازیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی کہا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے اراکین کو معاف کرنے کے لیے حکومت اس وقت 'تیار' ہوگی، اگر وہ وعدہ کریں کہ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوں گے اور آئین پاکستان کو تسلیم کریں۔
غیر ملکی اخبار 'انڈیپنڈنٹ' کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ پاکستان کو ان خبروں پر تشویش تھی کہ ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کو طالبان کے قبضے کے بعد جیلوں سے رہا کیا جارہا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر افغان حکومت اپنا اثر و رسوخ استعمال کرسکتی ہے اور ٹی ٹی پی سے بات کرے اور اگر 'ٹی ٹی پی قانون اپنے ہاتھ میں نہ لے اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہو، حکومت اور آئین پاکستان کی رٹ کے سامنے ہتھیار ڈالے تو ہم یہاں تک ان کو معافی کے لیے تیار ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی دہشت گردی ترک کرکے ہتھیار ڈالے تو حکومت معافی کیلئے 'تیار' ہے، وزیر خارجہ
ان کا کہنا تھا کہ 'جب تک وہ نہیں آتے اور پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیاں ختم نہیں ہوتیں اس وقت تک ہمیں تشویش ہے'۔
انہوں نے کہا کہ اگر وہ رہائی کے بعد یہاں ہمارے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں تو اس سے معصوم لوگوں کی جانوں پر اثر پڑے گا اور ہم ایسا نہیں چاہتے ہیں۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو افغان طالبان کی جانب سے زبانی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ وہ افغانستان سے پاکستان کے اندر کسی گروپ کو دہشت گردی پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے اور پاکستان اس حوالے سے نظر رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئی طالبان قیادت کا رویہ 1990 کی دہائی کے مقابلے میں مختلف ہے کیونکہ کابل میں بڑے پیمانے پر احتجاج کو برداشت کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اشرف غنی کو ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان نے مسلسل نشان دہی کی لیکن انہوں نے کوئی اقدام نہیں کیا اب دیکھنا ہے کہ افغان طالبان اپنی یقین دہانیوں پر کام کرتے ہیں یا نہیں۔
ٹی ٹی پی کو 2008 میں کالعدم قرار دیا گیا
خیال رہے کہ ٹی ٹی پی مختلف عسکریت پسند تنظیموں کا گروپ ہے جو 2007 میں تشکیل دیا گیا اور وفاقی حکومت کی جانب سے اگست 2008 میں اسے کالعدم تنظیم قرار دیا گیا تھا، بیت اللہ محسود ٹی ٹی پی کا پہلا سربراہ تھا جو 2009 میں امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔
حکومت نے ٹی ٹی پی سے منسلک دیگر گروپوں پر بھی پابندی عائد کردی تھی اور 2014 میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت میڈیا کو بقول اس کے 'عسکریت پسندوں کی تعریف' سے روک دیا گیا تھا۔