پتریاٹہ: جہاں فطری حُسن میلا ہو رہا ہے!
پتریاٹہ کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ جب اس حوالے سے کھوج لگانی شروع کی تو ایک قصہ پڑھنے کو ملا۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ ایک بار سبزے اور پہاڑوں سے بھرے ایک خوبصورت اور دلفریب علاقے میں کوئی صدی پہلے برٹش دور میں ایک گورا پہنچا۔ اسے وہ علاقہ بھا گیا اور اس نے وہاں راہ چلتی ایک مقامی خاتوں سے اس علاقے کا نام پوچھا۔ اب وہ ہندکو دیہاتی خاتوں سر پر آٹا لیے کہیں جا رہی تھی، انگریز نے انگریزی میں کیا پوچھا اس کا تو اس کے فرشتوں کو بھی علم نہ ہوا مگر اپنے فہم وشعور سے اس نے یہ ضرور اخذ کرلیا کہ ہو نہ ہو اس سے یہی پوچھا گیا ہے کہ اس کے سر پر کیا ہے۔ چنانچہ اس نے بہت ہی شفقت سے انگریز کو بتایا کہ 'پُتر آٹا!' اب پُتر چونکہ انگریز تھا اور اس وقت ان وادیوں کے انگریز تن تنہا مالک بھی تھے لہٰذا کسی نے اس کا اصل نام جاننے کی کوئی کوشش بھی نہ کی اور اس علاقے کا نام انگریزوں سے ہوتا ہوا 'پتر آٹا' یعنی پتریاٹہ ہی پڑگیا۔
یہ قصہ کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ، اس کے بارے میں تو کوئی تصدیق موجود نہیں، مگر کہانی دلچسپ ضرور ہے اور علاقہ اس کہانی سے بھی زیادہ حسین اور دلکش ہے۔
3 ماہ سے پتریاٹہ کے کنارے آئے بیٹھے تھے مگر غمِ روزگار نے فرصت ہی نہ دی تھی کہ اس کی طرف آنکھ بھر کر دیکھ سکیں۔ بڑی کوشش اور جدوجہد کے بعد گھر کے تینوں بڑوں یعنی میاں اور 2 بچوں کو راضی کیا اور ایک دن بالآخر ہم پتریاٹہ یا نیو مری کی زیارت کے لیے روانہ ہوگئے۔
میں نہیں جانتی کہ یہ موجودہ زمانے کا المیہ ہے یا ہر زمانے میں یہی ہوتا تھا کہ بچوں کو گاڑی کے شیشوں سے باہر کسی چیز سے کوئی غرض ہی نہیں۔ باہر سے اٹلی گزر جائے، فرانس گزر جائے یا سوئٹزرلینڈ مگر ان کی نظروں کو کوئی مقام متوجہ ہی نہیں کرپاتا۔ شاید یہ بزرگوں کے کام کی ہی چیز ہے کہ کھڑکی سے باہر نظر آتے ہرے بھرے درخت، جنگلات، پہاڑ اور وادیوں کو دیکھ کر نہیں تھکتے۔
ہمارے بچوں کو سب کچھ اپنے ہاتھوں میں پکڑی چھوٹی سی اسکرین پر دیکھنے کی عادت ہوچکی ہے۔ چنانچہ ٹیبلٹ کی زنبیل میں سے دنیا کے خزانے نکال لینے والے بچے کھڑکی سے باہر متوجہ نہیں ہوپاتے۔ کیا کبھی کسی نے محسوس کیا ہے کہ آج کے زمانے میں سب سے بدترین نشہ انٹرنیٹ، ٹیبلٹ اور سمارٹ فون کا نشہ ہے؟
چنانچہ ان کو اس سفر پر راضی کرنے کا صرف یہی طریقہ تھا کہ کسی نہ کسی کام کے لیے ان کے ہاتھ میں ٹیبلٹ پکڑائے جائیں اور چیئر لفٹ کا وعدہ کیا جائے۔
نیو مری کے چیئر لفٹ پوائنٹ پر پہنچے تو گیٹ پر اترتے ہی ہمیشہ کی طرح میاں نے صلاح دی کہ سامان گاڑی میں چھوڑ دو کہاں اٹھائے پھریں گے۔ اب چونکہ ہم بھی زحمت سے گھبراتے ہیں اس لیے غلطی کرتے ہوئے ہر بار میاں کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ لہٰذا ہم نے اسنیکس، چھتریاں، جیکٹ سمیت بیگ گاڑی میں چھوڑ دیا اور چیئر لفٹ کی سواری کے لیے خالی ہاتھ پہنچ گئے۔
ٹکٹ گھر پہنچے تو پتا چلا کہ کیبل کار کسی تکنیکی خرابی کے باعث بند ہے۔ شاید اس سفر میں صرف چیئر لفٹ پر سواری ہی ہمارے نصیب میں تھی۔ چھٹی کا دن ہونے کی بنا پر لوگوں کا جمِ غفیر تھا اور چیئر لفٹ پر بیٹھنے والوں کی ایک لمبی قطار اپنی باری کی منتظر تھی۔
ہم نے بھی اپنے بچوں کی عمروں میں کبھی ایک آدھ بار یہ سواری کا لطف اٹھایا تھا۔ اس کے بعد کے 15، 20 سال غم جاناں اور غم دوراں میں گزار دیے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے ایڈونچر کی عادت جیسے ختم ہی ہوگئی، لیکن اب جب ڈھلتی عمروں میں بچوں کی خواہش پر تھیم پارک کی سیر کرنی پڑجائے اور تیز رفتار اور خطرناک رائیڈ پر انہیں بٹھانا پڑجائے تو خود بھی ساتھ بیٹھنا پڑتا ہے۔
یہ چیئر لفٹ اگرچہ فراری (ferrari) کی تیز رفتار رولر کوسٹر اور وارنر برو (Warner bro) کی اندھیری اور خطرناک آسمانوں سے گرتی سلائیڈ جیسی خطرناک تو نہیں تھی مگر اتنی اونچائی تک دھیرے دھیرے سفر کرنے کی وجہ سے میں اس قدر خوفزدہ تھی کہ اپنی بیٹی کے مقابلے میں نے زیادہ سختی سے راڈ پکڑ لی اور پورے راستے آیت الکرسی کا ورد کرتی رہی۔
جوانی بھی کیا چیز ہوتی ہے، جب انسان نہ خطرات کی پرواہ کرتا ہے اور نہ اس کے بارے میں زیادہ فکرمند ہوتا ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ جیسے جیسے انسان عقل، شعور اور علم سے روشناس ہوتا ہے، وہ بزدل سے بزدل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ خصوصاً جہاں چیزیں بگاڑنے اور بگاڑے رکھنے کا فیشن ہو اور بگڑی چیزوں کو سنوارنے سے اکثریت ڈھکے چھپے کنی کترا جاتی ہو وہاں محض اتنا علم ہی انسان کے تمام تر مزے لینے کی کوشش کو ضائع کرکے رکھ دیتا ہے کہ کسی تکنیکی یا موسمی خرابی کے باعث اس کے گرنے یا خراب ہونے کے امکانات موجود ہیں۔
وادیوں اور پہاڑوں کی طرف دھیرے دھیرے کھسکتے اس اُڑن کھٹولے پر بیٹھ کر انسان یقیناً جنت کا نظارہ کرتا ہے، خصوصاً اگر جولائی اگست کا مہینہ اور ہریالی بادل اور بارش کے سنگم دن ہوں۔ آپ کو 15 سے 20 منٹ کی اس فضائی سیر میں یقیناً دنیا کے خوبصورت ترین نظارے دیکھنے کا موقع میسر آسکتا ہے۔
راستے میں 4 سے 5 مقامات پر سیکیورٹی کی چوکیاں بنائی گئی ہیں مگر آتے جاتے ہم نے کسی بھی چوکی پر برائے نام بھی کوئی گارڈ نہیں دیکھا۔ ان گارڈز کی جگہ چاک و چوبند فقیر تقریباً ہر سنگ میل پر نظر آئے جن میں بچوں کی کثرت ہے۔
خیر، مناظر کی تمام تر خوبصورتی ان ہرے بھرے درختوں کی تازگی اور ہریالی میں ہے۔ موسمِ گرما میں چونکہ ان کی خوبصورتی اپنے عروج پر ہوتی ہے اس لیے چیئر لفٹ کا یہ سفر دلنشیں نظاروں سے بھرپور بن جاتا ہے۔
چوٹی پر اُترے تو تھوڑی مایوسی ہوئی کیونکہ سرکار کی طرف سے اس مقام پر بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں بنائی گئی۔ اس ٹاپ پر چائے کے اڈوں اور ڈھابوں کی اتنی کثرت ہے کہ اترتے ہی پہلے انسان تل دھرنے کی جگہ ڈھونڈتا ہے کہ کہاں پاؤں رکھے جو کسی ڈھابے یا چائے کے کھوکھے پر نہ پڑے۔ جب کوئی اتنی دُور آئے تو اتنے پُرفضا، ٹھنڈے اور خوبصورت مقام پر چائے تو وہ ضرور پیے گا، خاص کر تب جب بیگ بھی گاڑی میں چھوڑ دیا گیا ہو، مگر سب سے پہلے اس کے بیٹھنے کے لیے بہتر جگہ کا سرکاری انتظام لازمی ہونا چاہیے۔
ایک مناسب ریسٹ اور سیٹنگ ایریا کے بعد ڈھابے اور اسٹال بہرحال ضروری ہیں مگر اب صورتحال یہ ہے کہ ٹاپ پر خدا کی زمین اور پہاڑوں کے سوا بیٹھنے کا سرکاری انتظام موجود نہیں ہے۔ ساری جگہ اور کرسیاں ڈھابوں کی ملکیت میں ہیں۔ چنانچہ اگر کسی کا سانس پھول رہا ہے، کسی کو سردی لگ گئی ہے یا کوئی چھوٹا بچہ رو پڑا ہے تو کسی نہ کسی ڈھابے کی کرسی پر ہی بیٹھنا پڑے گا اور نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ خریدنا پڑجائے گا۔ کیا ہی اچھا ہو اگر اس چوٹی پر اور اس کے آس پاس کی پہاڑیوں پر پارکس اور باغوں کی طرح حکومت کی جانب سے چھپڑیاں اور ان کے نیچے بینچ بنے ہوں۔ اس طرح لوگوں کے پاس اِدھر اُدھر بیٹھنے کی مناسب جگہ موجود ہوگی اور ہر کوئی اس چوٹی پر ڈھابوں کے گرد اکٹھے ہونے پر مجبور نہیں ہوگا۔
اس کے علاوہ اس پورے ٹاپ پر کچرا پھینکنے کا کوئی مناسب بندوبست موجود نہیں اور وادی نے جیسے خود کو ہی کوڑا دان بنالیا ہے۔ عوام الناس نے بھی خوب سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچرا اور استعمال شدہ ڈائپرز ہر جگہ پر پھینک رکھے ہیں۔ شاید ہماری سوچ کے مطابق جہاں ہم کھڑے ہیں صرف وہی جگہ محفوظ ہونے کا حق رکھتی ہے باقی تمام دنیا کچرے کا ڈرم ہے۔ وہاں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک پڑھی لکھی نظر آنے والی خاتون نے بچے کو ذرا سا پرے لے جاکر اس کا ڈائپر بدلا اور اپنی دانست میں اسے گھما کر پرے دُور کسی دوسری دنیا میں پھینک دیا جو بل کھا کر وہیں قریبی دوسری راہ گزر پر جا گرا۔
ایسے پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے خاندانوں کے بچوں کے ڈائپرز سے یہ پہاڑی لدی پھدی ہے۔ ڈھابوں نے بھی نہ تو ضرورت محسوس کی ہے نہ ہی انہیں پابند کیا گیا ہے کہ اپنے کوڑے کو سنبھال کر اپنی ذمہ داری پر تلف کریں، یہی وجہ ہے کہ ہر ڈھابے کے پچھلے حصے میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر جمع ہوتے ہیں۔
ہم شور تو بہت مچاتے ہیں کہ پاکستان سیاحت کے لیے بہترین مقام ہے مگر جب گورے یہاں کوڑا دان ڈھونڈیں گے تو آپ ان کو کیسے قائل کریں گے کہ وہ کچرا اٹھا کر اپنے سر سے پیچھے اچھال دیں اور کسی پہاڑی پر بیٹھ کر اپنی ضروری حاجتوں سے فارغ ہولیں اور یہ کہ اس سے اس کے کردار اخلاق سمیت آپ کی زمین، شہر اور ملک کی تہذیب اور سلامتی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
یقین کریں کسی بھی مہذب قوم کا گورا کبھی یہ حرکت نہیں کرسکے گا اور یہی وہ ناخوشگوار تاثر ہوگا جو وہ ساتھ لے کر جائے گا کیونکہ ساری دنیا ہماری طرح زمین کو مفت کا کچرا گھر نہیں سمجھتی۔ ہم اپنے بچوں کو آج تک مطمئن نہیں کرسکے کہ ایک ذرا سا بے ضرر چیونگم کسی بھی نکڑ پر بغیر کوئی بڑا نقصان کیے پھینکا جاسکتا ہے تو صدیوں سے تعلیم و شعور سے بہرہ ور قومیں آپ کی اس 'ذرا سی غفلت' کو آسانی سے ہضم نہیں کرسکتی۔
ویسے اگر وزیرِاعظم صاحب صرف ایسے مقامات کی صفائی کے لیے ہی نیا عملہ بھرتی کرنا شروع کرلیتے تو سیکڑوں نوکریاں تو ضرور نکل آتیں۔ آخر عرب امارات نے بھی تو صرف صفائی کی مد میں پورے جنوبی ایشیا میں ہزاروں نوکریاں بانٹ رکھی ہیں۔ پاکستان ایک بڑا ملک ہے اور اس میں غربا کی تعداد بھی زیادہ ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ یہاں موجود پُرکیف فطرت کے نظاروں سے بھرپور تمام سیاحتی مقامات کی صفائی کے لیے نئے مؤثر محکمے بنائے جائیں اور عملہ بھرتی کیا جائے۔
آپ نے مری میں ہونے والے لڑائی جھگڑوں کی خبریں سنی ہوں گی کہ کس طرح سیاح اور مقامی لوگ دست و گریباں ہوتے ہیں۔ یہ لڑائی جھگڑے کیسے ہوتے ہیں؟ ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ اوپر پہنچتے ہی کرسی کی خاطر فٹا فٹ چائے پانی کا آرڈر کرنا پڑا۔ بیٹھنے کے لیے ایک نکڑ پر ڈیرہ جما کر، چائے پیتے، کوڑے کے ڈھیروں سے نظر بچا کر اِدھر اُدھر کے خوبصورت نظاروں کو ذرا دیر جی بھر کر دیکھا تو بل دینے کا وقت آگیا۔ میاں کو بل کچھ مشکوک سا لگا۔ ہم ہوتے تو میتھ کمزور ہونے کی وجہ سے جو سنتے چپ کرکے دے دیتے مگر یہ تو میاں صاحب تھے جن کا بنیادی علم ہی میتھ ہے تو جب ذرا جمع تفریق کیا تو پتا چلا خرچے میں اور حاصل جمع میں 100 نہیں، 200 نہیں، پورے 400 روپے کا فرق تھا۔ واپسی پر پھر وہیں بیٹھے، اسی بیرے نے دوبارہ سے اسی چائے کے بل میں پھر اتنا ہی منافع ڈال دیا۔ یعنی اسے اس بات کی بھی فکر نہ تھی کہ ابھی تو میرا جھوٹ پکڑا گیا ہے۔
صرف یہی نہیں گھوڑے زبردستی آپ کے سامنے لائے جاتے ہیں کہ بیٹھیں! اب بچے بھی للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں آپ بھی سوچتے ہیں چلو تھوڑی تفریح ہوجائے گی۔ کرایہ پوچھتے ہیں تو گھوڑے کا مالک اصرار کرتا ہے کہ بیٹھو جی بیٹھو کوئی جہاز کا کرایہ تو ہے نہیں۔ آپ بھی سوچتے ہیں فلاں جگہ 200 کا بچوں نے جھولا لیا تھا چلو ڈبل بھی ہوا تو 400 ہوگا مگر جب ایک کلومیٹر کی سواری کرکے اترتے ہیں تو پتا چلتا ہے 2، 2 ہزار کے تین چار گھوڑے آپ لے بیٹھے ہیں۔
اب آپ کو سمجھ تو آ ہی گیا ہوگا کہ یہ لڑائی جھگڑے کیوں ہوتے ہیں؟ اس لیے اپنی سلامتی اور اپنی حلال کمائی کو محفوظ کرنے کے لیے جو بھی بل آئے خود جمع تفریق کرلیں اور گھوڑے کو تب تک ہاتھ بھی نہ لگائیں جب تک اس کے مالک کے منہ سے اس کا بھاؤ نہ جان لیں ورنہ کہیں اگلے دن کی اخبار میں آپ کی خبر ہی نہ لگ جائے۔
ڈھابوں سے جان چھڑا کر ہم ذرا آگے کی جانب بڑھے۔ بادل ہمارے دائیں بائیں اٹکھیلیاں کر رہے تھے اور ان کی شوخیوں کی وجہ سے ہمیں جولائی کے مہینے میں ٹھنڈک محسوس ہونے لگی تھی۔ اتنی دیر میں آس پاس پھیلی بدلیاں اکٹھی ہونے لگیں اور انہی نرم نرم شفیق بدلیوں نے بارش بن کر ہمیں بگھونا شروع کردیا۔
اب شدت سے ہمیں یاد آیا اپنا وہ بیگ جو ہم گاڑی میں ہی چھوڑ آئے تھے۔ ہم چونکہ سالہا سال سے عرب امارات کے لق دق صحرا میں رہنے کے عادی ہوچکے تھے جہاں بارش صرف کبھی کبھار منہ دکھائی کے لیے ہی آتی تھی اور وہ بھی مزدوریوں کی مجبوریوں کی وجہ سے صرف شیشے کے پیچھے سے ہی دیکھ سکتے تھے اور دو ٹکوں کی نوکری کے لیے لاکھوں کے ساون کو گنواتے ہی رہے، اس لیے اس طرح کے موسم کے لیے ہم کافی غیر ہوچکے تھے، بلکہ عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ڈرتے تھے۔
ہم ان علاقوں کو قدرتی مقامات سمجھتے ہوئے یہ خیال کرتے ہیں کہ یہاں سارے کام انسان کو قدرتی طریقے سے ہی کرنے چاہئیں۔کھلے میں رفع حاجت کرنا، کچرا ساتھ والے کی طرف پھینک دینا ہے، زمین پر بیٹھ جانا ہے، بارش آجائے تو اس کے ساتھ بہہ جانا ہے، آندھی کے ساتھ اُڑ جانا ہے۔ لیکن ہم بہہ جانا نہیں چاہتے تھے چنانچہ ایک ڈھابے کے چھپرے کے نیچے سر چھپانے کی ذرا سی جگہ مل گئی جہاں کھڑے ہوگئے۔ یہ بھی شکر ہوا کہ ہلکی پھلکی بارش تھی کوئی طوفان بادوباراں کا سماں نہ ہوا ورنہ ایسی صورتحال میں کیا ہوسکتا تھا اس کا احوال بھی ضرور سُناتے۔
ہماری سیاحت بس اسی پہاڑی کے گرد دو چار چکروں تک محدود رہی، ہجوم سے پرے جانے کی ہمت نہیں کرپاتے کہ جنگل میں درندوں سے ملاقات کا حوصلہ نہ تھا سو ذرا لوگوں کے قریب قریب ہی رہے، مگر یہ ضرور دیکھا کہ جہاں لوگ نہیں بھی جاتے تھے کچرے کے انبار وہاں بھی تھے۔ بہرحال نیو مری کی سیاحت پر تکمیل کا ٹک لگانے کے لیے واپسی کی راہ لیتے ہوئے چیئر لفٹ پر سوار ہوگئے۔
چیئر لفٹ پر جو نظارہ واپسی کا تھا وہ روانگی پر قطعی نہیں تھا۔ پوری کی پوری وادی بلندی سے انتہائی مسحورکن منظر پیش کر رہی تھے۔ بدقسمتی سے ہم اپنے کیمرے کی تمام چارجنگ اوپر جاتے اور وہاں پھرتے ختم کرچکے تھے ورنہ آپ کو ضرور دکھاتے کہ خدا نے پاکستان کو کیسی کیسی جنتیں نواز رکھی ہیں۔
پتریاٹہ کا وسیع نظارہ سامنے پھیلا تھا اور دیکھنے والے کا اس منظر میں گمشدہ ہوجانے کو دل کرتا تھا۔ اب تھوڑے اعصاب بھی سنبھل چکے تھے تو ہم میں یہ حوصلہ آچکا تھا کہ جی بھر کر اس منظر کو جذب کرسکتے سو جی بھر کر نظارہ کیا، اتنا کہ آس پاس سے گزرتے منچلوں کی آوازیں بھی ہمیں متوجہ کرنے میں ناکام رہیں۔
جب گھر کو لوٹنے لگے تو بھوک شدت اختیار کرچکی تھی اس لیے راستے میں ایک ریسٹورینٹ میں ٹھہرے۔ رم جھم پھر سے شروع ہوچکی تھی اور مناظر بارش کے دھندلکے میں چھپ سے گئے تھے۔
ہم نے دبئی اور ابوظہبی کی عام دھند خوب سہہ رکھی ہے جو گاڑی کے اندر سے ٹھنڈی اور کھڑکی کھول دینے پر گرم لگتی تھی مگر یہ خوبصورت نمدیدہ سی دھند کسی پریوں کی داستان کا حصہ لگتی تھی۔ اسی دھند کے کنارے بیٹھ کر کھانا کھایا اور خدا کی تمام نعمتوں پر اس کا شکر ادا کیا اور یہ دعا کرتے گھر کی راہ لی کہ خدا ہمیں اپنی دی گئی تمام نعمتوں کی حفاظت کے قابل کرے! آمین۔
تصاویر بشکریہ لکھاری
صوفیہ کاشف ادبی مضامین اور افسانے لکھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ آپ ان کے مزید مضامین ان کی ویب سائٹ SofiaLog پر پڑھ سکتے ہیں اور ان کے ولاگ ان کے یوٹیوب چینل SofiaLog. Vlog
پر دیکھ سکتے ہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔