ایف بی آر اور تاجروں کے صدارتی آرڈیننس پر مذاکرات بےنتیجہ ثابت
ٹیکس ریٹرنز فائل نہ کرنے والوں کی یوٹیلٹی سروسز منقطع کرنے کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ٹیکس حکام کو وسیع اختیارات دینے سے متعلق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور تاجروں کے نمائندگان کے درمیان بات چیت بے نتیجہ ثابت ہوئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آل پاکستان انجمن تاجران (اے پی اے ٹی) نے ایف بی آر ہیڈکوارٹرز کے سامنے جاری احتجاج ختم کرتے ہوئے 19 اکتوبر کو فیض آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھیں: ایف بی آر کی یقین دہانی کے بعد چھوٹے تاجروں نے ہڑتال کی کال واپس لے لی
مذاکرات سے قبل میں سیکڑوں تاجر وفاقی دارالحکومت پہنچے اور صدارتی آرڈیننس کے نفاذ کے خلاف ایف بی آر کے ہیڈکوارٹرز کے سامنے احتجاجی دھرنا دیتے ہوئے حکومت سے نئے ٹیکس قوانین ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
ایف بی آر نے اتوار کو تاجروں کے دوسرے دھڑے مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے صدر کاشف چوہدری سے معاہدہ کیا تھا کہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے متعارف کرائے جانے والے ٹیکس کے نئے قوانین نافذ کرنے کے بعد چھوٹے تاجروں کو بجلی، گیس کی فراہمی منقطع اور ان کی موبائل فون سروس بند نہیں کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ٹیکس قوانین کا نفاذ ملک کے لیے خطرناک کیوں؟
تاہم اے پی اے ٹی کے صدر اجمل بلوچ نے معاہدے کو قبول نہیں کیا۔ احتجاج کے دوران اے پی اے ٹی رہنماؤں کے جانب سے تقاریر کے بعد ایف بی آر حکام نے اجمل بلوچ کو ان کے ساتھیوں کے ہمراہ مذاکرات کے لیے مدعو کیا، رات 8 بجے شروع ہونے والے مذاکرات رات گئے تک جاری رہے لیکن کوئی معاہدہ نہ ہو سکا۔
اجمل بلوچ نے ڈان کو بتایا کہ مذاکرات اس وجہ سے بلانتیجہ رہے کہ ایف بی آر حکام کو ہمارے سوالات سننے کا اختیار نہیں ہے۔