اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 لبلبے میں انسولین بنانے والے خلیات کو متاثر کرنے والا مرض ہے جو ان کے افعال کو بدل دیتا ہے، اس سے یہ ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ پہلے صحت مند افراد کورونا وائرس کا شکار ہوکر ذیابیطس کے مریض کیوں بن جاتے ہیں۔
حالیہ مہینوں کے دوران ایسے شواہد سامنے آئے تھے جن میں یہ عندیہ ملا تھا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے کچھ مریضوں میں ذیابیطس ٹائپ 1 اور 2 کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے، حالانکہ ماضی میں ان میں اس بیماری کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔
اس حوالے سے مختلف خیالات سامنے آرہے تھے جن میں ممکنہ وضاحت کی گئی تھی، ایک خیال یہ تھا کہ کورونا وائرس لبلبلے کے خلیات کو اسی ایس ریسیپٹرز کے ذریعے متاثر کرتا ہے جو پھیپھڑوں کے خلیات کی سطح پر بھی پایا جاتا ہے اور اس طرح انسوین بننے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
انسولین وہ ہارمون ہے جو خون میں موجود گلوکوز کی سطح کو ریگولیٹ کرتا ہے، ایک تھیوری یہ تھی کہ وائرس کے خلاف ضرورت سے زیادہ مدافعتی ردعمل سے لبلبے کے خلیات کو نقصان پہنچتا ہے یا جسم میں ورم کے باعث ٹشوز کی انسولین پر ردعمل کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
ان خیالات کی جانچ پڑتال کے لیے وائل کارنیل میڈیسین کے ماہرین نے لیبارٹری میں تیار کردہ متعدد خلیات میں جانچ پڑتال کی کہ ان میں کون کون کووڈ سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
نتائج سے عندیہ ملا کہ پھیپھڑوں، قولون، جگر اور لبلبے کے خلیات اس وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ دماغ کے ڈوپامائن بنانے والے خلیات بھی اس بیماری سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
مزید تجربات سے انکشاف ہوا کہ لبلبے میں موجود انسولین بنانے والے بیٹا خلیات بھی اس بیماری کا ہدف بن سکتے ہیں اور ایک بار متاثر ہونے پر ان خلیات سے انسولین کی مقدار بننے کم ہوجاتی ہے۔
محققین نے بتایا کہ ہم اس کا لائنیج ری پروگرامنگ بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ سیلولر فیٹ بدل جاتی ہے تو وہ انسولین کی بجائے مختلف ہارمونز کا امتزاج تیار کرنے لگتے ہیں، اس دریافت سے کووڈ کے حوالے سے مزید گہرائی میں جاننے کا موقع ملا ہے۔
مگر ابھی یہ واضح نہیں کہ کووڈ سے خلیات میں آنے والی یہ تبدیلیاں طویل المعیاد ہوسکتی ہیں یا نہیں، مگر محققین کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ آئی سی یو میں زیر علاج رہنے والے کچھ کووڈ مریضوں کا بلڈ گلوکوز لیول صحتیابی کے بعد بہت زیادہ غیر مستحکم ہوگیا تھا، جن میں سے کچھ کا گلوکوز کنٹرول ٹھیک ہوگیا، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ تمام مریضوں میں یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے نہیں۔
اس تحقیق کے نتائج یورپین ایسوسی ایشن فار دی اسٹڈی آف ڈائیبیٹس کے سالانہ اجلاس کے دوران پیش کیے گئے۔