کراچی پریس کلب اور ابراہیم جلیس
کراچی پریس کلب کی تاریخی حیثیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ یہ پاکستان کا پہلا پریس کلب ہے۔ یہاں سے ہی صحافتی تحریکوں کا آغاز ہوا۔ اسی پلیٹ فارم سے صحافیوں نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے عملی جدوجہد کی۔
یہ جدوجہد صرف صحافیوں تک محدود نہیں رہی بلکہ سیاسی کارکنوں، ہاریوں اور محنت کشوں نے بھی اس میں بھرپور حصہ لیا۔ اس کے نتیجے میں انہیں نہ صرف پابندِ سلاسل کیا گیا بلکہ جرم کی پاداش میں انہوں نے بے شمار صعوبتیں بھی برداشت کیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ بعض صحافیوں کو کوڑوں کی سزاؤں کے علاوہ مختلف قسم کی جسمانی اذیت بھی بھگتنی پڑی۔ ابراہیم جلیس نامی ایک صحافی ایسے بھی تھے جنہیں ذہنی اذیت کے نتیجے میں جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔
یہ ایک عام مثال ہے کہ قوم اپنے محسنوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔ صحافی برادری اس سے ماورا نہیں کہ انہوں نے بھی کبھی اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کیا۔ تاہم ان کا انداز اور طرزِ انتقام منفرد ہے۔ یہ گولی کا جواب گولی سے نہیں دیتے بلکہ نعروں سے دیتے ہیں، جیسے 'لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی نہیں چلے گی' یا 'ظلم کے ضابطے ہم نہیں مانتے'۔
صحافیوں نے جنونِ عشق کو زندہ رکھنے کے لیے ایک سادہ انداز متعارف کروایا۔ یہ بھی ایک خوب و کمال تھا کہ آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے والے مقتول (ویسے انہیں مرحوم لکھا جاتا ہے) صحافیوں کے نام سے پریس کلب کا کوئی گوشہ منصوب کردیا جائے۔ بات طویل ہو رہی ہے لہٰذا اسے مختصر کرتے ہیں۔
جب تک کراچی پریس کلب کے نئے پریس کانفرنس ہال کا افتتاح نہیں ہوا تھا، اس وقت تک کلب میں ہونے والی تمام پریس کانفرنسوں اور میٹ دی پریس کا انعقاد کراچی پریس کلب کے ابراہیم جلیس ہال میں ہوتا تھا۔ اس ہال میں نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی شخصیات نے بھی تقریبات میں شرکت کی۔ اس کی تفصیل بیان کرنے سے قبل اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ ابراہیم جلیس کون تھے۔
ان کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔ وہ ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ ابراہیم جلیس کی شخصیت کے کئی پہلو تھے۔ وہ بیک وقت ادیب، دانشور اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ محفلوں کی جان بھی تھے۔ مگر ان کی زندگی جہدِ مسلسل کی عملی شکل تھی۔ لطیفے گھڑنے میں انہیں کمال حاصل تھا، وہ ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہتے تھے۔ پاک و ہند کے ایک عظیم دانشور فکر تونسوی ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
'ابراہیم جلیس حیدر آباد کی اس مٹی سے اُگا جو بیک وقت ادب و انقلاب اُگانے کے لیے مشہور تھی۔ جلیس کی شوخی طراری اور شعوری تابناکی جب اس مٹی سے پھوٹی تو اسے انقلابی ادب کے ساتھ لہلہا دیا۔ بعد میں لہلہاٹ اس کا قلم بن گئی۔ حیدرآباد میں جب نظام دکن اپنا خاتمہ بالخیر کر رہا تھا تب ابراہیم جلیس کا قلم ہندوستان کے ستم خوردہ غربا کو باغیانہ راستے دکھا رہا تھا۔ نہ جانے کس ہیجانی جذبے کے تحت اس نے اپنے قلم کا رُخ پاکستان کی طرف موڑ دیا۔ ستم خوردگی وہاں بھی موجود تھی، ابراہیم جلیس کی بے چین روح نے وہاں پر بھی علم بغاوت بلند کردیا۔ علم بغاوت بلند ہوتا گیا، ہوتا گیا اور جلیس اپنے کالم لکھتا گیا، لکھتا گیا۔ غریب عوام اس کے اسلوب اور نڈر سچائی کا ساتھ دیتے گئے، دیتے گئے، اور ستم گر حکمران اس کی تیز راست گوئی سے ڈرتے گئے، ڈرتے گئے۔ لیکن جیسا کہ تاریخ صدیوں سے گواہ ہے حکمرانوں نے سوچا کہ اپنے بڑھتے ڈر کو تہ تیغ کرنا چاہیے، نیام سے تلوار نکال لی تلوار کا پہلا نشانہ ابراہیم جلیس کو بنایا۔ ابراہیم جلیس پر حکومتی خوف نے جارحانہ حملہ کیا اور یہی ابلیسانہ حکمت عملی تھی کہ ابراہیم جلیس مرے گا تو خوف بھی خود بخود مرجائے گا۔ حیدرآباد میں جلیس کا شباب کراچی میں ادھیڑ عمری تک پہنچ گیا تو اسے انقلاب کے بجائے دماغی ہیمرج کی آڑ میں قبرستان کے راستے پر لے جایا گیا مگر اس کا زندہ کالم بدستور زندہ رہے گا کیونکہ انسان کو کاٹا جاسکتا ہے خیالات کو کبھی نہیں کاٹا جاسکتا‘‘۔1؎
ان کے بعض رفقا انہیں غیر سیاسی شخصیت گردانتے تھے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان کی تمام تحریروں اور کتابوں میں سیاست کا رنگ نمایاں ہے۔ وہ آمریت کے خلاف تھے اور ہمیشہ محکوموں مظلموں کو موضوعِ سخن بناتے تھے۔ انہیں اس سے دُور رکھنے کے لیے مراعات کی جانب بھی راغب کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اربابِ اقتدار اپنی ان کوششوں میں ناکام رہے۔
ایوب صاحب اور محترمہ فاطمہ جناح کے الیکشن کے بعد انہوں نے جنگ میں محترمہ فاطمہ جناح پر ایک کالم لکھا جس کی بڑی تعریف ہوئی اور صدر ایوب صاحب نے ان کو کراچی سے پکڑ لیا۔ اس وقت الطاف گوہر سیکریٹری اطلاعات تھے۔ صدر صاحب نے ان کو سخت الفاظ میں کہا کہ تم کو گرفتار کرلوں گا باہر جاؤ اور الطاف سے مل کر میرے پاس آؤ ۔الطاف گوہر نے ان سے کہا کہ تم کو صدر صاحب 10 ہزار روپیہ تنخواہ اور اسلام آباد میں مکان دیں گے تم یہاں ان کی تعریف کے سلسلے میں کالم لکھتے رہو۔ دیکھو جلیس موقعے سے فائدہ اٹھالو مگر یہ راضی نہیں ہوئے۔2؎
انجمنِ ترقی پسند مصنفین کا قیام مشترکہ ہندوستان میں ہوا تھا۔ اس تنظیم میں تمام روشن خیال ادیب دانشور، شاعر بلا کسی رنگ و نسل و مذہب کی تفریق کے شامل تھے۔ یہ برطانوی سامراج کے خلاف ادیبوں کی بغاوت کا آغاز تھا۔ لیکن آزادی کے بعد پاکستان میں چند برسوں بعد انجمن کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ جلیس بھی اس تنظیم کے ایک فعال رکن تھے لہٰذا انہیں بھی حکومتی جبر کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ انجمن ترقی پسند مصنفین تھی جو 1935ء میں قائم ہوئی تھی اور جس پر انگریز نوآبادیاتی حاکموں کو بھی پابندی لگانے کی کبھی جرأت نہ ہوئی مگر آزاد پاکستان میں اسے 1954ء میں سیاسی جماعت قرار دے کر خلافِ قانون قرار دے دیا گیا اور وہی اخبارات و جرائد جو پچھلے دنوں آزادئ اظہار اور آزادی صحافت کا جھنڈا اٹھائے پھرتے تھے، اس غیر جمہوری اقدام کو سراہتے تھے، سبحان اللہ اور واہ واہ کرتے تھے۔
فیض، 'دستِ صبا' اور قاسمی 'دشتِ وفا' کے روپ میں اپنی شعری مجموعے پیش کرتے تھے۔ ابراہیم جلیس 'دو ملک ایک کہانی' اور 'جیل کے دن اور جیل کی راتیں' لکھتا تھا اور میں 'تیسرا آدمی' اور 'خدا کی بستی' تصنیف کرتا تھا مگر عالم یہ تھا کہ فارغ بخاری کا مجموعہ کلام، 'زیرو بم' بم بنانے کا نسخہ قرار دیا جاتا تھا اور انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جاتا تھا۔
کئی ایسے ہی جرم میں ابراہیم جلیس کو بھی پکڑ کر نظربند کردیا گیا۔ ان دنوں جلیس کے بیوی بچے بھی ساتھ تھے۔ بچے بھی بہت چھوٹے تھے اور گھر ایسا تھا کہ اس میں پانی کا نلکا تک نہ تھا۔ بیوی بے چاری بچوں کی دیکھ بھال بھی کرتی اور گلی کے نلکے سے پانی بھر کر بھی لاتی اور جلیس جیل میں بیٹھ کر سوچتا کہ اس کا جرم کیا تھا۔ اس کا جرم حق بات کہنا تھا۔3؎
جلیس جب کراچی آئے تو ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ روزی روزگار کے لیے کیا کریں۔ وہ کثیر اولاد تھے، یہ سب ابھی کمسن تھے۔ گھر کے اخراجات کے لیے بھی رقم کی ضرورت تھی۔ لیکن ان تمام مسائل کے حل کے لیے بنیادی بات یہ تھی کہ وہ ایک شاخِ نازک نہ تھے جو کسی بھی وقت جھک جاتی تھی بلکہ وہ ایک تناور درخت تھے جس کی چھاؤں میں لوگ پناہ لیتے تھے۔ ان کا اپنا انداز تھا جس پر انہوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
کراچی میں وہ بہت دنوں تک فری لانسنگ کرتا رہا۔ اپنے منفرد اسلوب میں طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھنے کی وجہ سے وہاں اسے بڑی مقبولیت حاصل ہوگئی۔ اس غیر سیاسی آدمی کو بھی پولیس نے خطرناک آدمی سمجھا اور کراچی جانے کے ایک ڈیڑھ برس بعد اسے نظر بند کرکے جیل میں ڈال دیا۔ 6 ماہ بعد رہا ہوا تو 'جیل کے دن جیل کی راتیں' کے عنوان سے اس نے ایک خوبصورت کتاب لکھی جو اس زمانے میں بہت مقبول ہوئی۔
اس کی بڑھتی ہوئی شہرت دیکھ کر کراچی سے نکلنے والے شام کے ایک اخبار نے اسے ایڈیٹر بننے کی پیش کش کی جو اس نے فوراً قبول کرلی مگر نہ تو اس وقت تک اسے صحافت کا تجربہ تھا اور نہ ہی اداریہ نویسی کے اسرار و رموز سے آشنا تھا چنانچہ اپنے انداز میں نہایت غیر سنجیدہ اور مزاحیہ اداریے لکھتا رہا جنہیں پڑھ کر پیشہ ور صحافی تو مذاق اڑاتے مگر کراچی کے بعض حلقوں میں یہ اداریے بھی مقبول ہونے لگے۔ اصل میں وہ کراچی کے لوگوں کے مزاج اور پسند سے باخبر تھا اس لیے یہاں اس نے اپنا ایک حلقہ پیدا کرلیا مگر اس کوشش میں وہ کچھ گڑ بڑ کر بیٹھا۔
کشمیر کی سنگین صورتحال اور ہندوستان کی ہٹ دھرمی پر اپنے انداز کا اداریہ لکھتے ہوئے اس نے آخر میں لکھ دیا کہ 'کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ ہندوستان کو مقبوضہ کشمیر پاکستان کے حوالے کردینا چاہیے اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تو پھر کشمیر کے بدلے لتا منگیشکر کو پاکستان کےحوالے کردے'۔ یہ بات مزاحیہ کالم میں تو شاید کھپ جاتی مگر اداریہ ہونے کی وجہ سے اس پر بہت لے دے ہوئی۔ عام قاری نے تو اس اداریے کو بھی جلیس کی مزاحیہ تحریر ہی سمجھا کیونکہ ایسی باتیں وہ اپنے انداز میں کرتا ہی رہتا تھا مگر اب حکومت نے اس کا نوٹس لیا اور اسے اس اخبار کی ادارت سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی۔ 4؎
ابراہیم جلیس پاکستان پیپلز پارٹی کے بہت قریب تھے۔ جام صادق علی کے دور میں (جب وہ وزیرِ بلدیات تھے) انہیں پلاٹ لینے کی پیشکش کی گئی۔ جام صادق علی کی تمام سیاسی چالبازیوں کے علاوہ ان کی ایک بات کو سب ہی ناقدین تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ایک مردم شناس تھے۔ انہوں نے جلیس کو بارہا کہا کہ وہ حکومت کی جانب سے پلاٹ لے لیں، لیکن جلیس نے ان کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ بعدازاں ایک وقت ایسا آیا کہ پیپلز پارٹی نے انہیں مساوات کا ایڈیٹر مقرر کیا لیکن یہ ایڈیٹری ان کی جان لے گئی۔
جلیس نے جب 'مساوات' کی ایڈیٹری سنبھالی تو حالات پُرآشوب ہوچکے تھے۔ انتخابات ہوئے، پھر قومی اتحاد کی مہم چلی اور انجام کار 5 جولائی کو مارشل لا نافذ ہوا۔ جلیس بلڈ پریشر کا مریض تھا۔ دوبارہ دل کا دورہ بھی پڑچکا تھا۔ اس بیماری کے باوجود اس نے جس طرح 'مساوات' چلایا، یہ اسی کا دل گردہ تھا۔ لیکن 'مساوات' ابھی سنبھلا بھی نہ تھا کہ اچانک اس کی اشاعت روک دی گئی۔ یہ سانحہ بھی عجیب سانحہ تھا یعنی جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ وہ پریس جو 'مساوات' کی چھپائی کے لیے لگا تھا 'مساوات' کے لیے شجرِ ممنوعہ قرار پایا۔ اس نے 'مساوات' چھاپنے سے انکار کردیا۔5؎
محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی ان کا بحیثیت ایڈیٹر مساوات خیر مقدم کیا۔ انہوں نے ابراہیم جلیس سے اس سلسلے میں ملاقات بھی کی اور اپنی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔ گمان ہے کہ محترمہ کو یقین تھا کہ آمریت کی تلوار بہت زیادہ عرصے تک ملک پر مسلط نہیں رہے گی۔ ابراہیم جلیس بھی یہ سمجھتے تھے کہ مساوات ایک بار پھر آب و تاب سے شائع ہوگا۔ اس ملاقات کے بعد ابراہیم جلیس نے مساوات کی بحالی کے لیے بارہا حکام سے ملاقاتیں کیں لیکن اس کا نتیجہ صفر نکلا اور اس ضمن میں آخری ملاقات ان کی جان لے گئی۔
ابراہیم جلیس پیپلز فاؤنڈیشن سے 'مساوات' اور اس کے سیکڑوں کارکنوں کو بھوک اور بے روزگاری سے بچانے کا حق بھی حاصل نہ کرسکا۔ وہ حکام کے سامنے پیش ہوتا رہا۔ انہیں اپنا اور اپنے کارکنوں کا دکھ درد سناتا رہا مگر حکام نے جو جواب دیا وہ اس کی تاب نہ لا سکا۔ اس کے دماغ کی شریانیں پھٹ گئیں۔ وہ اس درد کو اپنے سینے میں دبائے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا۔ وہ مرکر امر ہوگیا، مجاہد کی موت ایسی ہی ہوتی ہے مگر مجھے آج کل ایسی باتیں نہیں سوچنی چاہئیں۔ میں بھی دل کا مریض ہوں اور کوڑوں سے ڈرتا ہوں۔ سنا ہے ان سے گردے پھٹ جاتے ہیں، دل فگار ہوجاتا ہے، موت شب خون مارتی ہے اور انسان خاک کا ڈھیر بن جاتا ہے۔ اسی طرح ابراہیم جلیس اپنے بیوی بچوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر دوست احباب سے منہ موڑ کر کنٹری کلب کے قبرستان کے ایک گوشے میں خاک کا ڈھیر بن گیا ہے۔
احباب سے منہ موڑ کر، دنیا سے رشتہ توڑ کر
دور افق کے اس طرف، رنگ شفق کے اس طرف
اک وادئ خاموش کی، اک عالمِ بے ہوش کی
گہرائیوں میں سو گیا۔ تاریکیوں میں کھو گیا 6؎
ابراہیم جلیس نے ایک بھرپور زندگی گزاری اور ان کے صاحبزادے شہریار جلیس نے ان کی شخصیت پر شائع ہونے والے مضامین اور ان کی تحریروں کو یکجا کرکے کتابی صورت میں شائع کیا۔
عصرِ حاضر میں پریس کلب میں ممبران کی تعداد سیکڑوں میں ہے لیکن ماسوائے چند سینئر صحافیوں کے بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ جس ابراہیم جلیس ہال میں وہ بیٹھتے ہیں آخر یہ ابراہیم جلیس تھے کون۔
حوالہ جات
- نقوی ڈاکٹر جمال، جلیس شہریار، (مرتب) ابراہیم جلیس 'انسان اور قلمکار'، ادارہ تزئین دانش، کراچی، 2013ء، ص: 78
- نقوی ڈاکٹر جمال، جلیس شہریار، (مرتب) ابراہیم جلیس 'انسان اور قلمکار'، ادارہ تزئین دانش، کراچی، 2013ء، ص: 130
- شہریار پروفیسر مہ جبین، جلیس طیبہ، جلیس شاہنواز (مرتب) 'حرف زندہبیاد جلیس'، زین پبلی کیشنز، کراچی،2007ء، ص: 29، 30
- اختر حمید، آشنائیاں کیا کیا (شخصی خاکے) اٹلانٹس پبلی کینشز، کراچی،2020ء، ص: 188
- مہ جبین پروفیسر، شہریار، جلیس طیبہ، جلیس شاہنواز (مرتب) 'حرف زندہبیاد جلیس'، زین پبلی کیشنز، کراچی، 2007ء، ص: 32، 33
- مہ جبین پروفیسر، شہریار، جلیس طیبہ، جلیس شاہنواز (مرتب) 'حرف زندہبیاد جلیس'، زین پبلی کیشنز، کراچی، 2007ء، ص: 32، 33
اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔