واجد شمس الحسن کی یاد میں
نہ جانے وہ کون لکھاری ہوتے ہیں جو اپنے عزیز بلکہ عزیز از جاں دوستوں، عزیزوں کے بارے میں اوبیچوئری کھینچ بیٹھتے ہیں۔ دراصل اس خبر کا انتظار تو ادھر چند مہینے سے تھا کیونکہ ان کے بیٹے ذوالفقار یہ اطلاع دے چکے تھے کہ ڈاکٹروں نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ مگر پھر بھی دل کو تسلی دے بیٹھتا کہ واجد شمس الحسن، جو ہم سب کے واجد بھائی تھے، جلد ٹھیک ہوجائیں گے، لیکن یہ نہیں سوچا تھا کہ ان کی سناونی اتنی جلد آجائے گی اور پھر وہ برداشت کرنے کے بعد قلم بھی اٹھا سکوں گا۔
یادوں کا ایک ہجوم ہے۔ واجد بھائی سے ہمارے خاندانی مراسم تھے جو بعد میں ان سے ذاتی قریبی تعلق میں تبدیل ہوگئے۔ واجد بھائی کے والد سید شمس الحسن مسلم لیگ کے سیکریٹری خزانہ اور قائدِاعظم کے قریبی رفیق تھے۔ قائدِاعظم نے اپنے انتقال سے پہلے انہیں اپنے ذاتی مسودے اور نوادرات دیے تھے جو انہوں نے بعد میں قائدِاعظم میوزیم کو دے دیے۔
سید شمس الحسن، جنہیں چاچا شمس الحسن کہا جاتا تھا، ہمارے گھر اکثر آتے۔ مگر بچپن کی یاد میں محفوظ ان کی ایک جھلک ہی یاد آتی ہے کہ سفید کرتے پاجامے میں سفید داڑھی پر پان کی سرخ پیک بہہ رہی ہوتی تھی۔ یونیورسٹی سے کچی پکی ڈگری لے کر جب صحافت میں قدم رکھا اور پریس کلب میں آنا جانا ہوا تو جرأت نہ ہوتی کہ واجد بھائی کے پاس سے بھی گزر جائیں جو ایک وسیع ٹیبل پر بیٹھے ایک ہاتھ میں سگار اور دوسرے میں کافی کی چُسکیاں لے رہے ہوتے۔
دائیں بائیں اکثر بلکہ بیشتر اقبال جعفری، جاوید بخاری، علامہ تنویر، نظام صدیقی بیٹھے ہوتے۔ کسی کونے میں جگہ بناکر جب ہم لوازمات کے ساتھ چائے پی چکے ہوتے اور ستار بیرے سے یہ کہتے کہ بل لاؤ تو کہتا کہ بل تو نواب صاحب نے دے دیا۔ اور ہماری ہی کیا، اردگرد کی جتنی بھی ٹیبلیں ہوتیں ان پر موجود تمام کے بل واجد صاحب ہی دیا کرتے۔
یہ معاملہ صرف پریس کلب تک محدود نہ تھا۔ جب ہماری یافت بڑھی اور ہوٹل میریٹ میں ہفتہ ایک میں چائے پینے جاتے اور دوسری میز پر واجد صاحب بیٹھے ہوتے تو بل طلب کرنے پر ویٹر یہ کہتا کہ وہ جو صاحب سفید کپڑوں میں مونچھوں والے ہیں، وہ بل دے چکے ہیں۔
ایک دن ہم نے جب خاصا بھاری بھرکم کھانا کھایا تو اس سے پہلے کہ واجد صاحب بل ادا کرتے ان کے پاس گیا اور کہا واجد بھائی اب تو ہم اسکرین پر آواز لگاتے ہیں اور تنخواہ بھی خاصی ہے لہٰذا ہم اپنا بل خود ادا کریں گے۔ کہنے لگے، یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ہماری روایت ہے کہ جہاں بیٹھے ہوں اور جتنا بھی بل آئے وہ سینئر ہی دے گا۔ ہم نے کہا واجد بھائی پھر آپ تو ہمیشہ سینئر ہی رہیں گے اور ہم جونیئر۔
ہماری اس بات پر واجد بھائی نے عجیب دلچسپ پیرائے میں ایسا جملہ کہا جو اتنے برس بعد بھی ذہن میں محفوظ ہے کہ جب آپ جونیئر کے ساتھ بیٹھیں تو بھلے جیب میں پیسے نہ ہوں، ویٹر سے لے کر بھی بل آپ ہی دیں۔
اس کے بعد اکثر ایسا ہوتا بھی۔ یہ تو واجد بھائی کی نوابانہ شخصیت کا ایک دل آویز پہلو تھا۔ واجد شمس الحسن نے کراچی یونیورسٹی کے بعد انگریزی اخبار ڈان سے اپنی صحافت کا آغاز کیا۔ پھر اس زمانے میں جب غالباً ڈیلی نیوز نکلنا شروع ہوا تو اس میں شمولیت اختیار کرلی اور پھر پاکستان کے سب سے کم عمر ایڈیٹر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
جنگ گروپ اس وقت ایوب خان کے زیرِ عتاب تھا اور ایک حد تک اسے قبول بھی کرچکا تھا۔ مگر واجد صاحب ایوب خان کے خلاف کسی نہ کسی طرح شہ سرخی بناتے رہتے۔ اسی دوران ان کا پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو سے صحافیانہ تعلق قائم ہوا جو بعد میں قریبی دوستی کی شکل اختیار کرگیا۔
بھٹو صاحب کا یہ معمول تھا کہ جب کراچی میں ہوتے تو چند صحافیوں کو گپ شپ کے لیے بلا لیتے جن میں واجد بھائی بھی ہوا کرتے۔
بھٹو صاحب اکثر واجد بھائی کو چھیڑتے کہ تم کیسے صحافی ہو۔ پیتے نہیں، کیا مذہبی مسئلہ ہے؟ واجد بھائی نے ہمیں بتایا کہ میں نے بھٹو صاحب سے کہا کہ کبھی زندگی میں چکھی ہی نہیں، اس پر بھٹو صاحب نے کہا کہ اچھا کافی پیو اور اس کے ساتھ سگار ضرور پیا کرو بڑا مزہ دے گا۔ اس پر میں نے بھٹو صاحب سے کہا کہ جتنی میری تنخواہ ہے اس کا تو یہ سگار ہوگا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ جب تک میں زندہ ہوں تمہیں ہر مہینے سگار کا ڈبہ ملتا رہے گا۔
واجد صاحب کہتے تھے کہ بھٹو صاحب کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو بھی مجھے یہ سگار بھیجتی رہیں۔ پارٹی کے اجلاسوں حتیٰ کہ کابینہ میٹنگز میں بھی واجد بھائی کو سگار پینے کی اجازت تھی۔ محترمہ کہتیں جب آپ سگار پیتے ہیں تو مجھے بابا کی خوشبو آتی ہے۔
بھٹو صاحب جب اقتدار میں آئے اور پہلی بار جب ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پہلا سوال یہ کیا کہ واجد تم نے میرا بُرے وقت میں ساتھ دیا بتاؤ کیا عہدہ چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ میں اس عمر میں ایک انگریزی اخبار کا ایڈیٹر ہوں، 5 بڑے بھائی ہیں، اللہ نے بہت کچھ دیا ہے۔ اس پر بھٹو صاحب نے کھڑے ہو کر گلے لگاتے ہوئے کہا تم پہلے شخص ہو جس نے کچھ نہیں مانگا۔
بھٹو صاحب کے بعد واجد بھائی کا محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی تعلق ان کی شہادت تک جاری رہا۔ جہاں تک ان کے ہائی کمشنر بننے کا تعلق ہے تو میں ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، محترمہ سے وہ بار بار کہہ رہے تھے میں کراچی شہر میں رہنا چاہتا ہوں اور اپنا میڈیا ہاؤس بنانا چاہتا ہوں تاکہ آپ کی پارٹی اور آپ کے لیے کچھ کرسکوں۔ مگر واجد صاحب کو محترمہ نے راضی کرلیا اور وہ لندن ہائی کمشنر بن کر چلے گئے۔ ہمارا بھی اچھا زمانہ تھا۔
دو ایک مہینے میں لندن جانا ہوتا تو سیدھے ہائی کمیشن جاتے۔ بڑے پیار سے کہتے مصروفیات تم دیکھ رہے ہو، بٹوے سے چند سو پاؤنڈ نکال کر کوٹ کی جیب میں ٹھونستے ہوئے کہتے میں نے مشتاق لاشاری کو بلا لیا ہے وہ تمہارے ساتھ رہے گا، جب پاؤنڈ ختم ہوجائیں تو پھر آجانا۔ یہ سلسلہ برسہا برس جاری رہا۔ مشرف دور میں ان کی گرفتاری اور پھر جیل میں شدید سختیوں اور پھر رہائی کے بعد جلاوطنی کے دنوں کو آئندہ کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔
آخری ملاقات کورونا سے پہلے فروری 2019ء میں ہوئی۔ بیماری غالب آچکی تھی چلنا پھرنا مشکل تھا مگر پھر بھی بیرسٹر قادری کے گھر میلوں کا سفر طے کرکے آئے۔ دوستوں کا ایک جمگھٹا تھا، ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا کہ واجد بھائی اتنے بیمار ہوں۔ اب خیال آتا ہے کہ واجد بھائی دوستوں اور ان کی محفلوں کے آدمی تھے۔ صحافت اور سیاست اوڑھنا بچھونا تھی۔
کورونا کے دنوں میں جب شب و روز تنہائی میں گزرنے لگے تو واجد صاحب جیسے مجلسی اور محفلی شخص کی زندگی کا چراغ ٹمٹمانے لگا۔
ایک بات پر بہرحال مجھے ہمیشہ فخر رہے گا کہ میں نے عزیزی رشید جمال کے ساتھ ان کا ایک قرض اتارا۔ جی ہاں 'بھٹو خاندان میری یادوں میں' ابھی اسی سال شائع ہوئی جس نے انہیں شدید بیماری میں بے پناہ خوشی دی۔ یہاں تک پہنچا ہی تھا کہ ان کے زندگی بھر کے ساتھی اور دوست بیرسٹر صبغت قادری کی جذبات سے مغلوب کال نے قلم کو روک دیا ہے۔
بیگانۂ غم کیا تمہیں افسوس نہ ہوگا
مرجائیں گے ہم کیا تمہیں افسوس نہ ہوگا
مجاہد بریلوی ’جالب جالب‘، ’فسانہ رقم کریں‘ اور ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں پاکستان کے پہلے نجی چینل پر مجاہد آن لائن نامی پروگرام کی میزبانی کی اور پھر 8 سال تک سی این بی سی پر پروگرام ’دوسرا پہلو‘ کی میزبانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈان نیوز ٹی وی پر ’سوال سے آگے‘ کی میزبانی بھی وہ کرچکے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔