’چڑیلز‘ کے بولڈ کردار پر سب سے زیادہ تنقید شوبز والوں نے کی، حنا خواجہ
'شہر ذات، متاع جان ہے تو، زندگی گلزار ہے، اڑان، بشر مومن، صنم اور کتنی گرہنیں باقی ہیں' جیسے ڈراموں کی اداکارہ حنا خواجہ بیات کا کہنا ہے کہ وقت آ چکا ہے کہ اب ڈراموں میں ادھیڑ عمر کی خواتین کے کرداروں کو مرکزی اور مضبوط کرداروں کے طور پر دکھایا جائے۔
درجنوں ڈراموں میں مظلوم بیوی، ماں، آپا اور زائد العمر کی خاتون کے کردار ادا کرنے والی حنا خواجہ بیات کے مطابق آج کل کے ڈراموں میں صرف لڑکے اور لڑکی کے رومانس اور ان کے مرکزی کرداروں پر ڈرامے بنائے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے کہانیاں یکسانیت کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔
’ڈان آئیکون‘ میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں حنا خواجہ بیات نے حالیہ ڈراموں اور ٹی وی انڈسٹری پر بات کی۔
اداکارہ کے مطابق آج کل اکثر ڈراموں کی مرکزی کہانیاں نو عمر لڑکے اور لڑکیوں کے گرد گھومتی ہیں، انہیں ہی مرکزی کرداروں میں دکھایا جاتا ہے، انہیں رومانوی انداز میں دکھایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ڈرامے یکسانیت کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔
ان کے مطابق ڈراموں میں گزرتی عمر کے ساتھ مضبوط ہوتی خواتین کو مرکزی کرداروں میں دکھایا جانا چاہیے، کیوں کہ 30 سے 40 سال کی عمر کی خواتین وقت کے حساب سے نہ صرف سمجھدار بلکہ خود مختار اور طاقتور بھی ہوتی ہیں۔
ان کہنا تھا کہ ڈراموں میں ادھیڑ عمر کی خواتین کے مرکزی کرداروں کو دکھائے جانے سے ازخود ڈراموں کی کہانیاں تبدیل ہوجائیں گی۔
یہ بھی پڑھیں: حنا خواجہ بیات کا بھانجی کی شادی پر 'ڈولا رے' پر رقص
انہوں نے سوال کیا کہ اگر ڈرامے میں ’بہو‘ کو مرکزی کردار میں دکھایا جا سکتا ہے تو ایک ’ساس‘ کو مرکزی روپ میں کیوں نہیں دکھایا جا سکتا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ آج کل کے ڈراما لکھاری ٹی وی مالکان کی فرمائش پر تقریباً ایک جیسے ہی ڈرامے لکھ رہے ہیں جب کہ چینل مالکان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات کی وجہ سے ایک ہی طرح کی کہانیوں کو دکھانے پر مجبور ہیں۔
حنا خواجہ بیات کے مطابق ملٹی نیشنل کمپنیاں ٹی وی مالکان کو روایتی اور ایک جیسے ہی موضوعات پر ڈرامے بنانے اور انہیں چلانے کی شرط پر ہی اشتہارات دیتی ہیں۔
انٹرویو کے دوران سینئر اداکارہ نے بتایا کہ انہوں نے انڈسٹریل ڈیزائن کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور ان کا اداکاری یا میزبان کی دنیا میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر وہ اتفاقی طور پر شوبز میں آگئیں۔
حنا خواجہ بیات کے مطابق اپنی تعلیمی منصوبے کے سلسلے میں انہیں ایک ٹاک شو کا انعقاد کرنا تھا، جس کی تیاری کے بعد وہ فوری طور پر میزبانی کی دنیا میں آگئیں اور ’جیو حنا بیات کے ساتھ‘ نامی پروگرام کرنے کے کچھ عرصے بعد انہیں اداکاری کی پیش کش ہوئی۔
اداکارہ نے بتایا کہ ایک کے بعد ایک ڈرامے میں اچھے کرداروں کی پیش کش ہونے کے بعد انہوں نے میزبانی چھوڑ کر مکمل طور پر اداکاری کرنا شروع کی اور انہیں فخر ہے کہ انہوں نے اب تک تمام بہترین اور جاندار کردار ادا کیے۔
انہوں نے ویب سیریز ’چڑیلز‘ میں اپنے بولڈ کردار پر بھی بات کی اور اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے ’شیری‘ نامی کردار کا انتخاب کیا تھا۔
اداکارہ نے بتایا کہ ’چڑیلز‘ کے ہدایت کار عاصم عباسی نے انہیں تین کرداروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا کہا تھا، جس میں سے انہوں نے ’شیری‘ نامی ملازمت پیشہ خاتون کا کردار منتخب کیا۔
حنا خواجہ بیات کے مطابق انہوں نے مذکورہ کردار اس لیے منتخب کیا، کیوں کہ ایسے کردار ہمارے سماج میں بہت زیادہ ہیں۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ ہمارے سماج کی بہت ساری خواتین کو زندگی کی آسائشیں یا مراعات دستیاب نہیں ہیں اور وہ ان کو حاصل کرنے کے لیے ’شیری‘ کی طرح قربانیاں دیتی رہی ہیں۔
حنا خواجہ بیات کے مطابق ’شیری‘ کا کردار ادا کرنے پر انہیں سب سے زیادہ شوبز شخصیات نے تنقید کا نشانہ بنایا جب کہ عام افراد نے بھی ان پر تنقید کی مگر ایسی تنقید کی وجہ سے ہی ’چڑیلز‘ کامیاب ہوئی۔
’چڑیلز‘ میں حنا خواجہ بیات نے ’شیری‘ نامی خاتون کا کردار ادا کیا تھا جو ویب سیریز ایک سین میں نوجوان خاتون کو کہتی ہیں کہ انہوں نے ملازمت حاصل کرنے اور عہدے تک پہنچنے کے لیے خود سے زائد العمر مرد باسز کی جنسی خواہشات پوری کیں۔
اداکارہ کے مذکورہ ڈائیلاگ پر کافی تنقید بھی کی گئی تھی اور ان کے سین کو ویب سیریز سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا, بعد ازاں ’چڑیلز‘ کو نشر کرنے والی بھارتی اسٹریمنگ ویب سائٹ ’زی فائیو‘ پر پاکستان میں عارضی پابندی بھی لگائی گئی تھی۔
حنا خواجہ بیات نے انٹرویو میں ’چڑیلز‘ کی کامیابی پر کہا کہ آنے والا وقت ڈراموں کا نہیں بلکہ ویب سیریز کا ہے، کیوں کہ ان میں مواد دکھانے کی کوئی پابندی نہیں اور نئی نسل سینسرشپ سے آزاد مواد دیکھنے کی خواہاں ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اب تک وہ ’چڑیلز‘ اور ’ایک جھوٹی لو اسٹوری‘ جیسی ویب سیریز میں کام کر چکی ہیں لیکن جلد ہی وہ مزید تین ویب سیریز میں دکھائی دیں گی۔