نقطہ نظر

کھارو چھان: قصہ سمندر کے ہاتھوں لُٹ جانے والی بستیوں کا

کبھی دریائے سندھ کا میٹھا پانی مقامیوں کے لیے خوشیوں کے سندیسے لاتا تھا اور زمینیں کاشت کاروں کو ان کی محنت کا صلہ دیتی تھیں۔

کناروں تک لبالب بھرے دریا کا سکون درہم برہم کرتی موٹربوٹ پانی کو بانٹنے کی ناکام کوشش کرتی رواں دواں تھی۔ انجن کا شور لہروں کی مدھر آہٹ نگل رہا تھا۔ میں نے پانی میں ہاتھ ڈالا اور چلو بھر کر پیا۔ ہلکی سی کڑواہٹ بتا گئی کہ دریا کی لہروں میں سمندر کے پانی کی ملاوٹ ہوچکی ہے۔ یہ معمولی سی ترشی اس بہت بڑے المیے کی کہانی سناتی ہے جس نے 'کھارو چھان' کی زندگی میں یوں تلخی گھولی کہ سب کچھ بدل کر رہ گیا۔

کھارو چھان دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں واقع جزیرہ نما علاقہ ہے۔ درجنوں دیہات پر مشتمل کھارو چھان انتظامی طور پر یونین کونسل ہے، جہاں برسوں پہلے زندگی ٹھہر گئی تھی اور اب سمٹتی جارہی ہے۔ جس طرح بستیوں کو آسیب اجاڑ دیتے ہیں، اسی طرح ان بستیوں کو سمندر کا کھارا پانی رفتہ رفتہ مٹا رہا ہے۔

کبھی دریائے سندھ کا میٹھا پانی یہاں کے باسیوں کے لیے لہر در لہر خوشیاں اور جیون کے سندیسے لاتا تھا۔ ڈیلٹا کے علاقے میں بسے ہوئے یہ لوگ سمندر میں دریا کے گرنے سے پہلے پہلے محبت اور مہربانیوں کی کتنی ہی سوغاتیں وصول کرتے تھے۔ دریا کا پانی ان کی زمینوں کو سیراب کرتا تھا اور پھر زمینیں مختلف فصلوں کی صورت میں کاشت کاروں کو ان کی محنت کا صلہ دیتی تھیں۔

مویشیوں کے لیے چارہ وافر مقدار میں دستیاب تھا، جس کے باعث گائے، بکری اور بھینس کا دودھ، گھی اور مکھن فراوانی سے میسر تھے۔ ہرے بھرے کھیتوں اور باغوں کے بیچ اپنی آخری منزل کی طرف بڑے وقار اور بہت سکون سے گامزن دریا نظر آتا۔ یہ فرحت بخش مناظر ہر دیکھنے والے کی نظر شاداب کردیتے تھے۔

پھر کچھ ماحولیاتی تبدیلیوں اور کچھ پانی کی فراہمی کے معاملے میں زیادتیوں نے رنگ دکھایا۔ دریا کا پانی کم ہوتا گیا، خشکی بڑھنے اور تری سمٹنے لگی۔ اس سے بھی بڑھ کر قیامت یہ ہوئی کہ اپنی فطرت اور قدرت کے اصولوں کے مطابق اگر دریا سمندر سے منہ پھیر لے تو سمندر آگے بڑھ کر اس کی گزرگاہ اور اردگرد کی زمینوں کو نگلنے لگتا ہے۔ یہی کچھ سمندر کھارو چھان اور دریائے سندھ کے ڈیلٹا کی دیگر زمینوں کے ساتھ بھی کر رہا ہے۔

سمندر کا کھارا پانی کھارو چھان کی زمینوں کو اجاڑ چکا ہے۔ اب یہ زمینیں بنجر ہوکر کوئی فصل اگانے کے قابل نہیں رہی ہیں۔ ان سے ہریالی روٹھ چکی ہے، جہاں کبھی نظر لہلہاتی فصلوں اور جھومتی شاخوں میں الجھ کر اپنا سفر روک دیتی ہوگی، آج وہاں دھوپ کی تپش میں تانبا بنی سپاٹ زمین پر نگاہ جانے کتنی ہی دُور تک مسافت کرسکتی ہے، یوں جیسے تپتی زمین پر گھسیٹتی جھلستی چلی جارہی ہو۔ بس آبادی سے فاصلے پر جھاڑیوں کا جنگل ہے، جسے سبزہ کہہ کر دل کو تسلی دی جاسکتی ہے۔

سمندر کی پیش قدمی سے پہلے یہ علاقہ کیسا سرسبز ہوگا اس کا اندازہ دریا کے کناروں پر اگے پیڑوں، پودوں اور جھاڑیوں سے ہوتا ہے۔ دریا کے ساتھ گامزن یہ سبزے کی لہر ساحل آنے سے پہلے ٹھہر جاتی ہے۔ میں اپنے ہم سفروں کے ہمراہ ڈانڈو جیٹی سے کشتی میں سوار ہوکر ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد جس ساحل پر اترا وہ دیہہ مصری جت تھا، جہاں پہنچتے ہی دل میں آنے والا پہلا خیال تھا کوئی ویرانی سے ویرانی ہے! لیکن تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد جب آبادی میں پہنچے تو سلیقے سے بنی خوبصورت جھونپڑیوں، صاف ستھری گلیوں اور غربت کے باوجود اُجلے کپڑوں میں ملبوس لوگوں کو دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ جھونپڑے دیکھ کر لگتا تھا جیسے کسی فلم کے لیے سیٹ سجایا گیا ہے۔

چھپر کے نیچے بندھی بھینسیں، جھونپڑیاں اور ان پر لٹکتے رنگ برنگے کپڑے، جو دھونے کے بعد سوکھنے کے لیے پھیلائے گئے تھے، یہ مناظر بتارہے تھے کہ یہ گاؤں ہے، مگر اس ماحول و مناظر سے عاری تھا جو کسی گاؤں کو گاؤں بناتے ہیں، مطلب یہ کہ وہاں نہ کھیت کھلیان تھے، نہ درخت، نہ پودے۔

کھارو چھان کی زمینوں کی شادابی اور یہاں کے مکینوں کا روزگار تباہ کرنے میں 3 عوامل کارفرما رہے ہیں، جن میں سے پہلے کا ذکر اس تحریر میں ہوچکا ہے، یعنی سمندر کا بڑھتے چلے آنا۔ سمندر کی اس یلغار کا سبب مختلف بیراج ہیں، جن کے بننے کے بعد نشیب کی طرف چھوڑے جانے والے پانی میں کمی آتی گئی اور ایک عرصے تک تو پانی چھوڑا ہی نہیں گیا۔ اس سال بھی صرف 15 دن پانی چھوڑا گیا۔ دریا کا پانی نہ آنے کی وجہ سے خشک ہوتی کھاڑیوں میں سمندری پانی آنے لگا، یوں زمینیں سمندر برد ہونے لگیں اور علاقے کی زراعت مکمل طور پر ختم ہوگئی۔

مقامی لوگوں کے افلاس کا دوسرا سبب یہاں گنجائش سے زیادہ ماہی گیری ہے۔ غیر مقامی اور غیر ملکی ماہی گیروں نے اس افراط سے مچھلیاں پکڑیں کہ مقامی ماہی گیروں کے لیے کچھ نہ بچا۔ باہر سے آنے والے ماہی گیر یہاں غیر قانونی جال استعمال کرتے ہیں، جو اپنی ساخت کے باعث ایک ساتھ مچھلیوں کی بہت بڑی تعداد پکڑ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان جالوں میں نوزائدہ مچھلیاں بھی پھنس جاتی ہیں، یوں مچھلیوں کی افزائش نسل کو نقصان پہنچتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مقامی افراد اپنے واحد ذریعہ معاش سے بھی اتنی آمدنی حاصل نہیں کرسکتے کہ بنیادی ضروریات ہی پوری کرلیں۔

کھارو چھان کے باسی آپ کو ایسی کوئی شکایت کرتے نہیں ملیں گے کہ اسکول میں بینچیں نہیں، ہسپتال میں دوائیں نہیں، سیوریج کا پانی گلیوں میں کھڑا ہوجاتا ہے، نلکوں میں آلودہ پانی آرہا ہے کیونکہ وہاں نہ کوئی اسکول ہے، نہ ہسپتال، نہ سیوریج سسٹم، اور نہ پینے کے پانی کی فراہمی کا انتظام!

سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تعاون سے کھارو چھان کے گاؤں آتھر میں ایک نجی اسکول قائم ہے اور صحت کی سہولت کے نام پر ایک سرکاری ڈسپنسری ہے، جس میں ڈاکٹر نہیں۔ چنانچہ اس علاقے میں خواندگی کا تناسب صفر ہے۔ بیماری یا زچگی کی صورت میں لوگ ڈھائی 3 گھنٹے کا سفر کرکے قریب ترین شہروں کا رخ کرتے ہیں۔

یہاں کسی گھر میں بیت الخلا نہیں، اس ضرورت کے لیے لوگ دیہات سے پرے اُگی جھاڑیوں کی راہ لیتے ہیں۔ پینے اور کھانا پکانے کے لیے مقامی باشندوں نے تالاب بنا رکھے ہیں، جب دریا کے نشیب کی طرف پانی چھوڑا جاتا ہے تو وہ میٹھے پانی سے یہ تالاب بھر لیتے ہیں اور پھر مہینوں اس سے گزارہ کرتے رہتے ہیں۔ نہانے دھونے کے لیے انہیں کھارے پانی پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یہ تالاب بھی خشک ہوجائیں تو وہ کشتیوں میں بیٹھ کر شہروں کی طرف جاتے ہیں اور وہاں سے پانی ڈرموں میں بھر کر لاتے ہیں۔ ان کے لیے پانی کی ایک ایک بوند نہایت قیمتی ہے، جسے انہوں نے اپنی غربت کے باوجود بھاری رقم دے کر خریدا ہوتا ہے، سو پانی کا ایک قطرہ بھی ضائع نہیں کرتے۔

اسی طرح دیگر ضروری اشیا کے حصول کے لیے بھی انہیں گھنٹوں پر مشتمل طویل سفر کرنا پڑتا ہے۔ آلودہ پانی پینے کی وجہ سے یہاں کے باسیوں میں ہیپاٹائٹس سی، پیٹ کی بیماریاں اور خارش کا عارضہ عام ہیں۔

کھارو چھان کے رہنے والوں کو کچھ ملے نہ ملے 'گٹکا' وافر مقدار میں میسر ہے۔ مرد، عورت، بوڑھے، نوجوان یہاں تک کے بچے بھی گٹکا کھانے کی لت کا بُری طرح شکار ہیں۔

'روزانہ گٹکے کی کتنی پڑیاں کھا جاتے ہو؟'، میں نے ایک 15، 16 سال کے لڑکے سے پوچھا، جس کے دانتوں کی سفیدی گٹکے کے کتھئی رنگ کے پیچھے معدوم ہوچکی تھی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا '10'۔ یہاں کے لوگ سندھی کے علاوہ کوئی زبان نہیں جانتے، میری ٹوٹی پھوٹی سندھی اس موقعے پر میرے بڑے کام آئی۔ اسی لڑکے نے بتایا کہ ’گٹکے کی ایک پڑیا 20 روپے کی ملتی ہے اور یوں وہ روز 200 روپے کا گٹکا کھا جاتا ہے‘۔

ہمیں اس علاقے کا دورہ کروانے والی این جی او ڈبلیو ڈبیلو ایف (ورلڈ وائلڈ فنڈ فار نیچر World Wide Fund for Nature) کے سینئر کنزرویشن افسر ونود کمار نے بتایا، 'گٹکا ان کے لیے وٹامن کا کام کرتا ہے۔ جب یہ مچھلیاں پکڑنے 13، 14 دن کے لیے جاتے ہیں تو ان کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ ہو نہ ہو گٹکے کی درجنوں پڑیاں ضرور ہوتی ہیں'۔

ونود کمار نے یہ بھی بتایا کہ مقامی لوگ گٹکے کو ’چورو‘ کہتے ہیں۔ 'جب 6 یا 8 ماہ کی عمر کو پہنچ جانے والا بچہ روتا ہے تو اس کے منہ میں چورا (گٹکا) ڈال دیتے ہیں'۔ ونود کمار کا یہ انکشاف میرے لیے حیرت انگیز بھی تھا اور خوفناک بھی۔ یقیناً یہ بے رنگ زندگی کی اکتاہٹ اور یکساں روز و شب کی بیزاری ہے جس نے ان دیہات کے بسنے والوں کو اس نشے کا عادی بنادیا ہے۔

پاکستان اور دنیا سے کٹے ہوئے اس علاقے میں ایک دو موبائل کمپنیوں ہی کے کمزور سگنل آتے ہیں۔ ٹی وی یہاں کسی گھر میں نہیں، بس کچھ ریڈیو سیٹ اپنے مالکان کی تفریح اور دنیا سے جُڑے رہنے کا واحد ذریعہ ہیں۔

تہذیب اور تعلیم کے گہواروں سے بہت دُور زندگی بسر کرتے یہ لوگ اپنے رویوں میں نہایت شائستہ اور مہذب دکھائی دیے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ دورے پر جانے والے مرد ان کےگاؤں میں داخل ہوں، لیکن ہمیں روکنے کے لیے انہوں نے کسی ناشائستگی، برہمی اور سختی کا ذرا بھی مظاہرہ نہیں کیا۔ 'وہ، اُدھر اوطاق میں جائیں'، وہ جھونپڑیوں کی طرف بڑھنے والوں کو مسکراتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے مخالف سمت روانہ کرتے رہے۔ ان کے کپڑوں سے بوسیدگی ظاہر تھی، لیکن صفائی اس سے کہیں زیادہ نمایاں تھی۔ پسماندہ بستیوں کی عام روش کے برعکس ایک بھی چھوٹی عمر کا بچہ بے لباس نہیں تھا، صفائی ستھرائی ان کے چہروں سے بھی جھلک رہی تھی۔ یہ سب دیکھ کر مجھ پر یہ حقیقت مزید واضح ہوگئی کہ صفائی اور شائستگی تعلیم سے زیادہ تربیت اور روایات کی دین ہیں۔

کھارو چھان میں حکومت کا تو کوئی نام و نشان نہیں ملتا مگر یہاں ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کچھ ادارے موجود ہیں۔ ایک نجی ادارے نے یہاں ایک مخصوص گھاس لگائی ہے جو جانوروں کے چارے کے کام آتی ہے۔ یہ گھاس کھارے پانی میں اُگنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ گھاس کھانے والے مویشیوں کے دودھ کی مقدار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس گھاس کی وجہ سے مقامی آبادی کا سمندر کی راہ میں رکاوٹ بنے مینگروز پر انحصار بہت کم ہوگیا ہے۔

اس کے علاوہ مقامی باشندوں کے معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے یہاں تالاب بناکر ان میں کیکڑوں کی افزائش کا انتظام بھی کیا گیا ہے اور گھریلو سطح پر مرغیاں پالنے کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔ ماہی گیروں کی کشتیوں میں مچھلیوں کو زیادہ دیر تک خراب ہونے سے محفوظ رکھنے کے لیے انہیں آئس باکس بھی فراہم کیے گئے ہیں اور فائبر کی ٹنکیاں دی گئی ہیں۔ ساتھ ان دیہات میں گھریلو سطح پر شمسی توانائی کا نظام بھی نصب کیا گیا ہے اور میٹھے پانی تک رسائی کے لیے واٹر کورس تعمیر کیا گیا ہے۔

کھارو چھان سے واپسی پر میں سوچ رہا تھا کاش پاکستان سے کٹے ہوئے اور دنیا سے دُور بسے ان پاکستانیوں سے میں کچھ سوال پوچھتا تو جانے کیا جواب ملتے جیسے اسکول کیا ہوتا ہے، ہسپتال کیا ہوتا ہے، کمپیوٹر کیا ہے، انٹرنیٹ کس بلا کا نام ہے، اور سب سے اہم سوال یہ کہ حکومت کسے کہتے ہیں؟

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔