پاکستان

حکومتِ سندھ نے اسکول ڈیسک کی خریداری کا 'متنازع' کنٹریکٹ منسوخ کردیا

معاملے میں بےضابطگیوں کی نشاندہی کے لیے بنائی گئی کمیٹی کی تجاویز پر ٹینڈر منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا، رپورٹ

حکومت سندھ نے سرکاری اسکولوں کے لیے ہوش ربا قیمت پر ڈیسکوں کی خریداری کے لیے جاری کردہ 3 ارب روپے کے ٹینڈر کو منسوخ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق معاملے میں بےضابطگیوں کی نشاندہی کے لیے بنائی گئی کمیٹی کی تجاویز پر یہ فیصلہ کیا گیا۔

صوبائی وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے کہا کہ محکمہ جاتی کمیٹی نے اس ’متنازع‘ کنٹریکٹ کو منسوخ کرنے کی تجویز دی تھی جس کا نوٹیفکیشن پیر کے روز جاری کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:سندھ میں اسکول ڈیسکوں کی خریداری میں 3 ارب روپے کی کرپشن کا الزام

انہوں نے مزید بتایا کہ محکمہ جاتی کمیٹی کی سفارش کے مطابق اب فرنیچر کی خریداری ڈویژنل سطح پر کی جائے گی۔

خیال رہے کہ یہ اسکول بینچز کی خریداری کا تیسرا ٹینڈر تھا جو منسوخ کیا گیا۔

معاملہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اٹھایا

انتہائی بلند قیمت پر اسکول ڈیسک کی خریداری کا معاملہ سب سے پہلے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے اٹھایا تھا جسے سندھ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ منظرِ عام پر لائے تھے۔

حلیم عادل شیخ نے الزام لگایا تھا کہ صوبائی حکومت اسکول ڈیسک 29 ہزار روپے سے زائد میں خرید رہی ہے جبکہ یہ اوپن مارکیٹ میں صرف 5000 روپے میں دستیاب ہے۔

مذکورہ تنازع میں ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب سابق صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ فرنیچر کی خریداری کی منظور وزیراعلیٰ سندھ نے دی تھی جن کے پاس اس وقت وزارت تعلیم کا پورٹ فولیو تھا۔

مزید پڑھیں: آڈٹ رپورٹ میں حکومتِ سندھ پر 9 ارب روپے سے زائد کے ‘فراڈ’ کا الزام عائد

بعدازاں سندھ اسمبلی کے اجلاس میں وضاحت دیتے ہوئے وزیر اطلاعات نے اسکولوں کے لیے زائد قیمتوں پر ڈیسک خریدنے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ صوبے میں سرکاری اسکولوں کے لیے فرنیچر کی خریداری کا سارا عمل ایک مرکزی پروکیورمنٹ کمیٹی نے شروع کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس مقصد کے لیے بنائی گئی مرکزی پروکیورمنٹ کمیٹی نے قومی احتساب بیورو، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، سندھ ہائی کورٹ اور صوبائی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سے کہا کہ وہ اپنے نمائندے کو اس عمل کا حصہ بنانے کے لیے نامزد کریں۔

سابق صوبائی وزیر تعلیم نے کہا تھا کہ سرکاری اسکولوں کا فرنیچر گزشتہ آٹھ سالوں سے نہیں خریدا گیا تھا اور سال 2018 میں اس مقصد کے لیے مرکزی خریداری کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

منظور شدہ بولی کا دفاع کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا تھا کہ شیشم لکڑی کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے اور تخمینہ زائد قیمت پر اس لیے رکھا گیا تاکہ عمل درآمد کے دوران کسی بھی قسم کے مسائل سے بچا جا سکے۔

تاہم ذرائع نے بتایا کہ اسکول کے فرنیچر کی خریداری میں وزیراعلیٰ کا کوئی کردار نہیں ہے، انہوں نے 8 سال پہلے صرف ایک سمری کی منظوری دی تھی جبکہ ٹینڈر کی کارروائیں محکمہ تعلیم کے عہدیداروں نے انجام دی۔

ڈویژنل سطح پر فرنیچر کی خریداری کا فیصلہ

ذرائع نے بتایا کہ صوبائی وزیر تعلیم سردار شاہ نے سیکریٹری تعلیم کی سربراہی میں ایک محکمہ جاتی کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے اس ٹینڈر کی منسوخی کی تجویز دی۔

یہ بھی پڑھیں:'سندھ میں 50 فیصد نادرا کا اسٹاف کرپشن میں ملوث پایا گیا ہے'

انہوں نے بتایا کہ محکمہ تعلیم نے اب ڈویژنل سطح پر اسکولوں کا فرنیچر خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس مقصد کے لیے صوبے کے متعدد ڈویژنز کے لیے 6 ڈویژنل کمیٹیاں بنائی جائیں گی جن کا نوٹیفکیشن جلد جاری کیا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ڈویژنل سطح پر فرنیچر کی خریداری سے ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات کی بچت ہوگی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کنٹریکٹ کے ایوارڈ میں بے ضابطگیوں کا پتا لگانے کے لیے بنائی گئی کمیٹی نے خریداری سے قبل اسکول ڈیسک کی قیمتوں کا جائزہ لینے کی سفارش کی تھی۔

گوادر خود کش دھماکے میں ملوث 3 ملزمان گرفتار

جوڑے کو ہراساں کرنے کا کیس، 'ملزمان نے لڑکی کو برہنہ ڈانس نہ کرنے پر گینگ ریپ کی دھمکی دی'

کابل سے تازہ پھلوں کی درآمدات پر سیلز ٹیکس ختم کردیا گیا