طالبان سے معاملات میں صبر سے کام لیں، شاہ محمود
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس کے موقع پر دیگر ممالک کے عہدیداروں سے ہونے والی ملاقاتوں میں افغانستان کے ساتھ معاشی اور سیاسی رابطے جاری رکھنے، خطے میں امن اور استحکام کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل جیسے امور پر بات چیت کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ساتھ اپنی ملاقات میں بھی اس پیغام کو دہرایا اور عالمی ادارے کے سربراہ کو بتایا کہ جنگ زدہ افغانستان میں انسانی بحران سے بچنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔
اس ملاقات میں شاہ محمود قریشی نے ’کئی دہائیوں سے جاری تنازع کو ختم کرنے کے لیے افغانستان کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی رابطوں کو جاری رکھنے پر بھی زور دیا‘۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا نے افغانستان کے معاملے میں پاکستان کی سنی ہوتی تو نتائج برعکس ہوتے، وزیر خارجہ
انہوں نے سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ کو مقبوضہ کشمیر میں ’انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال‘ پر ایک ڈوزیئر فراہم کیا جس میں ’انسانی حقوق کی سنگین، منظم اور وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں، جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں نسل کشی کے ثبوت موجود تھے‘۔
مزید برآں جیسا کہ پاکستان ہمیشہ کرتا ہے، وزیر خارجہ نے بھی اس اُمید کا اظہار کیا کہ اقوام متحدہ اس بات کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے گی کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ ’اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق اپنے حق خود ارادیت کو استعمال کرنے میں کامیاب ہوں‘۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں نئے مستقل اراکین کو شامل کرنے کی کچھ اقوام کی کوشش پر بھی اقوام متحدہ کے سربراہ کے ساتھ شاہ محمود قریشی کی ملاقات میں نمایاں طور پر بات ہوئی۔
مزید پڑھیں: وزیر خارجہ شاہ محمود کی پہلی مرتبہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ سے ملاقات
انہوں نے اتفاق رائے سے اصلاحات کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کو دہرایا اور کہا کہ رکن ممالک کو ضروری وقت اور جگہ دی جانی چاہیے تاکہ سب کے لیے قابل قبول حل تیار کیا جا سکے۔
مغرب میں اسلامو فوبیا کی بڑھتی ہوئی لہر، ویکسین کی عدم مساوات ختم کرنا اور ترقی پذیر ممالک کو وبائی امراض اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی بحران کے لیے مناسب مالی امداد کو یقینی بنانا وہ دیگر مسائل تھے جنہیں وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے سربراہ اور دیگر افراد کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں اجاگر کیا۔
تاہم اقوام متحدہ میں وزیر خارجہ کی مصروفیات پر غالب مسئلہ افغانستان تھا، یہ زور اتنا واضح تھا کہ کچھ امریکی ذرائع ابلاغ نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ وہ کابل کے نئے حکمرانوں کا ترجمان ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کی جلدی نہیں ہے، شاہ محمود قریشی
البتہ وزیر خارجہ نے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو دیکھنا ہے کہ افغانستان میں کیا ہوتا ہے، صرف اس لیے نہیں کہ 'افغانستان ہمارا قریبی پڑوسی' ہے بلکہ اس لیے بھی کہ 'وہاں جو بھی ہوتا ہے اس کا براہ راست اثر ہم پر پڑتا ہے'۔
دوسری جانب امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان بھی افغانستان میں ایک جامع حکومت چاہتا ہے لیکن جانتا تھا کہ مجوزہ تبدیلی کے لیے صبر آزما رویہ درکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ انٹونی بلنکن سے ملاقات میں انہوں نے واشنگٹن کو مشورہ دیا کہ وہ رابطہ رکھیں، قائل رہیں اور طالبان سے معاملات میں صبر کا مظاہرہ کریں۔