افغان عوام کی خاطر طالبان حکومت کو مضبوط اور مستحکم کیا جائے، وزیر اعظم
وزیراعظم عمران خان نے دنیا کو افغانستان میں منڈلاتے ہوئے بڑے انسانی بحران سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر مستحکم، افراتفری کا شکار افغانستان ایک بار پھر دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن سکتا ہے لہٰذا آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ افغانستان کے عوام کی خاطر موجودہ افغان حکومت کو مضبوط اور مستحکم کیا جائے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی 'اے پی پی' کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں وزیر اعظم نے افغانستان کی صورتحال، تنازع کشمیر، اسلاموفوبیا، بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز، بدعنوانی کے مضمرات، کووڈ 19 وبا کے اثرات سمیت متعدد موضوعات پر تفصیلی اظہار خیال کیا۔
'افغانستان کی موجودہ صورتحال کیلئے پاکستان پر الزام لگایا گیا'
وزیر اعظم نے افغانستان کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کے لیے کسی وجہ سے امریکا میں سیاستدانوں اور یورپ کے بعض سیاستدانوں نے پاکستان کو ان واقعات کے لیے مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس پلیٹ فارم سے میں ان سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں جب ہم شامل ہوئے تو افغانستان کے علاوہ جس ملک نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا وہ پاکستان ہے۔
وزیراعظم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے جانی و مالی نقصان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 80 ہزار پاکستانی جاں بحق ہوئے ہیں، ہماری معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، 35 لاکھ پاکستانی عارضی طور پر بے گھر ہوئے اور ایسا کیوں ہوا؟ 1980 کے عشرے میں پاکستان، افغانستان پر قبضے کے خلاف لڑائی میں صف اول کا ملک تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا نے افغانستان کی آزادی کے لیے مجاہدین گروپوں کو لڑنے کے لیے تربیت دی، ان مجاہدین گروپوں میں القاعدہ اور دنیا بھر سے مختلف گروپس شامل تھے، وہ مجاہدین تھے، افغان مجاہدین، ان کو ہیرو تصور کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان امن کے لیے امریکا کے شراکت دار ہوسکتے ہیں، عمران خان
انہوں نے یاد دلایا کہ صدر رونالڈ ریگن نے 1983 میں انہیں وائٹ ہاس میں مدعو کیا اور ایک خبر کے مطابق انہوں نے ان کا امریکا کے بانیان کے ساتھ تقابل کیا۔
عمران خان نے کہا کہ 1989 میں سوویت یونین چلا گیا اور اسی طرح امریکا نے بھی کیا اور افغانستان کو چھوڑ دیا گیا، پاکستان کو 50 لاکھ افغان مہاجرین کے ساتھ چھوڑ دیا گیا۔ ہمیں فرقہ ورانہ مسلح گروہوں کے ساتھ چھوڑ دیا گیا جن کا اس سے پہلے کبھی وجود نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ لیکن بدترین وقت وہ تھا جب ایک سال بعد پاکستان پر امریکا نے پابندیاں لگا دیں، ایسا محسوس ہوا کہ ہمیں استعمال کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے فوری بعد امریکا کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت پیش آئی کیونکہ اب امریکا کی قیادت میں اتحاد، افغانستان پر حملہ آور ہو رہا تھا اور یہ پاکستان کی لاجسٹک سپورٹ کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
اس کے بعد کیا ہوا؟ وہی مجاہدین جنہیں ہم نے تربیت دی تھی کہ غیر ملکی قبضے کے خلاف جنگ میں ہمارے خلاف ہو گئے، ہمیں شراکت دار کہا جانے لگا اور انہوں نے ہمارے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کی سرحد سے ملحقہ قبائلی پٹی پاکستان جو نیم خود مختار قبائلی پٹی ہے جہاں ہماری آزادی کے بعد سے کوئی پاکستانی فوج وہاں نہیں رہی تھی، وہاں کے لوگوں کی افغان طالبان کے ساتھ شدید ہمدردیاں تھیں جو ان کے مذہبی نظریے کی وجہ سے نہیں بلکہ پختون قومیت کی وجہ سے تھیں جو کہ بہت مضبوط ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت بھی 30 لاکھ افغان پناہ گزین کیمپوں میں مقیم ہیں جو تمام پختون ہیں، 5 لاکھ افغان پناہ گزین بڑے کیمپ میں رہائش پذیر ہیں جبکہ ایک لاکھ کیمپس ہیں، ان سب کی افغان طالبان سے وابستگی اور ہمدردی تھی لہٰذا کیا ہوا؟ وہ بھی پاکستان کے خلاف ہو گئے اور پہلی مرتبہ پاکستان میں مسلح طالبان سامنے آئے اور انہوں نے بھی حکومت پاکستان پر حملے کیے۔
'پاکستان میں امریکا نے 480 ڈرون حملے کیے'
ان کا کہنا تھا کہ ہماری فوج تاریخ میں پہلی بار قبائلی علاقوں میں گئی اور جب بھی کوئی فوج سویلین علاقوں میں جاتی ہے وہاں ضمنی نقصان ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں بھی ضمنی نقصان اٹھانا پڑا جس کی وجہ سے شدت پسند بدلہ لینے پر اتر آئے لیکن صرف اتنا ہی نہیں ہوا۔
عمران خان نے کہا کہ دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان میں امریکا نے 480 ڈرون حملے کیے اور ہم سب جانتے ہیں کہ ڈرون حملے اتنے زیادہ عین مطابق نہیں ہوتے اور ہدف بنائے جانے والے شدت پسندوں کے مقابلے میں زیادہ ضمنی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لہٰذا ایسے لوگ جن کے رشتہ دار جاں بحق ہو جاتے وہ پاکستان سے بدلہ لینا چاہتے، 2004 سے 2014 کے دوران 50 مختلف مسلح گروہ ریاست پاکستان پر حملہ آور ہو رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک موقع پر ہمارے جیسے لوگ پریشان تھے کہ کیا ہم اس صورتحال سے نکل پائیں گے؟ پاکستان بھر میں بم دھماکے ہو رہے تھے اور ہمارا دارالحکومت ایک قلعے کی طرح تھا، اگر دنیا کی سب سے منظم فوج اور دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیوں میں سے ایک خفیہ ایجنسی نہ ہوتی تو میرے خیال میں پاکستان بہت نیچے چلا جاتا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ امریکا میں ترجمانوں اور ہر اس شخص کے بارے میں جس نے بھی امریکا کی مدد کی ہے، کی حفاظت کے بارے میں بہت پریشانی پائی جاتی ہے، ہمارے بارے میں کیا خیال ہے؟ ہمارے بہت زیادہ نقصان اٹھانے کی واحد وجہ یہ تھی کہ ہم افغانستان کی جنگ میں امریکا کے اتحاد کا حصہ بن گئے۔
انہوں نے کہا کہ افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے ہو رہے تھے، کم از کم تحسین کا ایک لفظ تو ادا کیا جانا چاہیے تھا لیکن تحسین کے بجائے الزامات لگائے گئے، تصور کریں ہمیں کیسا محسوس ہوتا ہے جب افغانستان میں پیش رفت پر ہمیں موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2006 کے بعد افغانستان اور اس کی تاریخ کو سمجھنے والے ہر شخص پر واضح ہو گیا تھا کہ افغانستان میں کوئی فوجی حل نہیں ہو گا، میں امریکا گیا، میں نے تھنک ٹینک سے بات کی، میں نے اس وقت کے سینیٹر بائیڈن، سینیٹر جان کیری، سینیٹر ہیری ریڈ سے ملاقات کی۔
عمران خان نے کہا کہ میں نے ان پر واضح کرنے کی کوشش کی کہ اس کا کوئی فوجی حل نہیں ہوگا اور سیاسی تصفیہ ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے لیکن اس وقت کوئی نہیں سمجھا اور بدقسمتی سے فوجی حل مسلط کرنے کی کوشش جہاں امریکا سے غلطی ہوئی اور اگر آج دنیا کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ طالبان واپس اقتدار میں کیوں آئے ہیں، انہیں یہ کرنا ہے کہ اس کا گہرائی سے تجزیہ کرنا چاہیے کہ 3 لاکھ اسلحے سے لیس افغان فوج نے لڑائی کے بغیر ہتھیارکیوں ڈالے اور یاد رکھیں کہ افغان، دنیا کی بہادر اقوام میں سے ایک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کا عمیق تجزیہ ہونے پر دنیا جان جائے گی کہ طالبان دوبارہ اقتدار میں کیوں آئے اور یہ پاکستان کی وجہ سے نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: زیادہ حقیقت پسند بنیں، وزیر خارجہ نے افغان طالبان کو تسلیم کرنے کا روڈ میپ دے دیا
'غیر مستحکم، افراتفری کا شکار افغانستان پھر دہشت گردوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا'
ان کا کہنا تھا کہ اب پوری عالمی برادری کو سوچنا چاہیے کہ آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے، دو راستے ہیں جو ہم اختیار کر سکتے ہیں، اگر ہم ابھی افغانستان کو نظرانداز کر دیتے ہیں تو اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کے نصف لوگ پہلے ہی انتہائی غریب ہیں اور اگلے سال تک افغانستان میں تقریباً 90 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے، وہاں پر ایک بڑا انسانی بحران منڈلا رہا ہے اور اس کے نہ صرف افغانستان کے پڑوسیوں بلکہ ہر جگہ سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔
عمران خان نے کہا کہ ایک غیر مستحکم، افراتفری کا شکار افغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا اور اسی وجہ سے امریکا، افغانستان آیا تھا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ ہے، ہمیں افغانستان کے عوام کی خاطر موجودہ حکومت کو مضبوط اور مستحکم کرنا چاہیے۔
انہوں نے طالبان کے وعدوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کریں گے، ان کی ایک جامع حکومت ہوگی، وہ اپنی سرزمین دہشت گردوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور انہوں نے عام معافی دی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اگر عالمی برادری انہیں مراعات دیتی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تو اس سے ہر ایک کے لیے یکساں طور پر مفید صورتحال ہوگی، کیونکہ یہ وہ چار شرائط ہیں جن کے بارے میں دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر دنیا انہیں اس سمت میں جانے کے لیے ترغیب دیتی ہے تو افغانستان میں اتحادی افواج کی 20 سالہ موجودگی بہرحال رائیگاں نہیں جائے گی کیونکہ بین الاقوامی دہشت گردوں کی طرف سے افغان سرزمین استعمال نہیں کی جائے گی۔
عمران خان نے اس امر پر زور دیا کہ یہ افغانستان کے لیے ایک نازک وقت ہے، وقت ضائع نہیں کر سکتے، وہاں مدد کی ضرورت ہے، وہاں انسانی امداد فوری طور پر دی جانی چاہیے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے جرأت مندانہ اقدامات اٹھائے ہیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے صدر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ بین الاقوامی برادری کو متحرک کریں اور اس سمت میں آگے بڑھیں۔
'پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی خلاف ورزیوں پر ڈوزیئر جاری کیا'
وزیراعظم نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے 5 اگست 2019 سے مقبوضہ وادی میں متعدد غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات اٹھائے، اس نے 9 لاکھ قابض افواج کے ذریعے دہشت کی فضا قائم کی ہوئی ہے، کشمیریوں کی سینئر قیادت کو پابند سلاسل رکھا ہوا ہے، میڈیا اور انٹرنیٹ پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں، پرامن احتجاج کو پرتشدد طریقے سے دبایا گیا، 13 ہزار نوجوان کشمیریوں کو اغوا کیا گیا اور ان میں سے سیکڑوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، جعلی مقابلوں میں سیکڑوں بے گناہ کشمیریوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا اور پورے پورے محلوں اور دیہات کو تباہ کرکے لوگوں کو اجتماعی سزائیں دی گئیں۔
انہوں نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ ہم نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں کے بارے میں ایک تفصیلی ڈوزیئر جاری کیا ہے، غیر قانونی کوششوں کے ذریعے جابرانہ ہتھکنڈوں کا مقصد مقبوضہ وادی میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا اور مسلمان اکثریت کو مسلمان اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارتی اقدامات جموں و کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہیں، قراردادوں میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ متنازع علاقے کی حتمی حیثیت کا فیصلہ اقوام متحدہ کے تحت آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے اس کے لوگوں کو کرنا چاہیے۔
عمران خان نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے اقدامات چوتھے جنیوا کنونشن سمیت بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانیت سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی ہیں اور جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے ’مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جنگی جرائم’ کا ڈوزیئر جاری کردیا
'انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دنیا کے نقطہ نظر میں یکساں برتاؤ کا فقدان ہے'
انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں دنیا کے نقطہ نظر میں یکساں برتاؤ کا فقدان ہے اور حتیٰ کہ یہ چنیدہ ہے، جغرافیائی و سیاسی عوامل یا کاروباری مفادات، تجارتی مفادات اکثر بڑی طاقتوں کو اپنے 'وابستہ' ممالک کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے دوہرے معیارات بھارت کے معاملے میں سب سے زیادہ واضح اور نمایاں ہیں، جہاں پر آر ایس ایس ۔ بی جے پی حکومت کو تمام تر آزادی کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اجازت دی جارہی ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ بھارتی بربریت کی تازہ ترین مثال عظیم کشمیری رہنما سیّد علی شاہ گیلانی کے جسد خاکی کو ان کے خاندان سے زبردستی چھیننا اور ان کی وصیت اور اسلامی روایت کے مطابق نماز جنازہ کی ادائیگی اور تدفین سے محروم کرنا ہے۔
'پاکستان، بھارت کے درمیان ایک اور تصادم کو روکنا ضروری ہے'
انہوں نے کہا کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ بھی تمام ہمسایہ ممالک کی طرح امن چاہتا ہے لیکن جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا انحصار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق جموں و کشمیر کے تنازع کے حل پر منحصر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال فروری میں ہم نے کنٹرول لائن پر 2003 کی جنگ بندی کی مفاہمت کا اعادہ کیا، امید تھی کہ یہ نئی دہلی میں حکمت عملی پر نظرثانی کا باعث ہوگی لیکن افسوس بی جے پی حکومت نے کشمیر میں ظالمانہ ہتھکنڈے تیز کر دیے اور ان وحشیانہ کارروائیوں سے ماحول کو خراب کر رہی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ بامعنی اور نتیجہ خیز رابطے کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے اور اس کے لیے اسے یہ اقدامات کرنا ہوں گے کہ 5 اگست 2019 سے کیے گئے اپنے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات واپس لے، کشمیری عوام کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے، مقبوضہ وادی میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے اقدامات کو روکے اور واپس لے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اور تصادم کو روکنا بھی ضروری ہے، بھارت کی فوجی طاقت میں اضافہ، جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور غیر مستحکم کرنے والی روایتی صلاحیتوں کا حصول دونوں ممالک کے درمیان باہمی ڈیٹرنس کو سبوتاژ کر سکتا ہے۔
سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ اسلاموفوبیا میں اضافہ روکنے کیلئے عالمی مکالمے کا اہتمام کریں'
وزیراعظم نے اسلامو فوبیا کے خطرناک رجحان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلاموفوبیا ایک اور ضرر رساں مظہر ہے جس کی ہم سب کو مل کر روک تھام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد دہشت گردی کو بعض حلقوں کی طرف سے اسلام کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے، اس سے دائیں بازو، زینو فوبک اور پرتشدد قومیت پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گرد گروپوں کے مسلمانوں کو ہدف بنانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ، عالمی انسداد دہشت گردی حکمت عملی نے ان ابھرتے ہوئے خطرات کو تسلیم کیا ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ سیکریٹری جنرل کی رپورٹ میں اسلاموفوبیا اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں سے درپیش دہشت گردی کے ان نئے خطرات پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
عمران خان نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل پر زور دیا کہ وہ اسلاموفوبیا میں اضافے کو روکنے کے بارے میں عالمی مکالمے کا اہتمام کریں، اس کے ساتھ ساتھ ہماری متوازی کوششیں بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ہونی چاہئیں اور یہ جاری رہنی چاہئیں۔
مزید پڑھیں: اسلاموفوبیا کے خلاف ہمارا مؤقف غیر متزلزل ہے، وزیر اعظم
'اسلاموفوبیا کی انتہائی بدترین شکل بھارت میں راج ہے'
انہوں نے کہا کہ اسلاموفوبیا کی انتہائی بدترین اور نہایت سرایت پذیر شکل کا اس وقت بھارت میں راج ہے، نفرت سے بھرپور ہندوتوا نظریے نے، جس کا پرچار فاشسٹ آر ایس ایس۔بی جے پی حکومت نے کیا ہے، بھارت کی 20 کروڑ مضبوط مسلم برادری میں خوف اور تشدد کی لہر پیدا کی ہوئی ہے، گائے کے نام نہاد رکھوالوں کے جتھوں کے ذریعے لوگوں کو تشدد کر کے مارنے، اقلیتوں پر حملہ کرنے کے اکثر واقعات سامنے آتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت سے مسلمانوں کو نکالنے کے لیے امتیازی شہریت قوانین، بھارت بھر میں مساجد کو منہدم کرنے کی مہم اور مسلمانوں کے ورثے اور تاریخ کو مٹانے جیسے اقدامات اس مجرمانہ سرگرمی کا حصہ ہیں۔
'لوٹ مار کی وجہ سے امیر، غریب ممالک کے درمیان فرق بڑھ رہا ہے'
وزیراعظم عمران خان نے بدعنوانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ترقی پذیر دنیا میں ان کے کرپٹ حکمران اشرافیہ کی جانب سے لوٹ مار کی وجہ سے امیر اور غریب ممالک کے درمیان فرق خطرناک رفتار سے بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے اس پلیٹ فارم کے ذریعے دنیا کی توجہ ترقی پذیر ممالک سے ناجائز سرمائے کے بہاؤ کی لعنت کی طرف مبذول کرائے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مالیاتی احتساب، شفافیت اور سالمیت (ایف اے سی ٹی آئی) کے بارے میں سیکریٹری جنرل کے اعلیٰ سطح کے پینل نے تخمینہ لگایا ہے کہ 7 ٹریلین ڈالر کے چوری شدہ اثاثہ جات مالیاتی 'محفوظ ٹھکانوں' میں جمع ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ منظم چوری اور اثاثہ جات کی غیر قانونی منتقلی ترقی پذیر اقوام پر گہرے منفی اثرات کی حامل ہے، یہ ان کے پہلے سے محدود وسائل کو ختم کرتی ہے، غربت کی سطح کو مزید گھمبیر بناتی ہے بالخصوص منی لانڈرنگ، کرنسی پر دباؤ ڈالتی ہے اور اس کی قدر میں کمی کا باعث بنتی ہے۔
عمران خان نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو ایسٹ انڈیا کمپنی نے انڈیا کے ساتھ کیا وہ شاطر حکمران اشرافیہ، ترقی پذیر دنیا کے ساتھ کر رہی ہے یعنی دولت کو لوٹ کر مغربی دارالحکومتوں اور آف شور ٹیکس ہیونز میں منتقل کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ بعید نہیں، ایک وقت آئے گا جب امیر ممالک، ان غریب ممالک سے معاشی تارکین وطن کو روکنے کے لیے دیواریں کھڑی کرنے پر مجبور ہوں گے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ جنرل اسمبلی کو اس انتہائی پریشان کن اور اخلاقی طور پر ناگوار صورتحال کے تدارک کے لیے بامقصد اقدامات اٹھانے چاہئیں، ایسی 'پناہ گاہوں' کو نادم کرنا اور ایک ناجائز مالیاتی بہاؤ کو روکنے اور بازیافت کے لیے جامع قانونی فریم ورک وضع کرنا اس سنگین اقتصادی ناانصافی کو روکنے کے لیے نہایت اہم اقدامات ہیں۔
یہ بھی دیکھیں: سن 2200 کے امیر اور غریب کیسے ہوں گے؟
'موسمیاتی تبدیلی کرہ ارض کے وجود کو لاحق خطرات میں سے ایک ہے'
عمران خان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی آج ہمارے کرہ ارض کے وجود کو لاحق خطرات میں سے ایک ہے، پاکستان کا عالمی سطح پر مضر گیسوں کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، پھر بھی ہم دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے 10 انتہائی زد پذیر ممالک میں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اپنی عالمی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ رہتے ہوئے ہم کایاپلٹ ماحولیاتی پروگرامز، 10 ارب ٹری سونامی کے ذریعے پاکستان میں دوبارہ جنگلات اگانے، قومی ماحول کے تحفظ، قابل تجدیر توانائی کی طرف رجوع کرنے، اپنے شہروں سے آلودگی ختم کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے موافقت کے راستے پر گامزن ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا وبا، اقتصادی مندی اور موسمیاتی ایمرجنسی کے سہ جہتی بحران سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمیں ایک جامع حکمت عملی درکار ہے جو تین امور پر محیط ہونی چاہیے، ویکسین میں مساوات ہو، ہر ایک کو، ہر جگہ کووڈ کے خلاف جتنی جلدی ممکن ہو سکے ویکسین فراہم کی جانی چاہیے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو مناسب سرمایہ دستیاب ہونا چاہیے، یہ قرضوں کی جامع ری اسٹرکچرنگ، توسیع شدہ او ڈی اے، استعمال شدہ ایس ڈی آرز کی تقسیم نو اور ایس ڈی آرز کا وسیع تر حصہ ترقی پذیر ممالک کو مختص کرنے اور کلائمیٹ فنانس کی فراہمی کے ذریعے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں واضح سرمایہ کاری کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے جو تخفیف غربت میں معاون ہوں، روزگار کو فروغ دیں، پائیدار بنیادی ڈھانچہ کو تشکیل دیں اور بلاشبہ ڈیجیٹل تقسیم کے خلا کو دور کریں۔ انہوں نے تجویز دی کہ سیکریٹری جنرل پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) کے جائزے اور تیز تر عملدرآمد کے لیے 2025 میں ایس ڈی جی سمٹ طلب کریں۔