پاکستان کا افغان کابینہ میں توسیع کا خیر مقدم
پاکستان نے افغان کابینہ میں توسیع کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے 'مثبت قدم' قرار دیا ہے اور طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ جنگ زدہ ملک میں استحکام کے لیے ایسے مزید اقدام اٹھائیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار کا کہنا تھا کہ 'ہم نے مختلف نسلی اور سیاسی گروپوں کے نمائندوں کو شامل کرکے عبوری حکومت کی کابینہ میں توسیع کو نوٹ کیا ہے، یہ مثبت سمت ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں کہ وہ ملک میں دیرپا استحکام کے لیے اقدامات اٹھاتے رہیں گے'۔
طالبان نے رواں ہفتے کے آغاز میں متعدد نائب وزرا کو شامل کرکے کابینہ میں توسیع کی تھی، ان میں سے چند کا تعلق ہزارہ جیسی نسلی اقلیتوں سے ہے لیکن عبوری کابینہ میں شامل کیے گئے نئے نائب وزرا میں سے متعدد سخت گیر ہیں۔
مزید براں کابینہ میں اس مرتبہ بھی کسی خاتون کو شامل نہیں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں طالبان کی نئی عبوری حکومت جامع نہیں، یورپی یونین
عالمی برادری، کئی مرتبہ افغانستان میں جامع حکومت کا مطالبہ کر چکی ہے اور اس نے نئی حکومت کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو مطالبے کی تکمیل سے جوڑا ہے۔
طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے عالمی ترقیاتی امداد روکی جاچکی ہے، افغانستان روایتی طور پر عالمی امداد پر بڑی حد تک انحصار کرتا ہے، لہٰذا امداد کی عدم فراہمی کی وجہ سے معاشی بحران کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے یاد دہانی کروائی کہ پاکستان، افغانستان میں معاشی اور انسانی بحران سے بچنے کے لیے عالمی برادری سے مسلسل تعمیری رابطہ قائم کرنے اور انسانی امداد بحال کرنے کا مطالبہ کررہا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ 'افغانستان میں امن و استحکام کو یقینی بنانا عالمی برادری کی مشترکہ ذمہ داری ہے'۔
عاصم افتخار کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغانستان کے عبوری حکام سے مسلسل رابطے میں ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کو طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کی جلدی نہیں ہے، شاہ محمود قریشی
انہوں یہ یاد دہانی بھی کروائی کہ چین، روس اور پاکستان کے خصوصی نمائندوں نے طالبان و دیگر رہنماؤں سے ملاقات کے لیے کابل کا دورہ کیا تھا۔
اس دورے میں علاقائی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان روابط کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی تاکہ پُرامن، مستحکم، خودمختار اور خوشحال افغانستان کے مشترکہ مقاصد کو فروغ دیا جاسکے۔
ترجمان نے خطے کے ممالک کے درمیان روابط پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 'یہ سب تعاون اور مشاورت پر منحصر ہے، علاقائی ممالک نے افغانستان میں ہونے والی پیشرفت پر خدشات اور دلچسپی کا اظہار کیا ہے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان، عالمی برادری بالخصوص علاقائی ممالک سے روابط اور مشاوت جاری رکھے گا۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان جامع حکومت قائم نہ کر سکے تو افغانستان میں خانہ جنگی ہو گی، وزیراعظم
مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف جاری مودی حکومت کی جارحیت پر امریکا کی خاموشی پر تبصرہ کرتے ہوئے عاصم افتخار نے امریکا کی انسانی حقوق سے متعلق 'دوہری گفتگو' اور 'دوہرے معیار' کی شدید مذمت کی۔
عاصم افتخار نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 'ہم نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ بلاامتیاز اور سیاسی مقاصد کے بغیر انسانی حقوق کا احترام کرنا چاہیے'۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس میں کہا تھا کہ 'ہم سب کو نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہونے والی جارحیت پر آواز بلند کرنی چاہیے اور اس کی مذمت کرنی چاہیے، چاہے یہ سنکیانگ یا شمالی ایتھوپیا یا پھر دنیا میں کہی بھی ہو'۔
تاہم امریکی صدر نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو واضح طور پر نظر انداز کیا جس کی اقوام متحدہ و دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے دستاویزات اور رپورٹ پیش کی ہے، انہوں نے بھارت میں مذہبی اقلیتوں پر ہونے والے جبر کے بارے میں بھی بات نہیں کی۔