اس عمل کو آٹو امیونٹی (خود مدافعتی) کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس سے متعدد اعضا کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اگرچہ اینٹی باڈیز بیماریوں سے تحفظ کے لیے اہم دفاعی ہتھیار کا کام کرتی ہیں مگر کئی بار مدافعتی نظام ایسی آٹو اینٹی باڈیز بنادیتا ہے جو غلطی سے جسم کے صحت مند خلیات پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کی سنگین شدت مدافعتی نظام کو آٹو اینٹی باڈیز بنانے پر مجبور کردیتی ہے جو صحت مند ٹشوز پر حملہ آور ہوجاتی ہیں اور انفلیمٹیری امراض کا باعث بن جاتی ہیں۔
کووڈ 19 کے 147 مریضوں پر ہونے والی تحقیق میں خون کے نمونوں کی جانچ پڑتال کی گئی۔
تحقیق میں 50 فیصد مریضوں میں آٹو اینٹی باڈیز کو خون کے نمونوں میں دریافت کیا گیا جبکہ 41 صحت مند افراد کے گروپ میں یہ شرح 15 فیصد سے بھی کم تھی۔
کووڈ 19 کے 48 مریضوں کے خون کے نمونے ہسپتال کے داخلے کے دن کے ساتھ ساتھ مختلف دنوں میں جمع کیے گئے۔
اس سے محققین کو آٹو اینٹی باڈیز بننے کے عمل کو ٹریک کرنے کا موقع ملا۔
انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں داخلے کے وقت مریضوں میں یہ آٹو اینٹی باڈیز موجود نہیں تھیں مگر ایک ہفتے کے اندر 20 فیصد مریضوں میں ایسی نئی اینٹی باڈیز تشکیل پا گئیں جو اپنے ٹشوز پر حملہ آور ہوگئیں۔
انہوں نے لوگوں پر کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کرانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو پہلے سے علم نہیں ہوتا کہ کووڈ سے بیمار ہونے پر بیماری کی شدت معمولی ہوگی یا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ کو بیماری کی سنگین شدت کا سامنا ہوتا ہے تو آٹو امیون امراض کی صورت میں زندگی بھر مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے ابھی زیادہ طویل عرصے تک مریضوں پر تحقیق نہیں کی جس سے علم ہوسکے کہ آٹو اینٹی باڈیز بیماری کے ایک یا 2 سال بعد بھی موجود ہوتی ہیں یا نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ابھی مصدقہ طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں مگر کسی آٹو امیون بیماری کا خطرہ موجود ہے جس کی تصدیق کے لیے مزید کام کرنا ہوگا۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئے۔
اس سے قبل جولائی میں برطانیہ کے امپرئیل کالج لندن نے لانگ کووڈ کے مریضوں میں اینٹی باڈیز کے ایسے مخصوص پیٹرن کو دریافت کیا تھا جو دیگر مریضوں یا صحت مند افراد میں نظر نہیں آتا۔