4 مختصر کہانیاں
'یہ کب کا واقعہ ہے؟'، ریسکیو کیمپ میں موجود افسر نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے پوچھا۔
'صاحب یہ 13 تاریخ تھی۔ ممکن ہے 15 ہو۔ مگر کسے خبر۔ لگاتار تیز بارشیں ہمارے کیلنڈر بہاکر لے گئیں اور ہمارے ذہنوں سے تاریخیں محو ہوگئی تھیں۔ تو وہ جو بھی تاریخ تھی اس دن بارش کو 5واں روز تھا۔ شاید 7واں روز ہو۔ اس رات چھت کا صرف ایک کونا باقی بچا تھا جہاں سے پانی نہیں آ رہا تھا۔
'صاحب، میری بیوی اور دونوں بچے سہمے ہوئے تھے۔ پھر میری بیوی کہنے لگی کہ بکریوں اور کتے کی رسی کھول دو ورنہ یہ جانور چھپر کے نیچے ہی دب جائیں گے۔ میرا بھی یہی خیال تھا تاہم مجھے ڈر تھا کہ اس طوفان میں کتا اور بکریاں کہاں جائیں گے۔ مگر وہ کہنے لگی کہ جانور کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ چھپر کے نیچے مرنے سے تو بہتر ہے۔
'مجھے بیوی کی بات درست محسوس ہوئی، میں اپنے کمرے سے چلتا ہوا جانوروں کے چھپر تک آیا۔ 3 بکریوں کی رسی کھولنے کے بعد جب میں کتے کی جانب مُڑا تو ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی۔ صاحب، میرے مکان کی چھت گرچکی تھی۔ میں دوڑ کر واپس آیا۔ ملبہ ہٹاتے ہٹاتے صبح ہوگئی۔
'آہ! میرے پیارے! صاحب کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ اب میں اس کیمپ میں ہوں اور ان کی یاد ہے۔'
'اچھا اس کتے کا کیا بنا؟'
صاحب نے سگریٹ کا کش لیا اور اپنے رشین کتے کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھنے لگا۔
'جب اس نے خود کو گولی سے اڑایا تو تم کہاں تھے؟'
'جج صاحب، میں روٹی کھا رہا تھا کہ میری زندگی کا دائرہ روٹی ہی کے گرد گھوم رہا ہے۔'
'زیادہ باتیں نہیں۔ سچ سچ بتاؤ تم کہاں تھے؟'
'میں اسی کمرے میں تھا جس کی چھت پر اس آدمی نے خود کو گولی سے اڑا دیا حالانکہ میرا ذاتی خیال ہے کہ وہ وقت خودکشی کے لیے نامناسب تھا جبکہ تندور سے روٹیاں وہ خود لایا تھا۔ میری طرح اس کا دائرہ بھی روٹی کے گرد ہی گھومتا تھا۔'
'تمہارے ساتھ اور کون کون اس کمرے میں تھا؟'
'یوں تو ہم 5 لوگ وہاں رہتے ہیں مگر 3 چھٹیوں پر اپنے گھر گئے ہوئے تھے۔'
'کیا اس نے خودکشی سے پہلے تم سے کوئی بات کی تھی؟'
'ایسی کوئی خاص بات نہیں بس روٹیاں مجھے پکڑا کر وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا ہوا چھت پر چلا گیا۔ میں نے آواز دے کر بلایا تھا کہ تمہیں کھانا نہیں کھانا۔ اس نے جواب دیا، نہیں تم کھاؤ مجھے بھوک نہیں ہے۔ پھر آدھے گھنٹے بعد گولی کی آواز آئی۔'
'کیا وہ آج کل پریشان تھا؟'
'وہ ایک پیدائشی پریشان آدمی تھا۔'
'پیدا ہوتے ہی بھلا کون پریشان ہوتا ہے؟'
'سر کچھ لوگ ہوتے ہیں۔ مجھے بھی بعض اوقات ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ اب یہ مرچکا ہے مگر اس نے بارہا مجھے بتایا تھا کہ وہ ایک پیدائشی پریشان ہے۔ جج صاحب کیا آپ نے کبھی ایسا محسوس کیا؟'
'زیادہ بکواس نہ کرو۔'
'جی بہتر'
جیون لعل کی زندگی میں جیون ہے نہ کوئی لعل۔
وبال وبال وبال۔
آج کل وہ ہر شے بیچنا چاہتا ہے تاکہ اپنا اور بیوی بچوں کے پیٹ کا دوزخ بھر سکے۔ وبا کے دنوں میں اب مزدوری ملنا مشکل ہوگیا ہے۔ پھر اسے معلوم ہوا کہ جس چوک پر وہ مزدوری کی تلاش میں سارا دن بیٹھتا ہے، اس کے سامنے والی عمارت میں ایک بہت بڑا بیوپاری ہے، لوگ قطار میں کھڑے اپنی چیزیں بیچ رہے ہوتے ہیں۔ ایک دن جیون لعل بھی قطار میں کھڑا ہوگیا مگر اس کے پاس کوئی سامان نہیں تھا۔ آخر اس کا نمبر آ ہی گیا۔
'کیا بیچنا ہے؟'
'یہاں کیا کیا بکتا ہے؟'
'اپنی کھال کھینچ کر بیچ کیوں نہیں دیتے؟' کھڑکی کے سامنے موجود آدمی نے غصے سے کہا۔
'یہ بھی بک جائے گی؟'، جیون لعل نے حیرت سے پوچھا۔
'کیا پاگل ہو۔ صرف کھال کہاں بکتی ہے'، کھڑکی والا آدمی چلایا۔
'پھر گوشت کا کیا بھاؤ ہے؟'، جیون لعل نے پوچھا۔
'کس کا گوشت؟'
'میرے پاس کون سی گائے بھینس ہے۔ اپنی بات کررہا ہوں۔ اگر تھوڑا سا بک جائے تو۔'
'انسانی گوشت ناقابلِ فروخت ہے۔ ویسے بھی تمہاری جلد کے نیچے صرف ہڈیاں ہیں۔ ہاں گردے بک سکتے ہیں مگر تم نے اس قدر میلا پانی پی رکھا ہے کہ تمہارے گردوں میں پتھریوں کی فیکٹری بن چکی ہوگی۔'
'کیا پتھریاں بھی بکتی ہیں؟'
'ارے کوئی اسے لے جائے۔ یہ ہر شے بیچنا چاہتا ہے'، کھڑکی والے صاحب نے چلّا کر کہا۔
'اچھا جاتا ہوں۔ مگر مجھے ایک فہرست بناکر دے دی جائے کہ کیا کیا چیزیں بک سکتی ہیں۔ ممکن ہے میرے پاس کوئی ایسی شے نکل آئے جو ناقابلِ فروخت نہ ہو۔'
ہم سے کمرہ بنواتے ہوئے ایک غلطی ہوگئی۔ کمرے میں کوئی کھڑکی اور روشن دان نہیں۔ جب ہم دروازہ بند کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دم گھٹ رہا ہو۔ بجلی نہ ہونے کی صورت میں مکمل اندھیرا چھا جاتا ہے اور بعض اوقات ہم ایک دوسرے سے ٹکرا کر گرجاتے ہیں۔
اب اتنے برسوں بعد جب ہمارے بال سفید ہوچکے ہیں، ہم کمرے میں کھڑکی بنوانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ ہم اس سانس کی تنگی اور اندھیرے کے عادی ہوچکے ہیں، ہمارے پھیپھڑے کم ہوا اندر لے کر جاتے ہیں اور یہی حالت ہمارے بچوں کی ہے، کوئی دیکھے تو فوراً کہتا ہے کہ 'کیا آپ کے بچے دمہ کے مرض میں مبتلا ہیں؟'
پھر ہم انہیں بتاتے ہیں کہ انہیں دمہ ہرگز نہیں ہے یہ تو بس قلیل آکسیجن پر جینے کے عادی ہوچکے ہیں۔
ہمارے بچوں کے بچے اس بیماری کا شکار نہ ہوں اس لیے ہم کھڑکی اور روشن دان بنوانا چاہتے ہیں۔ ہم نے کل ایک ماہر مستری کو بلوایا تھا۔
اس نے آکر معائنہ کیا اور کہا کہ، 'دیواریں ہی شکستہ ہیں، اب اس میں کھڑکی نہیں بن سکتی۔ کمرہ گرا کر نیا تعمیر کرنا پڑے گا'۔
مگر میرا خیال ہے کھڑکی سے کام چل جائے گا۔ مستری نہیں مانتا۔ اس نے کہا ہے کہ اب اگر کھڑکی بن بھی گئی تو اس کے آرپار ہوا جائے گی نہ کچھ دکھائی دے گا۔
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔