پاکستان

یہ شہر ہے ہی نہیں کچرا ہے، چیف جسٹس کراچی تجاوزات کیس میں حکومت سندھ پر برہم

کوئی سڑک، کوئی گلی دیکھ لیں، ملک کے حکمران رہتے ہیں یہاں، سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں بجلی کے تار لٹک رہے ہیں، چیف جسٹس گلزار احمد
|

کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے تجاوزات کیس میں برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ حکومت کو ہر سال اربوں روپے ملتے ہیں، پھر بھی کہتے ہیں ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں، صوبائی حکومت کو شرم آنی چاہیے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کراچی رجسٹری میں تجاوزات کے خاتمے اور دیگر کیسز پر سماعت کی۔

دوران سماعت سندھ حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدیں عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ بورڈ آف ریونیو کی جانب سے ایک رپورٹ پیش کی جا چکی ہے جس کے مطابق 6 ہزار 6 ایکڑ زمین پر ترقیاتی کام ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سندھ حکومت نے بحریہ ٹاؤن والے پیسوں میں سے 10 ارب روپے مانگے ہیں' اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ 'وہ تو بینچ معاملہ سنے گا پھر اس کا فیصلہ ہوگا'۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ 'وفاقی حکومت کے پاس سندھ حکومت کے 20 ارب روپے ہیں، سندھ حکومت شدید مالی بحران کا شکار ہیں'۔

مزید پڑھیں: نالوں کے ساتھ انسداد تجاوزات مہم سے متاثرہ افراد پناہ کے منتظر

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'لوگوں کو وزیر اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس میں بیٹھنے کی اجازت دے دیں'، اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ 'آپ آرڈر کردیں ہم بٹھا لیتے ہیں'۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'آپ نے کچھ نہیں کیا صوبے میں'، اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ 'جب محدود وسائل ہوتے ہیں تو مشکلات ہوتی ہیں'۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 'آپ کی ترجیحات کچھ اور ہیں، سپریم کورٹ کا کام معاونت کرنا نہیں ہے، آپ نے زمین اونے پونے بیچ دی تھی اب سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی کہ بحریہ ٹاون سے ملنے والا پیسہ کہاں خرچ ہوگا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'گزشتہ 6 ماہ سے عمل درآمد بینچ کے انتظار میں بیٹھے ہیں، لوگوں کی بحالی کے لیے آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں'۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ 'گجر نالہ متاثرین کے لیے 10 ارب روپے کی ضرورت ہے'، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ سندھ حکومت کا بجٹ کتنا ہے تاہم ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ 'اس وقت میں یہ نہیں بتا سکتا ہوں'۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 'کئی سو ارب کا بجٹ ہوتا ہے، متاثرین کی بحالی کے لیے دس ارب روپے نہیں ہیں آپ کے پاس؟'

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'آپ راستہ نکالیں لوگوں کی بحالی کرائیں، آپ نے ہمیں کہا کہ نالہ صاف کرائیں، ہم نے کرادیے، اب آپ کہ رہے ہیں کہ پیسے نہیں'۔

انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ 'مسٹر ایڈووکیٹ جنرل سندھ، جس طرح آپ بات کررہے یہ کوئی طریقہ نہیں ہے'۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے استدعا کی کہ 'نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم میں متاثرین کو گھر دینے کا حکم جاری کردیں'، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'ہم نے اس حوالے سے آرڈر کیا ہے'۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ 'گجر نالہ متاثرین کی بحالی حکومت کی ذمہ داری ہے، زمین موجود ہے اس کی نیلامی ہوسکتی ہے اور بہت سارے طریقے ہیں متاثرین کی بحالی کے، وفاقی اور صوبائی حکومت کو مل بیٹھ کر مسئلہ حل کرنا ہوگا'۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں الہٰ دین پارک کے قریب تجاوزات کے خلاف آپریشن، حالات کشیدہ

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'گند ہے پورا کراچی سر سے پاؤں تک، یہ کراچی شہر ہے، یہ شہر ہے ہی نہیں کچرا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کوئی سٹرک دیکھ لیں، کوئی گلی دیکھ لیں، ملک کے حکمران رہتے ہیں یہاں، سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں بجلی کے تار لٹک رہے ہیں تھوڑی سی بارش ہوجائے پانی بھر جاتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سمندر کے نزدیک آپ کا شہر ہے، ابھی تک کوئی ایسی صورتحال سامنے نہیں آئی کہ ایک انچ کا کام ہوا ہو، تجاوزات کی بھر مار ہے، اربوں روپے ہر سال ملتے ہیں پھر بھی کہتے ہیں ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں'۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 'ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا رویہ دیکھیں، سندھ حکومت کو شرم آنی چاہیے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'بڑے بڑے گھر والے اپنے سامنے والا نالا تک صاف نہیں کراتے ہیں کہ حکومت آئے گی تو خود کرے گی، بچے ڈوبتے ہیں ڈوبیں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا'۔

انہوں نے کہا کہ 'سیاسی جھگڑے اپنی جگہ مگر لوگوں کو سروس دیں، اگر نہیں دے سکتے سروس تو جائیں کسی اور کو آنے دیں'۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا عدالت کے سامنے بیان مناسب نہیں ہے، ماضی میں حکومت سندھ کہتی رہی ہے کہ متاثرین کے بحالی کا کام کریں گے، متاثرین کی بحالی حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے، سندھ حکومت اپنے وسائل سے متاثرین کی بحالی کرے'۔

عدالت نے وزیر اعلیٰ سندھ کو ہدایت دی کہ 'ایک سال میں نالہ متاثرین کی بحالی کو یقین بنائیں اور تمام ضرورت کی چیزین فراہم کریں'۔

انہوں نے کہا کہ 'وزیر اعلیٰ سندھ متاثرین کی بحالی کے لیے فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنائیں اور دو ہفتوں میں ابتدائی رپورٹ پیش کریں'۔

نسلہ ٹاور کی تعمیرات سے متعلق کیس

بعد ازاں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں نسلہ ٹاور کی تعمیرات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس میں نسلہ ٹاور کی جانب سے ایڈووکیٹ منیر ملک پیش ہوئے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 'سروس لین پر کوئی قبضہ نہیں کیا گیا ہے، کمشنر کراچی کبھی وہاں گئے ہی نہیں مختیار کار اور ڈپٹی کمشنر کی رپورٹ پر انحصار کررہے ہیں'۔

چیف جسٹس نے کمشنر کراچی کو ہدایت کی کہ 'کمشنر نے وہاں بنی ہوئی دیوار نہیں گرائی ہے، اس دیوار کو ابھی جاکر گرائیں'۔

منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ 'سندھی مسلم کے پاس کوئی لیز ہی نہیں ہے'۔

عدالت نے استفسار کیا کہ 'آپ کا ٹائٹل ڈاکومنٹ کہاں ہے'، اس پر وکیل نے بتایا کہ 'ہمارا ٹائٹل ڈاکومنٹ سندھی مسلم سوسائٹی کے پاس ہے'۔

مزید پڑھیں: کراچی: انتظامیہ کو گجر، اورنگی نالوں پر قائم لیز مکانات مسمار کرنے سے روک دیا گیا

عدالت نے کہا کہ 'سندھی مسلم کے پاس تو خود کوئی ڈاکومنٹ نہیں ہے'، اس پر وکیل نے عدالت سے سندھی مسلم کو نوٹس کرنے کی استدعا کی لیکن چیف جسٹس نے کہا کہ 'ہم ان کو کیوں نوٹس دیں، سندھی مسلم سوسائٹی سڑک کسی کو نہیں دے سکتا ہے، آپ اپنا ٹائٹل ڈاکومنٹ دکھا دیں'۔

منیر اے ملک نے کہا کہ 'مجھے 5 منٹ سن لیں پھر آپ بھلے توڑنے کا آرڈر دے دیں، نسلہ ٹاور کے رہائشیوں کے بھی حقوق ہیں، ابھی کمشنر مقرر کرکے انسپیکشن کرالیں'۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ '780 گز سے ایک ہزار گز سے اوپر کیسے ہوگیا'، اس پر وکیل نے کہا کہ شاہراہ فیصل کے دونوں اطراف میں لوگوں کو اضافی زمین دی گئی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کمشنر نے اپنے دستخط کے ساتھ رپورٹ دی ہے وہ اپنی رپورٹ کے ساتھ کھڑے ہیں، سب چھوڑیں آپ اپنا ٹائٹل ڈاکومنٹ دکھا دیں'۔

نسلہ ٹاور کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ 'ہم نے کوئی انکروچمنٹ نہیں کی ہے'، اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'آپ نے عوامی زمین کی انکروچمنٹ کی ہے'۔

وکیل نے کہا کہ 'ہمیں ایک موقع دیں تو ہم دستاویزات تلاش کرتے ہیں'، اس پر عدالت نے کہا کہ 'کتنے موقع دیں اب وہاں کوئی نہیں رہ رہا ہے'۔

الاٹیز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 'ہم رہ رہے رہیں وہیں، کمشنر کو بھیج کر چیک کرالیں، اگر سروس لین پر قبضہ ہے تو گرادیں، یہی رہے گا تو پورا کراچی ڈیمولیش ہوجائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 'اس میں آپکا گھر بھی ہے'، اس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ 'جی سر اس میں میرا گھر بھی ہے آپ کا گھر بھی ہے'۔

چیف جسٹس نے وکیل دفاع سے استفسار کیا کہ '780 گز کا سائٹ پلان دے دیں'۔

وکیل نسلہ ٹاور کا کہنا تھا کہ 'یہ کیس سندھ حکومت کا ہے نہ وفاقی حکومت کا ہے نہ ہی سندھی مسلم سوسائٹی کا ہے، ہم نے وفاقی حکومت سے زمین خریدی ہے قبضہ نہیں کیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'کے ایم سی اور سندھی مسلم سوسائٹی کو نوٹس جاری کرکے اصل لے آؤٹ پلان منگوایا جائے، متعدد عمارتیں شاہراہ فیصل پر بنی ہوئی ہیں اسی طرح سے اور اسی طرح 23 پلاٹس اور بھی الاٹ کیے گئے ہیں'۔

مزید پڑھیں: کمشنر کراچی ربڑ اسٹیمپ ہے، چیف جسٹس کا تجاوزات کیس میں اظہار برہمی

جسٹس نے استفسار کیا کہ 'آپ بتادیں نسلہ ٹاور 780 گز سے 1121 گز کیسے ہوگیا'۔

وکیل الاٹیز نے کہا کہ 'الاٹیز گھر سے بے گھر ہوجائیں؟' اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'کیا الاٹیز کے پاس کوئی ٹائٹل ڈاکومنٹ ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'بغیر جائزہ لیے پراپرٹی خریدیں گے تو پیسے ہم دلوائیں گے کیا؟'

بعد ازاں عدالت نے نسلہ ٹاور گرانے کے خلاف دائر نظر ثانی درخواست مسترد کرتے ہوئے عمارت خالی کرانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دے دی۔

اس حوالے سے عدالت نے کمشنر کراچی کو بھی ہدایت جاری کردی۔

ضیاالدین ہسپتال کے سروس روڈ اور سرکاری زمین پر قبضے سے متعلق کیس

بعد ازاں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ضیا الدین ہسپتال کی جانب سے سروس روڈ اور سرکاری زمین پر قبضے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

دوران سماعت درخواست گزار بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ 'ضیا الدین ہسپتال نے الاٹمنٹ سے زیادہ سروس روڈ ایس ٹی فور پر قبضہ ہے، سروس روڈ پر پارکنگ بنالی ہے پیچھے کی سائیڈ سے بھی قبضہ کیا ہوا ہے'۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 'کلفٹن میں ہسپتال کا ایک پلاٹ بھی فروخت ہوا ہے، اس کا کیس بھی ہمارے پاس آیا تھا، سندھ حکومت کو اختیار ہے کہ وہ اس طرح زمین الاٹ کرے'۔

ضیا الدین ہسپتال کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ 'سروے کرالیں سب پتا چل جائے گا ابھی دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا'، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'کراچی میں تو نہ دودھ ملتا ہے نہ پانی ملتا ہے'۔

ضیاالدین ہسپتال کے وکیل نے کہا کہ 'سندھ حکومت کو نوٹس کردیں'، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 'سندھ حکومت نے تو آکر کہہ دینا ہے کہ ہاں دی ہے'۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 'ضیا الدین ہسپتال کے ساتھ ساتھ ہم نے ساؤتھ سٹی ہسپتال کو بھی نوٹس جاری کیا تھا'۔

ضیا الدین ہسپتال کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 'کراچی میں ایس ٹی پلاٹ پر 72 ہسپتال بنے ہوئے ہیں، آغا خان ہسپتال کو تو فری میں زمین دی گئی ہے، لیاقت نیشنل، پٹیل ہسپتال بھی ایس ٹی پلاٹس پر بنا ہوا ہے'۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ 'کیا آپ سب کو مفت علاج فراہم کررہے ہیں'، اس پر ضیا الدین ہستال کے وکیل نے بتایا کہ 'سب کو مفت علاج فراہم نہیں کرتے ہیں جو نہیں ادا کر سکتا ہے اس کے لیے مفت علاج کرتے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: مکینوں کے احتجاج پر گجر و دیگر نالوں پر تجاوزات کے خلاف محدود آپریشن کا آغاز

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم ہسپتال کما کر چلاتے ہیں، کوئی فنڈ نہیں ملتا ہے'۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'سہولیات دے رہے ہیں تو پیسے بھی لے رہے ہیں، پہلے پیسے جمع ہوتے ہیں بعد میں علاج کرتے ہیں، ساؤتھ سٹی ہسپتال میں منسٹرز سیکریٹریز علاج کراتے ہیں، پھر وہاں سے شہد کی بوتلیں ملتی ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے ایک جج نے ساؤتھ سٹی ہسپتال سے علاج کرایا، میں بل دیکھ کر حیران رہ گیا تھا'۔

الہ دین پارک کیس

بعد ازاں الہ دین پارک کیس کی سماعت کے دوران کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ پویلین اینڈ کلب اور شاپنگ ایریا منہدم کردیا گیا ہے، ملبہ ہٹانے کے لیے سندھ حکومت سے معاونت درکار ہے'۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'آپ ملبہ ہٹانے کے لیے 9 کروڑ روپے مانگ رہے ہیں'۔

انہوں نے کمشنر کو ملبہ ہٹا کر پارک کو بحال کرنے کی ہدایت کی اور سندھ حکومت کو بھی پارک کی بحالی میں تعاون کرنے کی ہدایت کی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'الہ دین پارک کی زمین پر کسی قسم کی غیرقانونی تعمیرات نہیں ہوں گی'۔

دوران سماعت الہ دین پارک کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ حکم نامہ میں ترمیم کی جائے اور 'ہمیں انکروچر نہیں کہا جائے'۔

بعد ازاں عدالت نے الہ دین پارک انتظامیہ کی درخواست پر نوٹس جاری کردیے۔

وزیراعلیٰ پنجاب کے دفتر کا عثمان بزدار کے زیراستعمال گاڑیوں کی تفصیلات دینے سے انکار

'مارٹن گپٹل کی اہلیہ کو ای میل کے ذریعے قتل کی دھمکی ملی'

قومی ٹیم کی وزیراعظم سے ملاقات، ورلڈ کپ میں کارکردگی سے عالمی سطح پر جواب دینے کا مشورہ