نقطہ نظر

نواز شریف کن اشاروں کی بنیاد پر انتخابات کی تیاری کررہے ہیں؟

نواز شریف کا اسٹائل ہےکہ فیصلہ خود کرتے ہیں مگر اعلان کیلئے ماحول ایسا بناتے ہیں کہ ہر بندہ سمجھتا ہےکہ فیصلہ اس کے کہنے پر ہوا ہے

پاکستان مسلم لیگ (ن) آج کل روزانہ کی بنیاد پر پارٹی اجلاس منعقد کر رہی ہے۔ پنجاب کے مختلف ڈویژن کے منتخب نمائندوں اور ٹکٹ ہولڈرز سے ان کی رائے لی جا رہی ہے۔ نوازشریف اجلاس میں موجود ہوتے ہیں اور نہایت صبر کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی بات سنتے ہیں۔ یہ ساتھی انہیں یہ بتاتے ہیں کہ میاں صاحب آجاؤ، اب دل نہیں لگ رہا، یا پھر دوسری رائے دی جاتی ہے کہ نہ آنا، زمانہ خراب ہے۔

نوازشریف کا اسٹائل یہ ہے کہ وہ فیصلہ خود کرتے ہیں لیکن اس کے اعلان کے لیے ماحول ایسا بناتے ہیں کہ ہر بندہ سمجھتا ہے کہ یہ اصل میں اس کے کہنے پر ہوا ہے۔

میڈیا میں ان اجلاسوں کے حوالے سے جو خبریں آرہی ہیں وہ اس قسم کی ہیں کہ مفاہمت گروپ کی پٹواری فاختائیں انقلابی کلنگی مرغوں سے جا ٹکرائی ہیں اور میاں صاحب بیچ بچاؤ کروانے میں مصروف ہیں۔ سویر شام ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اب مفاہمتی گروپ جیت گیا اور ووٹ کو عزت دو والے اس ووٹ کی ہلکی پھلکی ’بزتی‘ ہوتے رہنے پر بھی راضی ہوگئے ہیں۔

اگر اس کے علاوہ آپ کو مسلم لیگ (ن) کے اجلاسوں کی کچھ سمجھ آرہی ہے تو بتائیں؟

یہاں اہم بات یہ ہے کہ یہ جماعت دنیا بھر کی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ایک کام بہت جی جان سے کرتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو بہت سیریس نہیں لینا بس اتنا سمجھنا ہے کہ اس کام پر یہ پیسے لگاتے نہیں گھبراتے اور وہ کام ہے الیکشن لڑنا۔ دنیا کی اچھی سروے فرم ہائر کی جاتی ہیں، ایک ایک حلقے کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اس حلقے میں جو جیت سکتا ہو اسے گھیر گھار کر پارٹی میں لایا جاتا ہے۔ بہرحال اس پر پھر کبھی تفصیل سے بات ہوگی۔

ہاں، تو بات ہورہی تھی انتخابات میں حصہ لینے کی، تو اس حوالے سے توجہ طلب معاملہ یہ ہے کہ چونکہ اس جماعت کا مرکز پنجاب میں ہے، اس لیے ہر ایک سیٹ اس کے لیے اہم ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں جنوبی پنجاب کا کردار انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے جہاں 94 صوبائی سیٹیں ہیں۔

اگر 2018ء کے انتخابات کا ذکر کریں تو مسلم لیگ (ن) نے ان 94 سیٹوں میں سے صرف 32 پر کامیابی حاصل کی تھی، اور سچ پوچھیے تو یہی وہ کارکردگی تھی جس کی وجہ سے صوبائی حکومت اس جماعت کے ہاتھ سے نکل گئی۔

اب جب حکومت ہی نہیں رہی تو بھلا اس پارٹی میں رہ کر لوگوں کو کیا فائدہ ہونا تھا، لہٰذا ان 32 میں سے بھی کچھ لوگ حکومت کی طرف لڑھک گئے۔ پنجاب کی حکومت جب بھی لینی ہو تو ان 94 سیٹوں کا کچھ کرنا ہوگا اور وہی کچھ کرنے کو اجلاس ہو رہے ہیں۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آخر ایسا کیا ہوگیا کہ اچانک یہ سوچنا اور سمجھنا شروع کردیا گیا ہے کہ الیکشن قریب ہیں؟

تو آئیے اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

معاملہ یہ ہے کہ شوکت ترین نے وزیرِ خزانہ کا حلف 17 اپریل کو اٹھایا تھا۔ یہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چوتھے وزیرِ خزانہ تھے، جو پارلیمنٹ کے رکن نہیں ہیں۔ قانون کہتا ہے کہ ایسی صورت میں یا تو وزیر کو 6 ماہ میں عہدے سے ہٹا دیا جائے، اور اگر انہیں برقرار رکھنا ہے تو پھر 6 ماہ کے اندر اندر سینیٹ یا قومی اسمبلی کا ممبر بنوا لیا جائے، اور یہاں یہ بات یاد رہے کہ شوکت ترین کے 6 ماہ اکتوبر میں پورے ہورہے ہیں۔ لہٰذا اب یہ امکان بڑھ چکے ہیں کہ شوکت ترین اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے کیونکہ انتخابات کروانے کا وقت تقریباً گزر ہی گیا ہے۔

ایسی صورت میں اب ہمیں پانچویں وزیرِ خزانہ سے دل اور امید دونوں لگانے ہوں گے۔ پچھلے سال دسمبر میں ہم نے سعودی عرب کو 2 ارب ڈالر چین سے لے کر واپس کیے تھے۔ اب ہمیں چین سے یا تو پھر ترلا کرنا ہے کہ بس ایک سال اور، یا پھر یہ رقم واپس کرنی ہوگی۔ ہمارے ایک ارب ڈالر کے یورو بانڈ کی ادائیگی کا وقت بھی آ رہا ہے۔ منافع سمیت یہ ادائیگی بھی کرنی ہے۔ اس کے لیے ہم یا تو کسی سے پھر پیسے مانگیں گے یا نئے اور پہلے سے زیادہ مہنگے بانڈ جاری کریں گے۔

کچھ دن پہلے سینیٹ کی پلاننگ ڈیولپمنٹ کمیٹی کے اجلاس کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے بتایا کہ کیسے چینی سفیر سی پیک سے متعلق پریشان نظر آئے۔ تاہم سی پیک کے حوالے سے وزیرِاعظم کے مشیر اس بات کی تردید کرتے پائے گئے۔ اس کے فوری بعد خبریں آئیں کہ چینی کمپنیوں کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ منافع ادا کیا جانا ہے جو جزوی طور پر ادا کردیا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ چینی کمپنیوں کو یہ پیسے دیے جائیں گے تو چین سے لیا ادھار بھی ری شیڈول ہوجائے گا۔

ایف اے ٹی ایف کا اجلاس بھی سر پر آیا کھڑا ہے۔ آئی ایم ایف کا جائزہ اجلاس بھی ہونا ہے۔ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں کا دورہ ملتوی ہوگیا ہے اور یہ کارنامہ فائیو (Five Eyes) آئیز کی انٹیلیجنس شیئرنگ پر ہوا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا ہمیں ابھی دہشت گردی کے مسئلے سے الگ کرکے نہیں دیکھنا یا دکھانا چاہتی۔

امریکا افغانستان سے چلا گیا ہے۔ جو بائیڈن کی جتنی ہونی تھی ہوچکی۔ اب طالبان کی ہونی شروع ہوگی اور ہو رہی ہے۔ تنخواہوں کا مسئلہ ہے، لوگوں کو روٹی کھلانی ہے، وہ اب تک جن سے لڑ رہے تھے ان سے ہی سویر شام اپیل کر رہے ہیں کہ ہمیں امداد دو۔ زکوٰۃ، خیرات، صدقات سب چلے گا۔ رہا پاکستان تو ہم دنیا کی چھٹی بڑی فوجی طاقت ہیں لیکن پیسوں سے البتہ ہمارا ہاتھ تنگ رہتا ہے تو افغانستان میں فتح کے بعد ہم امداد کے نام پر بس ہنس کر ہی دکھا سکتے ہیں۔

ہمارا سارا ریجن اوپر نیچے ہو رہا ہے۔ امریکا نے آسٹریلیا کو ایٹمی آبدوز بیچنے کا معاہدہ کرکے فرانس کو ناراض کرلیا ہے۔ یہ اتنی عام بات نہیں ہے۔ امریکی افغانستان کے علاوہ خلیج سے بھی رخصت باندھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکی اب اپنے تونائی کے ذرائع پر انحصار کر رہے ہیں۔ سعودی، اماراتی، قطری سب اب تیل بیچنے کے لیے مشرق کی طرف جاپان، چین اور انڈیا کو دیکھ رہے ہیں۔ جن راستوں سے یہ تیل جانا ہے، ان راستوں پر امریکیوں نے ایک اور اتحادی ڈھونڈ لیا ہے۔

یہ ساری تبدیلی اتنی تیزی سے ہو رہی ہے کہ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ سعودی وزیرِ خارجہ افغانستان پر بات کرنے دہلی پہنچ جاتے ہیں، متحدہ عرب امارات چین اور امریکا میں توازن رکھنے کی کوشش کر رہا ہے اور ایران ایٹمی معاہدے پر کچھ نرم پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

اس ساری تبدیلی میں ہماری بہت اہمیت ہے۔ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں اس لیے جو پیسوں کا آسرا کرواتا ہے اس کے ساتھ ہم دو قدم چل لیتے ہیں۔ لیکن تیسرے قدم پر ہمیں جھجھک ہوتی ہے تو اگلے تپ جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہو یا خلاف؟ اس صورتحال میں کسی دن بھی حوالدار بشیر سر جی سے کہہ سکتا ہے کہ سر جی بس کریں تبدیلی کا اب مزہ نہیں آرہا چکر آ رہے ہیں، پھر سے شروع کرتے ہیں۔

تو بس نوازشریف اسی دن کا انتظار کر رہے ہیں جب انہیں تبدیلی کے ساتھ آزادی سے گھلنے کا موقع دے دیا جائے۔ پھر وہ آجائیں گے۔ یہ دن 2023ء میں بھی آیا تو بھی ان کا کوئی نقصان نہیں۔ حالات ایسے ہیں اور حکومت ایسی ہے کہ سب ہاتھ کھڑے کرسکتے ہیں اور بات نئے الیکشن کی طرف جاسکتی ہے۔ اسی کا اندازہ لگاتے ہوئے نواز شریف اب پارٹی کے لمبے لمبے اجلاس کر رہے ہیں۔

وسی بابا

دیس دیس کی اپنے دیس سے جڑی باتیں دیسی دل سے کرتے ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: WisiBaba. انہیں ٹوئیٹر پر فالو کریں WisiBaba.

آپ کا ای میل ایڈریس wisinewsviews@gmail.com ہے

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔