پاکستان

ملازمین کی برطرفی کا معاملہ، قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن اراکین میں گرما گرم بحث

وفاقی وزیر انسانی حقوق اور مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف کے درمیان نوک جھونک ہوئی، اجلاس کل تک کیلئے ملتوی کردیا گیا۔

قومی اسمبلی میں ملازمین کی برطرفی کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن ملازمین کے درمیان گرما گرم بحث ہوئی جس کے بعد اجلاس کو کل تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

منگل کو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر امجد علی خان کی سربراہی میں منعقد ہوا جس میں ملازمین کی برطرفی کے معاملے پر بحث ہوئی۔

پیپلز پارٹی رہنما کی ملازمین کو برطرف کرنے کے خلاف قرار داد پیش کرنے کی کوشش

پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے چھ آرڈیننس کی عدم منظوری کے لیے قرار داد پیش کی ہے اور مجھے انہیں پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ تقریباً 16ہزار لوگوں کو نوکریوں سے نکالا گیا ہے تو ان کے لیے اپوزیشن نے مل کر ایک مشترکہ قرارداد تیار کی ہے۔

مزید پڑھیں: اقتصادی رابطہ کمیٹی کی اسٹیل ملز کے 9 ہزار 350 ملازمین فارغ کرنے کی منظوری

ان کا کہنا تھا کہ حکومت سمیت تمام اپوزیشن نے اس قرارداد کو سپورٹ کیا ہے، میں شکر گزار ہوں کہ حکومت نے اس کو سپورٹ کیا اور ایوان سے ان 16ہزار ملازمین کو پیغام جائے گا کہ ہم نے اکٹھا ان کی نوکری کے تحفظ کی بات کی ہے۔

اس موقع پر وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ملازمین کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد وزیر اعظم نے اس معاملے میں ذاتی دلچسپی لی، ہم نے اپوزیشن کے ساتھ اس معاملے پر دو ملاقاتیں کی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے برطرف ملازمین (بحالی ) آرڈیننس ایکٹ 2010 کو کالعدم قرار دے دیا

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے اس معاملے پر کمیٹی بنائی ہے اور انہوں نے پرویز اور میرے ذمے یہ کام لگایا، ہم نے اٹارنی جنرل کو بھی بلایا جنہوں نے اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کیا اور وزیر اعظم نے ہمیں کہا کہ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کریں۔

دوران اجلاس سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے کہا کہ عدالت کی جانب سے ملازمین کے حوالے سے فیصلہ آ چکا ہے اور فیصلے پر بات کی جا سکتی ہے، یہ اپوزیشن کی طرف سے ایک مشترکہ قرارداد آ رہی ہے اور اس طرح کے عوامی مسائل پر پارلیمنٹ میں بحث کرنا قانون اور آئین کے عین مطابق ہے۔

انہوں نے اسپیکر سے درخواست کی کہ آپ اس حوالے سے قرارداد سن لیں اور اگر اس حوالے سے کوئی قابل اعتراض چیز ہے تو روک دیجیے گا لیکن کم از کم ہمیں ان 16ہزار خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار کرنے دیں۔

ملازمین کو برطرف کردینا بہت ناانصافی ہے، خواجہ آصف

اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جن ملازمین کو برطرف کیا گیا ان میں سے اکثر اپنی نوکری کے اختتام پر پہنچ چکے تھے، اگر ان کے آجر ملازمین سے گولڈن ہینڈ شیک اور ریٹائرمنٹ کے فوائد جیسا انتظام کر لیں تو ان سے سیٹلمنٹ ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام لوگ 90 کی دہائی سے خدمات انجام دے رہے تھے اور ان کو ایک ہی جھٹکے میں ملازمت سے برطرف کردیا گیا، یہ ایک انسانی ہمدردی کا مسئلہ ہے، ہم عوام کے نمائندے ہیں اور اگر ہم اس معاملے کو اس لیے نہیں اٹھائیں گے کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے تو یہ نامناسب ہو گا۔

مزید پڑھیں: ملازمین کی برطرفی کا معاملہ، پی آئی اے کی معاونت کیلئے کمیٹی قائم

انہوں نے کہا کہ اس دور میں ملازمین کو برطرف کردینا بہت ناانصافی ہے اور اسی ایوان میں ایگری کلچر ریسورس کونسل کے 269 ملازمین کو ہم نے بحال کیا ہے تو ایوان سے پیغام جانا چاہیے کہ ہم عوامی مسائل پر حساس ہیں اور ہم عوام کو بچانے کے لیے آ رہے ہیں۔

دوران اجلاس وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ میں حیران ہوں، لگتا ہے کہ ان کو کوئی احساس نہیں کیونکہ ان کی حکومت نے ان لوگوں کو نکالا تھا اور آج انہیں ہمدردی ہو گئی ہے، اب تو سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ملازمین کو دوبارہ بحال کیا تو سپریم کورٹ نے ایکشن لیا، پہلی دفعہ انہوں نے نکالا، آج سے ہمدردی جتا رہے ہیں، انہیں اس وقت ہمدردی نہیں آئی جب انہوں نے ان لوگوں کو نکالا تھا، خواجہ آصف کچھ تو شرم و حیا کریں۔

کہاں ہیں وہ ایک کروڑ نوکریاں؟ شہباز شریف

اس کے بعد اسپیکر نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو اظہار خیال کرنے کا کہا تو شیریں مزاری اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں خصوصاً خواجہ آصف کے درمیان نوک جھونک ہوئی۔

اس موقع پر اپوزیشن لیڈر شہباز نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے سے ہزاروں لوگوں کو ملازمت سے فارغ کر کے گھر بٹھا دیا گیا تو کیا وہ ہم نے کیا؟ اسٹیل مل سے ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کیا ہے تو کیا وہ ہم نے کیا ہے؟

یہ بھی پڑھیں: کراچی: پاکستان اسٹیل ملز سے 4 ہزار 544 ملازمین برطرف

انہوں نے کہا کہ اس وقت پورے پاکستان میں لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کردیا گیا ہے، ان تین سالوں میں 50 لاکھ لوگ روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، کہاں گئیں وہ ایک کروڑ نوکریاں، وہ تو بہت دور کی بات ہے اور آج غریب کے گھر میں چولہا ٹھنڈا ہو چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمیں کس منہ سے طعنہ دے رہے ہیں، پاکستان کی معیشت کا بٹہ بیٹھ چکا ہے، بجٹ میں وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ ہم کوئی نیا ٹیکس نہیں لگائیں گے لیکن اس وقت بجلی، پیٹرول، تیل کی قیمت کہاں جا پہنچنی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں اس سے زیادہ مہنگائی کا طوفان کبھی نہیں آیا لہٰذا یہ بات کریں تو اپنے گریبان میں جھانک لیں۔

ملازمین کو برطرف کیا گیا تو مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی، علی محمد خان

اس مرحلے پر علی محمد خان نے کہا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے، 2017 میں جب ان ملازمین کو برطرف کیا گیا تو مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی لیکن شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو مجھے یقین ہے کہ انہیں ان ملازمین کی برطرفی کا افسوس ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب ہم نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان ان 16ہزار ملازمین کے حق میں فیصلہ کرے گی۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے کے 28 ملازمین مختلف الزامات پر برطرف

انہوں نے کہا کہ میری درخواست ہے کہ اس مسئلے کو سیاسی نہ بنایا جائے، اپوزیشن نے اپنے جذبات کا اظہار کردیا ہے اور جو آپ کے جذبات ہیں وہی حکومت کے بھی ہیں لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک قانونی طریقہ کار ہے۔

قائم مقام اسپیکر نے اسامہ قادری کو بات کرنے کی اجازت دی لیکن پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے شازیہ مری کو بات کرنے کی اجازت نہ دینے پر احتجاج کیا۔

اس مرحلے پر پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر پٹیل نے کورم کی نشاندہی کردی جس کے بعد ایوان کا اجلاس 22 ستمبر کو شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

’دکان پر بیٹھنے کا ڈر تھا، لیکن پھر کسی نے ’صحافت‘ کی راہ دکھا دی‘

’کہیں کرکٹ دیکھنے والے شائقین ہی کرکٹ سے دُور نہ ہوجائیں!‘

’فحش فلمیں‘ بنانے کا کیس: شلپا شیٹی کے شوہر جیل سے رہا