نقطہ نظر

مالیاتی خدمات میں موجود صنفی فرق کو کیسے کم کیا جائے؟

جون 2020ء تک ملک میں خواتین کے کل اکاؤنٹس کی تعداد صرف ایک کروڑ 86 لاکھ تھی جو بالغ خواتین کی آبادی کا تقریباً 18 فیصد بنتا ہے۔

فنون اور صحافت کے شعبوں میں بھی ایک طویل عرصے سے یہ بحث جاری ہے کہ آیا صارفین کو آگہی دی جائے یا پھر وہ جو چیز پسند کرتے ہیں انہیں وہی چیز فراہم کی جائے اور ان کے رجحانات کو مزید مضبوط کردیا جائے۔

آپ سوچیے کہ کس طرح مصالحہ فلموں (یا پاکستانی ڈراموں) کے ہدایت کار اپنے لگے بندھے طرزِ عمل کا جواز پیش کرتے ہیں۔ وہ اکثر یہ دلیل دیتے ہیں کہ عوام میں اسی چیز کی طلب ہے۔ نتیجتاً سب ایک ہی طرح کا مواد پیش کرتے ہیں اور یوں وقت کے ساتھ ساتھ دیکھنے والوں کا ذوق مزید گرجاتا ہے۔ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں اور ایلگورتھمز کے ساتھ ان کے جنون کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید واضح ہوگیا اور معاشرے میں تقسیم کی وجہ بنا۔

کچھ ایسا ہی پاکستان میں مالیاتی خدمات کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔ ذرا سوچیے کہ یہاں اکثر لوگوں کے پاس بس ایک کرنٹ یا بچت اکاؤنٹ ہی ہے اور یہ بالکل بنیادی چیز ہے۔ یہاں قرض لینا تو چھوڑیے کریڈٹ کارڈ کا حصول بھی ایک مشکل کام ہے۔ اس کے باوجود کچھ سالوں بعد اسٹیٹ بینک میدان میں آتا ہے اور پہلے سے موجود سادہ اکاؤنٹس کی مزید سادہ صورت متعارف کروا دیتا ہے۔ تاہم اس کی نیت اچھی ہوتی ہے اور اسٹیٹ بینک کا مقصد مالیاتی اداروں کو درست سمت میں چلانا ہوتا ہے۔ لیکن یہ کوشش بینکنگ کے معیار کو مزید نیچے لے جاتی ہے جو چند یادداشتوں اور ستائشی پیغامات پر معاملات نمٹا دیتے ہیں۔

کچھ عرصے تک (اور شاید کسی حد تب اب بھی) اسٹیٹ بینک نے خواتین کو مالیاتی شمولیت کے جال میں لانے کے لیے آسان اکاؤنٹس متعارف کروانے کے منصوبے پر عمل کیا۔ تاہم یہ منصوبہ خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکا اور اب اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایک سے زیادہ جامع پالیسی اپنائی گئی ہے۔ گزشتہ جمعے کو اسٹیٹ بینک نے Equality Policy: To Reduce the Gender Gap in Financial Inclusion جاری کی ہے۔

اس کا آغاز مسئلے کی سنگینی بیان کرنے سے ہوا ہے۔ فنڈیکس (Findex) کے مطابق 2014ء میں پاکستان میں جو صنفی فرق 12 فیصد تھا وہ 2017ء میں بڑھ کر 28 فیصد ہوگیا۔ یوں ہم جنوبی ایشیا میں سب سے بُری کارکردگی دکھانے والے ممالک میں سے ایک بن گئے ہیں۔ گزشتہ 3 سالوں میں ملک میں 55 لاکھ نئے اکاؤنٹ کھلے ہیں تاہم جون 2020ء تک ملک میں خواتین کے کل اکاؤنٹس کی تعداد صرف ایک کروڑ 86 لاکھ تھی جو بالغ خواتین کی آبادی کا تقریباً 18 فیصد بنتا ہے۔

36 صفحات پر مشتمل اس دستاویز میں مالیاتی خدمات میں خواتین کی شمولیت بڑھانے کے لیے 5 پہلوؤں پر توجہ دینے کی بات کی گئی ہے۔

ان میں سے پہلی چیز مالیاتی اداروں میں صنفی تنوع ہے۔ اس کے مطابق مالیاتی اداروں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ 2024ء تک اپنے اداروں میں خواتین کی نمائندگی 20 فیصد کرنے کے لیے 6 ماہ کے اندر منصوبے تیار کریں۔ اس کے علاوہ وہ ایک سب کمیٹی اور فوکل پرسن کو بھی نامزد کریں جو جائزے کے لیے سہ ماہی بنیادوں پر اسٹیٹ بینک سے ملاقات کرے۔

اس چیز کا اطلاق برانچ لیس بینکنگ پر بھی ہوگا جس میں اس وقت خواتین کی نمائندگی صرف ایک فیصد ہے۔ اسٹیٹ بینک کے منصوبے میں اسے دسمبر 2022ء تک 4 فیصد اور 2024ء کے اختتام تک 10 فیصد پر لانا شامل ہے۔

دوسرا پہلو ایسے اہداف اور خدمات ہیں جن میں خواتین کو مرکزیت حاصل ہو۔ اس میں قرضوں اور بچت کے حوالے سے خصوصی اہداف کی تیاری اور ان خدمات کو صنفی پہلو سے دیکھنے کی بات کی گئی ہے۔

منصوبے کا ایک حصہ خواتین پر مبنی مارکیٹنگ ٹیم تشکیل دینا بھی ہے جو مالیاتی آگہی کے فروغ کے لیے کام کرے اور جس میں انفلوئنسرز اور مذہبی اسکالرز کو بھی شامل کیا جاسکے۔

دستاویز میں احساس پروگرام جیسے دیگر اداروں کے ساتھ شراکت کی بھی بات کی گئی ہے جس میں پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کو نقد رقم کی فراہمی کے بجائے مزید بہتر ذرائع کی جانب لایا جائے۔ آخر میں اس دستاویز میں قرض کی فراہمی اور اس کے لیے ہونے والے دستاویزی عمل کو آسان بنانے کی بات کی گئی ہے۔

اس دستاویز میں اس بات کو بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ خواتین بینک کی برانچوں میں جانے سے کتراتی ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے تمام کسٹمر ٹچ پوائنٹس پر ویمن چیمپئنز کی موجودگی کی تجویز دی گئی ہے۔

یہ ویمن چیمپئنز مالیاتی خدمات کی معلومات، غیر مالیاتی مشاورت اور شکایات کے حل کے لیے کام کریں گے۔ فی الحال بینک اپنے موجودہ مرد، خواتین اور مخنث اسٹاف کو صنفی حساسیت کے حوالے سے تربیت دے سکتے ہیں لیکن اگلے 3 سال میں کم از کم 75 فیصد خواتین چیمپئنز کا ہونا ضروری ہوگا اور اس مقصد کے حصول کے لیے وقت بھی مقرر کیا جائے گا۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ اب شاید اسٹیٹ بینک کو بھی اس چیز کا احساس ہوگیا ہے کہ صرف باتیں کرنے اور مالیاتی خدمات میں برابری پر سیمینارز کروانے سے مارکیٹنگ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے بلآخر مالیاتی اداروں کو کہا گیا ہے کہ وہ ’سہ ماہی بنیادوں پر صنفی تفریق پر اعداد و شمار جمع کریں اور اسے اسٹیٹ بینک میں جمع کروائیں تاکہ وہ بینک اکاؤنٹس، قرضوں کی طلب، ادائیگیوں، زرعی ادائیگیوں، اسلامک فنانس وغیرہ میں خواتین کی شراکت کے حوالے سے مستعد رہیں‘۔

یہ ایک اچھا آغاز ضرور ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کوئی بھی، یہاں تک کہ بینکنگ لائسنس رکھنے والی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی اس پر عمل درآمد ممکن نہیں بنا سکتیں۔ اور اس کام کے لیے ایک جامع پالیسی کی ضرورت ہے۔

اسٹیٹ بینک کا منصوبہ ہے کہ کم از کم صنفی معیارات متعارف کروائے جائیں۔ ان معیارات کے حصول پر مالیاتی ادارے کو پاکستان بینکرز ایسوسی ایشن کی جانب سے ’ویمن فرینڈلی‘ ہونے کا سرٹیفیکیٹ ملے گا۔ کچھ اور نہ صحیح تو کم ازکم خود کو یہ دیکھنے کے لیے تیار کرلیجیے کہ کس طرح بینک یہ کم از کم معیار حاصل کرکے اخبارات کے اشتہار اور سوشل میڈیا پوسٹوں سے خود کو شاباشی دیتے ہیں۔

ان پہلوؤں میں سے آخری پہلو صنف اور مالیات کے حوالے سے ایک پالیسی فورم کی تشکیل ہے۔ یہ فورم سال میں کم از کم 2 مرتبہ ملاقات کرے گا جس کا مقصد موجودہ فریم ورک کا جائزہ لینا اور اس میں بہتری کے لیے تجاویز دینا ہوگا۔

اسی دوران یہ امید بھی رکھی جارہی ہے کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن بھی غیر مالیاتی شعبے کے لیے ایک روڈ میپ متعارف کروائے گا۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک اپنے لیے بھی یہی معیار لاگو کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ اس دستاویز میں ادارے کے اندر خواتین کی خدمات حاصل کرنے، انہیں برقرار رکھنے اور انہیں ترقی دینے کا ذکر کیا گیا ہے۔

ظاہر ہے کہ پاکستان میں موجود کسی سروس گیپ کے حوالے سے یہ کوئی پہلی پالیسی نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مک کینسی (McKinsey) اور دیگر ترقیاتی ادارے ہر سال ایک کے بعد دوسرے مسئلے پر جامع دستاویزات جاری کرتے رہتے ہیں لیکن زمینی حالات میں کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آتی۔ ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ اس پالیسی کا انجام بھی اسی طرح نہ ہو۔


یہ مضمون 20 ستمبر 2021ء کو ڈان اخبار کے دی بزنس اینڈ فنانس ویکلی میں شائع ہوا۔

مطاہر خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔