نقطہ نظر

صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ٹیکس قوانین کا نفاذ ملک کے لیے خطرناک کیوں؟

ٹیکسوں کے حوالے سے حکومت نے جو آرڈیننس جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے وہ کسی طور بھی جمہوری رویہ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔

جدید ریاستی نظام میں ٹیکس جمع کرنا ریاست کی پہلی اور سب سے اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ جو ریاست ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہتی ہے وہ زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ پاتی۔ مگر ٹیکس دینا کبھی بھی عوام میں مقبول عمل نہیں رہا اور اسی ٹیکس نے عوام کو بغاوتوں پر ایسا اکسایا کہ مضبوط سے مضبوط ریاستیں بھی کمزور پڑگئیں۔

ان دنوں ارطغرل ڈرامے کا 5واں سیزن پی ٹی وی پر نشر ہورہا ہے جس میں منگولوں کا سلجوق سلطنت پر عائد کردہ محصول عوامی بغاوت کا سبب بنتا نظر آتا ہے۔

برِصغیر نے سابقہ برطانوی نوآبادیات سے آزادی کے بعد بھی برطانوی سیاسی نظام کو اپنایا ہوا ہے۔ مگر برطانوی نظام کو موجودہ سطح پر پہنچنے کے لیے تاریخ کے کئی مراحل سے گزرنا پڑا تھا جن میں بادشاہ کی جانب سے عائد کردہ ٹیکس عوامی بغاوتوں اور خانہ جنگی کا سبب بنے۔

برطانیہ میں ٹیکس وصولی کی حد تو اس وقت ہوئی جب بادشاہ نے گھروں کی کھڑکیوں پر بھی محصول عائد کردیا۔ آج بھی برطانیہ کی پرانی عمارتوں میں ایسی کھڑکیاں ملتی ہیں جن کو ٹیکس ادا نہ کرنے کے پر بند کردیا گیا تھا۔

امریکا کی برطانوی راج سے لڑائی بھی دراصل ٹیکس کی وجہ سے تھی۔ برطانیہ نے پارلیمنٹ سے 1765ء میں اسٹیمپ ایکٹ منظور کیا جس کا مقصد اخبارات کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو کم کرنا اور انہیں مہنگا کرکے عوام کی پہنچ سے دُور رکھنا تھا۔ اس قانون کے خلاف برطانوی راج کے ماتحت امریکا میں شدید احتجاج ہوا اور ایک قانون دان سیموئل ایڈمز نے یہ تاریخی جملہ ادا کیا:

'ہماری نمائندگی کے بغیر برٹش کوئی ٹیکس عائد نہیں کرسکتا۔'

بعدازاں 1773ء میں برطانوی حکومت کی جانب سے بوسٹن میں چائے پر ٹیکس عائد کیا گیا جس کے نتیجے میں ٹی پارٹی موومنٹ نے جنم لیا اور ٹیکسوں کے خلاف اٹھائی جانے والی آوازیں ہی امریکا میں ایک بڑی بغاوت اور برطانیہ سے ایک بڑی جنگ کا سبب بنیں جس کو 'انقلابی جنگ (83ء-1775ء)' قرار دیا گیا۔

فرانس نے امریکی نوآبادیات کی معاونت کی اور دباؤ میں آکر برطانوی دستوں نے ہتھیار ڈالنے شروع کردیے اور امریکا نے آزادی حاصل کرلی۔

برطانوی نوآبادیاتی دور میں برِصغیر کو ٹیکسوں اور محصولات کے نام پر بہت لوٹا گیا۔ اس حوالے سے عامر خان کی فلم لگان تو سب کے ذہنوں میں ہوگی۔ بنگال میں ململ بنانے والوں کے انگوٹھے کاٹنے کے ساتھ ساتھ ان پر اتنا ٹیکس عائد کیا کہ وہ فن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا۔ مگر برِصغیر کے برطانوی ٹیکسوں کے خلاف کئی تحاریک نے جنم لیا جس میں سے اکثر مقامی سطح پر ہی ختم ہوگئیں۔

نمک پر ٹیکس اور دیگر محصولات عائد کیے جانے کے خلاف پورے ہندوستان میں سیاسی مہم چلی اور پھر برطانوی نوآبادیات سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے یہی تحریکیں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر منظم کرنے اور تحریکِ پاکستان کا سبب بن گئیں۔

جیسا کہ میں اس تحریر کے شروع میں کہہ چکا ہوں کہ کسی بھی ریاست کا پہلا کام ٹیکس جمع کرنا اور ان ٹیکسوں کی بنیاد پر نظامِ مملکت کو مرتب کرنا ہے۔ مگر اس کے لیے ایک نظام وضح ہے۔ ٹیکس عائد کرنے کا حق عوامی نمائندوں کو ہے اور وہی ٹیکس کو عائد کرسکتے ہیں۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی جمہوری نظام رائج ہے وہاں ٹیکس کسی حکم نامے کے ذریعے عائد نہیں کیا جاتا۔

پاکستان میں بھی ٹیکس عائد کرنے کا حق برطانوی پارلیمنٹ کی طرح ایوانِ زیریں کو ہے اور وہ ہر سال بجٹ کے ساتھ فنانس بل منظور کرکے اس بات کا تعین کرتا ہے کہ آئندہ مالی سال کس قسم کے ٹیکس عائد کیے جائیں گے اور ان ٹیکسوں کی وصولی کے لیے اداروں کے کیا اختیارات ہوں گے۔ مگر اس سال شوکت ترین کے وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھالتے ہی معیشت میں جو جھرلو پھیرا گیا اس کا پہلا شکار مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی ہوئی جس پر میں پہلے ہی ایک مفصل تحریر لکھ چکا ہوں۔

گزشتہ 10 سال کی اپنی روایت کے مطابق میں نے اس سال بھی شوکت ترین کی بجٹ تقریر کراچی ایوانِ تجارت وصنعت کے تاجروں کے ساتھ سُنی۔ گزشتہ پیش کیے جانے والے بجٹ میں مراعات کے اعلانات کے باوجود کراچی ایوانِ تجارت و صنعت بجٹ کو مسترد کردیتا تھا مگر اس مرتبہ شوکت ترین نے ایسی جادوئی تقریر فرمائی کہ انہوں نے فوری بجٹ کو منظور کرلیا۔

جب دفتر پہنچا تو ہمارے دوست فواد احمد بجٹ ٹرانسمیشن کے لیے اسٹوڈیو کی جانب بڑھ رہے تھے۔ انہوں نے پوچھا ’راجہ صاحب یہ کیا ہوا؟‘ میں نے جواباً کہا کہ یہ جھرلو بجٹ ہے۔ تفصیل سامنے آنے دیں منی بجٹ ضرور آئے گا کیونکہ جو بجٹ کے وعدے ہیں وہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔ ان اعداد و شمار پر ملک چلایا نہیں جاسکتا۔

بجٹ میں ایسی ایسی مراعات کا اعلان کیا گیا جن کو سُن کر کانوں کو یقین نہیں آتا تھا اور بطور صحافی طویل عرصے سے بجٹ اور حکومتی مالیات کو رپورٹ کرنے کے تجربے کی بنیاد پر یہ محسوس ہوتا تھا کہ منی بجٹ تو ضرور آئے گا۔

بس پھر وہی ہوا اور حکومت نے منی بجٹ پیش کردیا مگر اس کے لیے پارلیمنٹ کے بجائے صدارتی یا 'شاہی حکم نامے' کا سہارا لیا۔ صدارتی آرڈیننس کی تفصیلات پڑھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ایسے سخت قوانین کو پارلیمنٹ سے منظور کروانا تقریباً ناممکن تھا۔ مگر اس صدارتی آرڈیننس میں ایسے راستے ہموار کیے گئے جن کے ذریعے مخصوص مقدمات کو کھولا جاسکے گا اور مخصوص پیشوں سے وابستہ افراد کو قابو میں کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

صدر عارف علوی نے اب ٹیکس گزاروں کو نیب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ نیب کا قیام بظاہر سرکاری اداروں میں کرپشن کے خاتمے کے لیے کیا گیا تھا مگر اس پر اب سیاسی انجینیئرنگ کی چھاپ لگائی جاتی ہے۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ آرڈینینس کے نافذالعمل ہونے پر اگر کوئی بھی فرد حکومت یا نیب پر تنقید کرے گا تو اسے ٹیکس گوشواروں کے ذریعے ہراساں کرنے کا عمل شروع ہوجائے گا۔

اس کا احوال ملک کے ایک بڑے صنعتی خاندان کے افراد نے کچھ اس طرح سنایا کہ نیب پشاور نے جمعے کو انہیں نوٹس دے کر طلب کیا اور انہیں گرفتار کرکے کہا کہ پلی بارگین پر دستخط کرو اور ابتدائی چیک کی ادائیگی کے بعد جانے دیا جائے گا۔ ان افراد کو وکیل تک رسائی بھی حاصل نہیں تھی۔ انہوں نے مجبوراً پلی بارگین پر دستخط کیے اور بعدازاں پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرکے قانونی تحفظ حاصل کیا۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے سابق صدر زبیر طفیل کا کہنا تھا کہ سال 2020ء کی آخری سہ ماہی میں ان کی قیادت میں تاجروں اور صنعت کاروں نے چیئرمین نیب سے ملاقات کرکے کہا تھا کہ نیب کا کام سرکاری کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے۔ وہ ٹیکس کے معاملات میں مداخلت نہ کرے جس پر نیب نے انکم اور سیلز ٹیکس سے متعلق سیکڑوں مقدمات نیب سے ایف بی آر کو منتقل کردیے تھے۔

اس تیسرے صدارتی آرڈیننس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو مقدمات 20 سال قبل بند ہوچکے ہیں، اب ان پر بھی تحقیقات کی جاسکے گی۔ اس حکومتی فیصلے کی وجہ سے ٹیکس گزاروں میں بہت خوف پایا جاتا ہے۔ زبیر طفیل کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کا قانون کہتا ہے کہ صرف 6 سال کا ریکارڈ قائم رکھا جائے ایسے میں نیب کو 20 سال پُرانے ٹیکس مقدمات کا اختیار دینا سمجھ سے باہر ہے۔

ویسے یہ بات درست بھی ہے کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ 20 سال قبل لین دین کا کوئی عمل غیر قانونی قرار نہیں دیا گیا ہو، مگر اب وہی عمل موجودہ قانون کے مطابق غیر قانونی ثابت ہوتا ہے تو پھر کس طرح 2 دہائی قبل کے معاملے کو موجودہ قانون پر پرکھا جاسکتا ہے؟

لگتا ہے کہ یہ قانون سیاسی انتقامی کارروائی کا ایک اور ہتھیار بن جائے گا۔ یہ بھی واضح رہے کہ اگر 20 سال پُرانے مقدمے کھولے گئے تو کسی بھی ادارے کے لیے اس سے متعلق ریکارڈ پیش کرنا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ ایف بی آر قانون کے تحت ٹیکس ریکارڈ 6 سال تک محفوظ رکھنا لازمی ہے۔

علاوہ ازیں، اب نیب کو بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ٹیکس دہندگان سے متعلق ڈیٹا تک رسائی بھی فراہم کردی گئی ہے۔ اب اگر نیب نے بین الاقوامی سطح پر ڈیٹا کو استعمال کرنے کا عمل شروع کیا تو خدشہ ہے کہ جس طرح جرمانے کی ادائیگی لندن میں کی گئی ہے ایسے کئی معاملات پر جرمانے ادا نہ کرنے پڑجائیں اور پاکستان کو لینے کے بجائے دینے پڑجائیں۔

بہتر تو یہ تھا کہ جس طرح بے نامی قانون کے تحت ایف بی آر میں بے نامی زون بنایا گیا ہے اسی طرح اس ڈیٹا کا تجزیہ کرنے اور اس پر قانون کے مطابق عمل کروانے کے لیے ایف بی آر میں الگ سے زون یا سیل قائم کیا جاتا، بجائے اس کے کہ ڈیٹا تک نیب کو رسائی دی جاتی کیونکہ اس عمل کی لپیٹ میں بہت سے چھوٹے چھوٹے فری لانسرز اور یوٹیوبرز بھی آسکتے ہیں کیونکہ اگر ان کی کوئی بھی ویڈیو امریکا میں دیکھی گئی ہو تو اس پر امریکا میں ٹیکس عائد کیا جائے گا اور انہیں اس ٹیکس کی تفصیل دی جائے گی۔ اس آرڈیننس میں نیب کی اس صلاحیت کا ذکر نہیں کیا گیا جس کے تحت وہ اس ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔

اس آرڈیننس میں حکومت نے پارلیمانی ممبران کے ساتھ ساتھ اب سرکاری افسران کو بھی اپنے ٹیکس گوشوارے ظاہر کرنے کا حکم دے دیا ہے لہٰذا اب سرکاری افسران کو اپنے اثاثے ظاہر کرنا پڑیں گے۔ قانون کی اس شق پر ٹیکس ماہر آصف ماجد علی کا کہنا ہے کہ سیاستدانوں کے ٹیکس گوشوارے تو پہلے ہی ظاہر ہوتے ہیں اور اب حکومت افسران کو بھی اسی چھنی سے چھاننے کی خواہاں ہے۔

ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے والوں کے موبائل فون اور ٹیلی فون کی بندش، یوٹیلیٹی کنیکشن کے کاٹے جانے اور بینک سہولت ختم کرنے کا اعلان بہتر ہے جبکہ ٹیکس ادا نہ کرنے والے پروفیشنلز کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کے اقدامات قابلِ تحسین ہوسکتے ہیں۔ مگر جو طریقہ کار اپنا گیا ہے وہ میری نظر میں درست نہیں ہے۔

ٹیکسوں کے حوالے سے حکومت نے جو آرڈیننس جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے وہ جمہوری رویہ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اگر حکومت کو یہ سخت قوانین لانے تھے تو ان کو جون میں بجٹ پیش کیے جانے کے وقت سامنے لانے چاہیے تھے مگر غالباً ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ اس وقت تمام چینلز خصوصی ٹرانسمیشن کررہے ہوتے ہیں اور بجٹ اور فنانس بل کی ایک ایک شق پر ان چینلز کی گہری نظر ہوتی ہے اس لیے چند ماہ بعد صدارتی آرڈیننس جاری کرکے یہ کام کیا گیا ہے۔

پارلیمنٹ کے فورم کو نظرانداز کرنا اور عوامی نمائندوں کو ٹیکس کے حوالے سے رائے کا اظہار کرنے اور قانون پر غور کرنے کا موقع نہ دینا کسی طور پر بھی جمہوری رویہ نہیں ہے۔ منتخب نمائندوں کی شمولیت اور ان کے احساسِ ملکیت کے بغیر قانون اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں۔ اس انداز میں ٹیکس کا نفاذ ملک میں بے چینی کا سبب بن سکتا ہے۔ عوام پہلے ہی معاشی حالات کی وجہ سے پریشان ہیں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی پر سخت گیر ٹیکس قوانین جلتی پر تیل کا کام کرسکتے ہیں۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔