امریکی صحافی گلین بیک افغانستان سے انخلا میں مدد کرنے پر وزیراعظم عمران خان کے معترف
امریکا کے سیاسی کمنٹیٹر، ریڈیو اور ٹی وی میزبان گلین بیک، جن کی فلاحی تنظیم طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان سے انخلا میں معاونت کررہی ہے، نے ان کا ساتھ دینے اور خواتین فٹ بالرز سمیت ہزاروں افراد کو جنگ زدہ ملک سے نکالنے میں مدد فراہم کرنے پر وزیراعظم عمران خان کے اقدامات کی تعریف کی ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں گلین بیک نے کہا کہ وہ ریڈیو پر اپنے اور وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ہونے والی خط و کتابت کی تفصیلات شیئر کریں گے اور انہوں نے وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کا بھی شکریہ ادا کیا۔
گلین بیک نے کہا کہ ’ہم نے دنیا بھر کے متعدد رہنماؤں اور سول سوسائٹیز سے مدد کے لیے رابطہ کیا اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے عزم اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا’۔
رواں ماہ کے اوائل میں امریکی ہفتہ وار میگزین، نیوز ویک نے رپورٹ کیا تھا کہ ’گلین بیک کے خیراتی ادارے مرکری ون کے 6 طیارے کم از کم ایک ہزار لوگوں کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں جن میں 100 سے زیادہ امریکی بھی شامل ہیں، کو طالبان نے مزار شریف میں گراؤنڈ کرلیا ہے’۔
مزید پڑھیں: افغان انخلا کے دوران نیٹو اور اس سے متعلقہ 10ہزار سے زائد افراد پاکستان آئے، وفاقی وزیر اطلاعات
گلین بیک نے جاری بیان میں کہا کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی قیادت میں پاکستان کے فوجی اور سویلین وسائل کی مدد سے اور ’طالبان کے ساتھ تعاون کرنے کی ان کی صلاحیت کی مدد سے فیفا (انٹرنیشنل فیڈریشن آف ایسوسی ایشن فٹبال) کی خواتین ایتھلیٹس اور ان کے اہلخانہ پر مشتمل پہلی 2 پروازیں، مزار شریف سے روانہ ہوسکیں‘۔
ایک علیحدہ ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی قیادت نے مجموعی طور پر تین پروازوں کی روانگی میں مدد کی۔
وزیر اعظم کی تعریف کرتے ہوئے گلین بیک نے کہا کہ ’وزیر اعظم عمران کی انسانیت کو سیاست سے پہلے رکھنے کی قیادت، عقائد کے درمیان بین المذاہب تعاون کی ایک عظیم مثال ہے، جو انسانی ہمدردی کی مشترکہ قدر پر مبنی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ‘امریکی میڈیا کے بعض حلقوں کی حالیہ تنقید کے باوجود پاکستان ایک مرتبہ پھر امریکا کے لیے ایک سچا اور قابل قدر شراکت دار ثابت ہوا ہے‘۔
گلین بیک نے لکھا کہ ہم آنے والے ہفتوں میں مزید تعاون کے منتظر ہیں کیونکہ ہم اس انسانی بحران کے دوران بے گناہ افراد کی حفاظت کے اپنے مشترکہ ہدف کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے انخلا میں سہولت کاری پر یورپی کونسل کے سربراہ پاکستان کے شکر گزار
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کو اس موقع پر پاکستان کی معاونت کو تسلیم کرنا چاہیے، ہم اس تعاون کو فراموش نہیں کریں گے جنہوں نے کسی وقفے یا ردعمل کے بغیر مدد کی جس کی وجہ سے امریکا اور اس کے اتحادی اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے قابل ہوسکے’۔
امریکی میزبان نے کہا کہ ’ہم نے دیگر کوئی عالمی رہنما نہیں دیکھا، جس نے انسانیت کو سیاست سے اوپر رکھتے ہوئے معصوم افراد کو بچانے کے لیے اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسا قدم اٹھایا ہو’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ان کا انداز بہت مہربان رہا ہے اور انہوں نے ایک مرتبہ بھی ہمارے مقاصد پر سوال نہیں اٹھایا‘۔
گلین بیک نے کہا کہ ’گزشتہ چند روز میں ان (وزیراعظم عمران خان) پر تنقید کے لیے میڈیا اداروں کا اپنا ایجنڈا ہوسکتا ہے لیکن اس ہفتے کے اختتام پر انہوں نے جن جانوں کو بچانے میں مدد کی، اسے تسلیم کیا جانا چاہیے’۔
امریکی صحافی کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’وزیراعظم عمران خان کو ایسے شخص نے خراج تحسین پیش کیا ہے جس سے پاکستانی قیادت کے بارے میں اچھی باتیں کہنے کی توقع نہیں تھی‘۔
اسد عمر نے کہا کہ ’ایک دہائی سے وزیراعظم کے قریب کام کرتے ہوئے میں نے دیکھا ہے کہ ان کے تمام فیصلے ان کی مشکل حالات کا شکار افراد سے ہمدردی اور امن کی خواہش پر مبنی ہوتے ہیں۔
خیال رہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے پاکستان، انخلا کی کوششوں میں آسانی فراہم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔
مزید پڑھیں: دنیا افغانستان کے مشکل وقت میں پاکستان کے کردار کی معترف ہے، وزیر خارجہ
اسی سلسلے میں ایک حالیہ پیش رفت میں حکومت کی جانب سے افغانستان سے انخلا کے لیے ہنگامی طور پر انسانی بنیادوں پر ویزے جاری کرنے کے بعد نیشنل جونیئر گرلز ٹیم سے تعلق رکھنے والے افغان فٹبالرز اور ان کے خاندانوں کو طورخم بارڈر پار کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
قبل ازیں پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ جب سے طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا ہے، پاکستان عالمی برادری کے ساتھ رابطے میں مصروف ہے اور اس مصروفیت کا زیادہ تر حصہ غیر ملکیوں اور کمزور افغانوں کے انخلا پر مرکوز ہے۔
2 ستمبر کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک تقریباً 12 ہزار افراد کو پاکستان کی مدد سے افغانستان سے نکالا جا چکا تھا۔