صحت

کورونا وائرس دماغ پر کس طرح کے اثرات مرتب کرتا ہے؟ وہ سب جو اب تک معلوم ہوچکا ہے

متعدد مریضوں میں دماغی مسائل بیماری کو شکست دینے کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی برقرار رہتے ہیں۔
|

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ نوول کورونا وائرس پھپھڑوں کو متاثر کرتا ہے مگر اب مختلف رپورٹس میں یہ بات سامنے آرہی ہے کہ یہ دیگر اہم اعضا کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے جن میں دماغ بھی شامل ہے۔

مگر کووڈ 19 کے دماغ پر براہ راست اثرات کے بارے میں ابھی بھی زیادہ علم نہیں ہوسکا۔

تاہم زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ متعدد مریضوں میں دماغی مسائل بیماری کو شکست دینے کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی برقرار رہتے ہیں۔

مختلف تحقیقی رپورٹس سے اب کووڈ 19 سے دماغ پر مرتب اثرات کی ایک تصویر ابھرنے لگی ہے جو کچھ زیادہ اچھی نہیں۔

ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ کووڈ سے متاثر ہونے والے کتنے افراد بتدریج طویل المعیاد اثرات سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں اور کن کو طویل عرصے تک تباہ کن نتائج کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اب تک جو تحقیقی رپورٹس سامنے آئی ہیں ان میں ذہنی اور دماغی مسائل کی درج ذیل تصویر سامنے آئی ہے۔

آئی کیو لیول میں کمی

کورونا وائرس کو شکست دینے والے متعدد افراد کو دماغی افعال میں نمایاں کمی کے خطرے کا سامنا ہوسکتا ہے۔

امپرئیل کالج لندن، کنگز کالج، کیمبرج، ساؤتھ ہیمپٹن اور شکاگو یونیورسٹی کی اس مشترکہ تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ کووڈ 19 کس حد تک ذہنی صحت اور دماغی افعال پر اثرات مرتب کرنے والی بیماری ہے۔

اس مقصد کے لیے گریٹ برٹش انٹیلی جنس ٹیسٹ کے 81 ہزار سے زیادہ افراد کے جنوری سے دسمبر 2020 کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا، جن میں سے 13 ہزار کے قریب میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔

تحقیق کے مطابق ان میں سے صرف 275 افراد نے کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل اور بعد میں ذہانت کے ٹیسٹ کو مکمل کیا تھا۔

تحقیق میں تمام تر عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے دریافت کیا گیا کہ جو لوگ کووڈ 19 کا شکار ہوئے، ان کی ذہنی کارکردگی اس بیماری سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں نمایاں حد تک کم ہوگئی۔

ذہنی افعال کی اس تنزلی سے منطق، مسائل حل کرنے، منصوبہ سازی جیسے اہم دماغی افعال زیادہ متاثر ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 سے ریکوری ممکنہ طور پر ذہانت سے متعلق افعال کے مسائل سے جڑی ہوسکتی ہے۔

تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ذہنی افعال میں تنزلی کی سطح کا انحصار بیماری کی شدت پر ہوتا ہے۔

یعنی جن مریضوں کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی، ان میں ذہنی افعال کی تنزیلی کی شرح دیگر کے مقابلے میں زیادہ تھی، درحقیقت یہ کمی اتنی زیادہ تھی کہ وہ کسی ذہانت کے ٹیسٹ میں آئی کیو لیول میں 7 پوائنٹس تک کمی کے مساوی سمجھی جاسکتی ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی لانیسٹ میں شائع ہوئے۔

آئی سی یو میں زیر علاج رہنے والے مریضوں کے لیے زیادہ خطرہ

جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ کووڈ 19 کی زیادہ شدت کا سامنا کرنے والے افراد کے ذہنی افعال زیادہ متاثر ہوئے۔

اس حوالے سے کچھ تحقیقی رپورٹس پر کام بھی ہوا جن میں سے ایک نیویارک یونیورسٹی لینگون ہیلتھ کی بھی تھی۔

اس تحقیق میں کووڈ 19 کی سنگین شدت کے باعث ہسپتالوں میں زیرعلاج رہنے والے 382 مریضوں کے ذہنی و دماغی مسائل کی اسکریننگ کی گئی تھی۔

ان میں سے 50 فیصد مریضوں نے دماغی افعال متاثر اور روزمرہ کی سرگرمیوں، چہل قدمی یا ہسپتال سے فارغ ہونے کے 6 ماہ بعد اپنا خیال نہ رکھ پانے جیسے مسائل کو رپورٹ کیا۔

جو مریض ہسپتال میں داخل ہونے سے پہلے ملازمت کرتے تھے ان میں سے 47 فیصد ہسپتال سے ڈسچارج کے 6 ماہ بعد بھی ملازمت پر لوٹ نہیں سکے۔

محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ ان مسائل کا سامنا کرنے والے کچھ مریض ایسے تھے جن میں اس طرح کے مسائل کی کوئی تاریخ نہیں تھی مگر ان کے مقابلے میں پہلے سے ذہنی مسائل کا سامنا کرنے والے افراد میں یہ خطرہ بہت زیادہ ہوسکتا ہے۔

غیر متوقع اثرات

مئی 2021 کے آغاز میں پری پرنٹ سرور medRxiv میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد کو تھکاوٹ، سانس لینے میں مشکلات، سینے میں درد، کھانسی، ذہنی تشویش، ڈپریشن اور تناؤ جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

اسی طرح یادداشت کی کمزوری اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا سامنا بھی ہوتا ہے اور اس کا سامنا کئی ہفتوں یا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے ضروری نہیں کہ معمر ہوں بلکہ 65 سال سے کم عمر مریضوں میں بھی اس کا خطرہ ہوتا ہے۔

اس تحقیق میں 57 ہزار سے زیادہ کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں پی سی آر ٹیسٹ سے وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔

لانگ کووڈ پر ہونے والی 51 تحقیقی رپورٹس کے تجزیے پر مشتمل ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والے ہر 5 میں سے ایک مریض کو ابتدائی بیماری سے صحتیابی کے 6 ماہ بعد بھی دماغی دھند کا سامنا ہوتا ہے، یعنی ذہنی الجھن، چیزیں بھولنا اور توجہ مرکوز نہ کرپانے جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

اس سے قبل مئی 2021 میں امریکا کی جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ کے مریضوں کے دماغ میں گرے میٹر (gray matter) کا حجم کم ہوسکتا ہے۔

امریکا کی جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں اٹلی کے ایک ہسپتال میں کووڈ کے مریضوں کو درپیش دماغی و اعصابی علامات کی جانچ پڑتال کے لیے ہونے والے سی ٹی اسکینز کا تجزیہ کیا گیا۔

مجموعی طور پر 120 مریضوں کے سی ٹی اسکینز کو تحقیق میں دیکھا گیا جن میں سے 58 کووڈ 19 کے مریض تھے اور دونوں گروپس کے نتائج کا موازنہ کیا گیا۔

کووڈ کے ایسے مریض جن کو آکسیجن کی تھراپی کی ضرورت پڑی ان کے گرے میٹر کا حجم کم ہوگیا۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن افراد کے گرے میٹر کے حجم میں کمی آئی ان میں ذہنی ہیجان بڑھ گیا، جس کے نتیجے میں مریضوں میں چڑچڑاپن بڑھ گیا۔

کیا کورونا دماغ کو براہ راست متاثر کرسکتا ہے؟

دسمبر 2020 میں طبی جریدے نیچر نیوروسائنسز میں شائع تحقیق میں چوہوں پر تجربات کے دوران دریافت کیا گیا کہ کورونا کے اسپائیک پروٹین، خون اور دماغ کے درمیان رکاوٹ کو عبور کرسکتا ہے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کورونا وائرس بھی دماغ میں داخل ہوسکتا ہے جو اپنے اسپائیک پروٹین جن کو ایس ون پروٹین بھی کہا جاتا ہے، کو خلیات میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

یونیورسٹی آف واشنگٹن اسکول آف میڈیسین اور پیوگیٹ ساؤنڈ ویٹرنز افیئرز ہیلتھ کیئر سسٹم کی اس مشترکہ تحقیق کی قیادت کرنے والے ولیم اے بینکس نے بتایا کہ عموماً اسپائیک پروٹین خلیات میں داخلے میں مدد دیتا ہے، مگر ایسے پروٹینز بذات خود بھی اس وقت تباہی مچاتے ہیں جب وہ وائرس سے الگ ہوتے ہیں اور ورم بھی بڑھاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایس ون پروٹین ممکنہ طور پر دماغ کو سائٹو کائینز اور ورم بڑھانے والے مالیکیولز کے اخراج پر مجبور کرتا ہے۔

مئی 2021 میں امریکا کی لوزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 دماغ کے 2 اقسام کے خلیات نیورونز اور آسٹروسائٹس کو متاثر کرسکتی ہے۔

لوزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی کی اس تحقیق کے نتائج سے اس ممکنہ وجہ کی نشاندہی ہوتی ہے جو کووڈ کو شکست دینے کے باوجود لوگوں میں طویل المعیاد دماغی و اعصابی علامات کا باعث بنتی ہے۔

کورونا وائرس انسانی خلیات سے منسلک ہونے کے لیے ایس ٹو ریسیپٹرز کو ہدف بناتا ہے، یہ ریسیپٹرز ایسے پروٹیشنز ہوتے ہیں جو متعدد اقسام کی خلیات کی سطح پر موجود ہوتے ہیں۔

اس طرح کے خلیات پھیپھڑوں، دل، گردوں اور جگر میں ہوتے ہیں، مگر اب تک یہ واضح نہیں تھا کہ ریڑھ کی ہڈی اور دماغی خلیات میں بھی کورونا وائرس کو حملہ کرنے کے لیے ریسیپٹرز کی ضرورت ہوتی ہے یا نہیں۔

اس کو جاننے کے لیے محققین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کن دماغی خلیات میں ایس ٹو ریسیپٹرز ہوتے ہیں اور اگر ہوتے ہیں تو کیا وہ وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

اس مقصد کے لیے ماہرین نے لیبارٹری میں تیار کیے گئے انسانی دماغی خلیات کو لیا اور ان میں ایس 2 ریسیپٹرز کی موجودگی کو دیکھا۔

یہ خلیات مرکزی اعصابی نظام کے متعدد اہم افعال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جبکہ خون اور دماغ کے درمیان موجود رکاوٹ کو برقرار رکھتے ہیں۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ان دونوں میں ایس ٹو ریسیپٹرز موجود ہوتے ہیں جس کے بعد دیکھا گیا کہ یہ وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں یا نہیں۔

اس مققصد کے لیے لیبارٹری تجربات کے دوران تدوین شدہ وائرس کے اسپائیک پروٹین کو استعمال کیا گیا اور دریافت کیا کہ وہ خلیات کو آسانی سے متاثر کرسکتا ہے۔

اسی طرح ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں محققین نے ایک منفرد لیبارٹری ماڈل تیار کیا تھا تاکہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے مختلف اقسام کے دماغی خلیات کو شناخت کیا جاسکے۔

انہوں نے دریافت کیا کہ دماغ کے glial خلیات کووڈ 19 سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

اس سے قبل glial خلیات اور نئے کورونا وائرس کے درمیان تعلق کے حوالے سے زیادہ تحقیقی کام نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ خلیات اعصابی خلیات کے درمیان رابطے کا کام کرتے ہیں، ایک حد قائم کرتے ہیں اور دماغ کو بیماریوں اور اعصابی خلیات کو نقصان پہنچانے والے کیمیکلز سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

اس سے قبل جنوری 2021 میں امریکا کی جارجیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ نتھنوں سے جسم میں داخل ہونے پر پھیپھڑوں کی بجائے براہ راست دماغ پر برق رفتار حملہ کرتی ہے، جس کے نتیجے میں شدت سنگین ہوتی ہے، چاہے پھیپھڑوں سے وائرس کلیئر ہی کیوں نہ ہوجائے۔

یہ تحقیق چوہوں پر کی گئی تھی مگر محققین کا کہنا تھا کہ نتائج کا اطلاق انسانوں میں سامنے آنے والی علامات اور بیماری کی شدت کو سمجھنے کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا یہ خیال کہ کووڈ نظام تنفس کی بیماری ہے، ضروری نہیں کہ درست ہو، ایک مرتبہ جب یہ دماغ کو متاثر کرلیتا ہے تو جسم کے ہر حصے کو متاثر کرسکتا ہے، کیونکہ دماغ ہمارے پھیپھڑوں، دل اور ہر چیز کو کنٹرول کرتا ہے، دماغ ایک بہت حساس عضو ہے۔

مگر امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں کووڈ سے ہلاک ہونے والے 40 افراد کے دماغی خلیات میں وائرل آر این اے یا پروٹینز کے نمونوں کو دریافت نہیں کیا جاسکا۔

جرنل برین میں شائع تحقیق میں شامل محققین کا کہنا تھا کہ سابقہ رپورٹس میں دماغی خلیات میں وائرس کی موجودگی پوسٹمارٹم کے دوران ممکنہ آلودگی کی وجہ سے ہوئی ہوگی۔

طویل المعیاد دماغی تنزلی کے امراض کا خطرہ

اس حوالے سے ابھی کچھ مصدقہ نہیں مگر ابتدائی تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا ہے کہ کووڈ 19 یادداشت کی کمزوری اور دماغی تنزلی کا باعث بن سکتی ہے اور ممکنہ طور پر الزائمر امراض کی جانب سفر تیز ہوسکتا ہے۔

جولائی میں الزائمر ایسوسی ایشن کی بین الاقوامی کانفرنس میں مختلف تحقیقی رپورٹس پیش کی گئی تھیں جن میں اشارہ دیا گیا کہ کورونا وائرس سے دماغی افعال پر دیرپا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں بالخصوص بزرگ افراد میں۔

ایک تحقیق کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تھی جس میں 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے 400 سے زیادہ ارجنٹائنی افراد کو شامل کیا گیا تھا جو کووڈ سے متاثر ہوئے تھے۔

تحقیقی ٹیم نے ان افراد کا معائنہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے 3 سے 6 ماہ بعد کیا تھا اور دماغی صلاحیتوں، جذباتی ردعمل اور دیگر کی جانچ پڑتال کی۔

محققین نے دریافت کیا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد کو یادداشت کے مسائل کا سامنا ہوا، 60 فیصد کے دماغی افعال پر منفی اثرات مرتب ہوئے جبکہ ہر 3 میں سے ایک میں علامات کی شدت سنگین تھی۔

تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ کی شدت سے دماغی مسائل کی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی، بلکہ مرض سے ہی ان مسائل کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، چاہے آپ جتنے زیادہ یا کم بیمار ہوں۔

محققین کے مطابق اگر بیماری کی شدت معمولی ہی کیوں نہ ہو لیکن کووڈ کے شکار ہیں اور معمر ہیں تو ان مسائل کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

اسی طرح سونگھنے کی حس سے محرومی بھی دماغی افعال کے مسائل سے جڑی ہوتی ہے، سونگھے کی حس سے محرومی کی شدت جتنی زیادہ ہوگی، دماغی افعال اتنے ہی زیادہ متاثر ہوں گے۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ کورونا وائرس سے ہونے والی دماغی تبدیلیاں مستقل ہوتی ہیں یا ان کو ریورس کیا جاسکتا ہے۔

دوسری تحقیق یونان کی ٹھیسلے یونیورسٹی کی تھی جس میں ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے 2 ماہ بعد کووڈ کے مریضوں کے دماغی افعال میں مسائل کا تجزیہ کیا گیا۔

اس تحقیق میں شامل افراد کی اوسط عمر 61 سال تھی اور ان میں بیماری کی شدت معمولی سے معتدل تھی۔

تحقیق میں یہ بھی جائزہ لیا گیا کہ دماغی تنزلی کس حد تک جسمانی فٹنس اور نظام تنفس کے افعال سے منسلک تھی۔

محققین نے دریافت کیا کہ مریضوں کو ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے 2 ماہ بعد دماغی تنزلی کا سامنا کررہے تھے جبکہ ان میں نظام تنفس کے افعال زیادہ خراب ہوچکے تھے۔

محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ طبی نگہداشت فراہم کرنے والوں کو دماغی تنزلی کو لانگ کووڈ کا حصہ سمجھنا چاہیے۔

تیسری تحقیق میں کووڈ کے مریضوں کے خون میں الزائمر کا خطرہ بڑھانے والے حیاتیاتی اشاروں کا تجزیہ کیا گیا تھا۔

اس مقصد کے لیے نیویارک یونیورسٹی لانگون ہیتھ میں زیر علاج رہنے والے 310 مریضوں کے پلازما نمونوں کو اکٹھا کیا گیا تھا۔

محققین نے دریافت کیا کہ الزائمر سے منسلک حیاتیاتی اشارے توقع سے زیادہ تھے اور یہ حیاتیاتی تبدیلیاں اس سے ملتی جلتی تھیں جو الزائمر اور دیگر دماغی امراض سے منسلک کی جاتی ہیں۔

تحقیق میں شامل افراد کی اوسط عمر 69 سال تھی اور محققین کا کہنا تھا کہ ہم یہ سمجھ نہیں سکے کہ لوگوں میں یہ حیاتیاتی تبدیلی کیوں آتی ہیں، ہم ابھی نہیں جانتے کہ اس کا تسلسل برقرار رہتا ہے یا نہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ کووڈ کے مریضوں میں الزائمر کی علامات اور اس مرض کی جانب سفر کی رفتار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

بیماری کی معمولی شدت بھی ذہنی مسائل کا خطرہ بڑھائے

ذہنی اور نفسیاتی علامات جیسے تھکاوٹ یا توانائی نہ ہونے کا احساس اور ڈپریشن کووڈ 19 کے مریضوں میں عام ہوتی ہیں، بالخصوص ایسے افراد میں جن میں بیماری کی شدت معمولی ہوتی ہے۔

لندن کالج یونیورسٹی کے ماہرین نے 215 تحقیقی رپورٹس میں فراہم کیے جانے والے شواہد کا تجزیہ کیا اور دریافت کیا کہ کووڈ 19 سے ذہنی اور دماغی صحت پر متعدد اقسام کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

محققین نے بتایا کہ ہمیں توقع تھی کہ ذہنی اور نفسیاتی اثرات کووڈ 19 کے سنگین کیسز میں زیادہ عام ہوں گے مگر اس کے برعکس ہم نے دریافت کیا کہ کچھ علامات اس سے معمولی بیمار ہونے والے افراد میں زیادہ عام ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بظاہر کووڈ 19 سے ذہنی صحت اور دماغ کا متاثر ہونا عام ہے۔

تحقیقی ٹیم نے 30 ممالک میں ہونے والی 215 تحقیقی رپورٹس کا منظم تجزیہ کیا جن میں ایک لاکھ 5 ہزار سے زیادہ کووڈ 19 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا۔

ان رپورٹس میں متعدد علامات کے بارے میں بتایا گیا تھا اور ان کے نتائج کا موازنہ ایک ڈیٹابیس سے کیا گیا۔

محققین نے دریافت کیا کہ سب سے عام ذہنی اور نفسیاتی علامات میں سونگھنے کی حس سے محرومی (43 فیصد)، کمزوری (40 فیصد)، تھکاوٹ (38 فیصد)، چکھنے کی حس سے محرومی (37 فیصد)، مسلز کی تکلیف (25 فیصد)، ڈپریشن (23 فیصد)، سردرد (21 فیصد) اور ذہنی بے چینی (16 فیصد) قابل ذکر تھیں۔

انہوں نے اہم دماغی امراض جیسے فالج (1.9 کیسز میں) اور برین ہیمرج (0.4 فیصد) کو بھی دریافت کیا۔

اس ڈیٹا میں کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد کی اکثریت تھی اور مجموعی طور پر ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے مریضوں پر توجہ مرکوز کی گئی تھی لیکن کچھ تحقیقی رپورٹس میں ہسپتال سے باہر موجود یعنی معمولی حد تک بیمار یا بغیر علامات والے افراد کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کے علامات والے ایسے کیسز جن میں مریضوں کو ہسپتال میں داخل نہیں کیا گیا ان میں بھی ذہنی اور نفسیاتی علامات عام تھیں۔

ایسے 55 فیصد مریضوں نے تھکاوٹ، 52 فیصد نے سونگھنے کی حس سے محرومی، 47 فیصد نے مسلز کی تکلیف، 45 فیصد نے چکھنے کی حس سے محرومی اور 44 فیصد نے سردرد کو رپورٹ کیا۔

محققین کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ معمولی حد تک بیمار افراد میں بھی ان علامات کی شرح سنگین حد تک بیمار ہونے والے مریضوں جتنی ہی ہو، مگر چونکہ ان کو طبی مراکز میں رپورٹ نہیں کرنا پڑتا تو درست شرح سامنے نہیں آپاتی۔

کووڈ 19 کی پیچیدگیوں اور وٹامن ڈی کی کمی میں تعلق ہے؟

سائنو فارم ویکسین کے بوسٹر ڈوز کی افادیت کا ڈیٹا سامنے آگیا

کووڈ کے ہر 3 میں سے ایک مریض کو طویل المعیاد علامات کا خطرہ ہوتا ہے، تحقیق