نقطہ نظر

پاکستان کرکٹ بورڈ کی تاریخ، رمیز راجہ کا انتخاب اور یادگار واقعات

کہانیاں تو بہت ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ بورڈ ہمیشہ سے آمرانہ رویے کا شکار رہنے کی وجہ سے تسلسل برقرار نہیں رکھ سکا ہے۔

پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد 14 اگست 1947ء سے ہی اس نوزائیدہ ملک کو منظم کرنے کے لیے ایک ملک گیر مہم کا آغاز کیا گیا۔ اس مہم میں ان تمام اداروں کو بروئے کار لایا گیا جو ملک کو آگے بڑھانے اور قائم رکھنے میں معاون ہوسکتے تھے۔ ان اداروں میں کھیلوں کا شعبہ بھی شامل تھا۔

یوں کرکٹ، ہاکی، اسکواش اور فٹبال جیسے کھیل جنہیں مشہور کھیلوں میں شمار کیا جاتا ہے ان کی تشکیل کی گئی۔ ساتھ ہی مختلف صوبوں میں بھی کھیلوں کے فروغ کو اہمیت دی جاتی رہی۔

پاکستان نے ہاکی میں اولمپک گولڈ میڈل حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ورلڈ کپ اور ایشیا کپ جیتنے کے اعزاز بھی حاصل کیے۔ پاکستان نے اسکواش کی دنیا میں ہاشم خان، اعظم خان، روشن خان اور جہانگیر خان جیسے عالمی چیمپئن پیدا کیے۔ اس کے علاوہ 1992ء میں کرکٹ ورلڈ کپ بھی جیتا۔ ہاکی کے علاوہ پاکستان میں زیادہ توجہ کرکٹ پر دی گئی اور موجودہ دور میں اب ساری ہی توجہ صرف اور صرف کرکٹ پر مرکوز ہے۔

آج جس ادارے کو پی سی بی یعنی پاکستان کرکٹ بورڈ کے نام سے جانا جاتا ہے اس کا آغاز 49ء-1948ء میں بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ اِن پاکستان یعنی بی سی سی پی کے نام سے ہوا تھا۔ اس طویل عرصے میں بورڈ نے کئی عظیم لمحات بھی دیکھے اور کئی بحران بھی۔ یہ طویل تاریخ اور حادثات کی کہانی دلچسپ بھی ہے اور ہنسا دینے والی بھی۔ ان تمام لمحات پر روشنی ڈالنا اس لیے ممکن نہیں ہوگا کہ اس طویل داستان کو لکھنے کے لیے بھی بہت وقت درکار ہوگا۔ لہٰذا میں یہی کوشش کروں گا کہ خود کو کرکٹ بورڈ کی تشکیل اور اس کی کارکردگی کے اصولوں تک محدود رکھوں۔

پاکستان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ملک کے وجود میں آنے کے بعد یہاں تقریباً تمام بڑے شہروں میں ہی کرکٹ کی مقبولیت، اس کا سیٹ اپ، کھلاڑی اور کھیل کے میدان پہلے سے ہی موجود تھے۔ لاہور اور کراچی کرکٹ کے مراکز رہے اور اب بھی ان کی یہ حیثیت برقرار ہے۔ 1948ء سے ہی سیلون جو کہ اب سری لنکا کہلاتا ہے اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں نے یہاں آنا شروع کردیا تھا۔ لہٰذا 49ء-1948ء میں بی سی سی پی کو تشکیل دیا گیا اور اس کا پہلا صدر نواب افتخار حسین خان ممدوٹ کو مقرر کیا گیا۔

روایت ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ ملک کے صدر بورڈ کے سرپرست ہوں گے اور وہی بورڈ کے صدر یا چیئرمین کو منتخب کریں گے۔ جو بھی بورڈ کی سربراہی سنبھالے گا وہ بورڈ کے سیکریٹری اور دیگر افسران کا انتخاب کرے گا۔ چیئرمین کی مدد ایک ایگزیکٹو کمیٹی کرے گی جس میں مختلف صوبوں کے کرکٹ کے عہدے دار فیصلے کریں گے، تاہم زیادہ تر فیصلے وہی ہوتے تھے جو بورڈ کے صدر کی مرضی کے ہوں۔

معاملات اب بھی کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ ماضی میں بھی صدرِ پاکستان بورڈ کے سرپرست کی حیثیت سے جسے بورڈ کی سربراہی دیتے وہ اپنی مرضی سے جو چاہتا وہ کرتا تھا۔ آج بھی صورتحال تقریباً ایسی ہی ہے۔

ماضی کی نسبت اب یہ فرق آگیا ہے کہ ایگزیکٹو کمیٹی کی جگہ گورننگ بورڈ نے لے لی ہے اور کرکٹ بورڈ کا سربراہ اب صدر کے بجائے چیئرمین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ صدرِ مملکت بھی اب بورڈ کے سرپرست نہیں رہے۔ نواز شریف کی وزارتِ عظمٰی کے دور سے بورڈ کی سرپرستی وزیرِاعظم کرنے لگے۔ موجودہ وزیرِاعظم عمران خان اب بورڈ کے سرپرست ہیں اور وہی پی سی بی کے چیئرمین کا انتخاب کرتے ہیں۔ سابق چیئرمین احسان مانی اور موجودہ چیئرمین رمیز راجا کو بھی وہی لے کر آئے۔

ملک میں جب بھی حکومت تبدیل ہوتی ہے یا تختہ الٹا جاتا ہے تو کرکٹ بورڈ بھی اس کا شکار بنتا ہے۔ یہ بات سننے میں تو مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے تاہم روایت یہی رہی ہے۔ نواب ممدوٹ سے لے کر اب تک بورڈ کے معاملات ایک غیر یقینی کا شکار رہے ہیں۔

1960ء، 1977ء، 1994ء اور 1999ء میں بورڈ کے حالات اور کارکردگی اتنی ناقص ہوگئی کہ اس ادارے پر ایڈہاک لگادی گئی۔ ہر طبقے سے بورڈ کے صدر اور چیئرمین مقرر کیے جاتے رہے۔ سیاست دان، بزنس مین، صحافی اور ساتھ ہی ساتھ جرنل بھی صدر یا چیئرمین کی حیثیت سے بورڈ سے منسلک رہے ہیں۔

ایک جرنل زاہد علی اکبر بورڈ کے چیئرمین کے علاوہ واپڈا کے چیئرمین بھی تھے۔ وہ اربوں روپے کی خرد برد کرکے بیرونِ ملک چلے گئے اور 10، 12 سال بعد انہیں انٹرپول کی مدد سے واپس لایا گیا۔ انہوں نے کروڑوں روپے ملک کو واپس کرکے اپنی جان چھڑائی۔

میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جب لیفٹننٹ جنرل صفدر بٹ صاحب کو بورڈ کا سربراہ بنایا گیا تو انہوں نے بیان میں کہا کہ ’میں تو کرکٹ نہیں جانتا، نہ ہی کبھی کھیلا ہوں۔ لیکن کوشش کروں گا کہ میں اس کھیل سے واقف ہوجاؤں‘۔

ان کے ہوتے ہوئے ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ 1987ء میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلی جانے والی ٹیسٹ سیریز کا ایک میچ فیصل آباد میں کھیلا جارہا تھا جس میں انگلینڈ کے کپتان مائیک گیٹنگ اور پاکستانی امپائر شکور رانا کے درمیان ایک فیصلے پر تنازعہ ہوا جو ایک بین الاقوامی تنازعے کی صورت اختیار کرگیا۔

شکور رانا اور مائیک گیٹنگ کا تنازعہ

جب بیچ بچاؤ ہوا تو کرکٹ بورڈ نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) اور انگلینڈ کرکٹ بورڈ کو بھیجنے کے لیے پاکستانی کمنٹیٹر عمر قریشی اور سابق کھلاڑی یاور سعید سے ایک رپورٹ لکھوائی۔ رپورٹ بھیجنے سے قبل سابق ٹیسٹ کرکٹر حسیب احسن جو سیلیکشن کمیٹی کے چیئرمین بھی تھے، انہوں نے صفدر بٹ سے کہا کہ اس رپورٹ کو قمر احمد سے پڑھوالیں تاکہ خامیاں دُور ہوجائیں۔ بقول ان کے ’قمر احمد نے اس سیریز کی رپورٹنگ کی ہے لہٰذا وہ تفصیلات سے واقف ہوں گے‘۔

یوں میں کراچی سے لاہور لے جایا گیا۔ بورڈ کے صدر صفدر بٹ نے مجھ سے کہا کہ ’قمر صاحب یہ کیا بات ہے کہ تمام صحافی مجھ سے ملتے رہتے ہیں لیکن آپ بی بی سی کے نمائندے ہوتے ہوئے کبھی مجھ سے نہیں ملے؟‘ میں نے انہیں یاد دلایا کہ آپ نے عہدہ سنبھالتے ہوئے فرمایا تھا کہ آپ کو کرکٹ نہیں آتی۔ میں اسی لیے آپ سے نہیں ملا کہ آپ کا وقت ضائع نہ کروں۔ وہ ندامت سے بے حد شرمندہ ہوئے۔

بورڈ کے صدر کے خلاف بغاوتیں بھی ہوچکی ہیں۔ 1977ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف حیدرآباد ٹیسٹ میں ٹیم نے مشتاق احمد کی قیادت میں بورڈ کے صدر عبد الحفیظ کاردار جو سابق کپتان بھی تھے، ان کے خلاف بغاوت کردی۔ وجہ یہ تھی کہ انہوں نے کھلاڑیوں کے پیسے اور فیس بڑھانے کی درخواست مسترد کردی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے مصالحت کے بعد کھلاڑیوں نے میچ کھیلا لیکن سیریز کے بعد کاردار جو پیپلز پارٹی کی جانب سے ہی بورڈ کے صدر بنائے گئے تھے انہیں وزیرِ کھیل حفیظ پیرزادہ اور وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے فارغ کردیا۔

ذکا اشرف کو پیپلزپارٹی کی جانب سے بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا تو ان پر نواز شریف کی حکومت نے مقدمہ کردیا کہ وہ ناجائز طریقے سے بورڈ کے چیئرمین بنے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ذکا اشرف کو برطرف کردیا اور مسلم لیگ (ن) کے نجم سیٹھی چیئرمین بنادیے گئے۔ ذکا اشرف نے فیصلے کے خلاف اپیل کی اور فیصلہ ان کے حق میں آیا اور وہ پھر چیئرمین ہوگئے۔ تاہم جب نواز شریف کی حکومت دوبارہ آئی تو وہ پھر باہر کردیے گئے اور نجم سیٹھی پھر چیئرمین بن گئے۔

ایک بار تو یوں ہوا کہ نواز شریف نے بورڈ کے سربراہ ہوتے ہوئے اپنے چہیتے سیف الرحمٰن جن کی لاہور میں ادویات کی دکان تھی، ان کے چھوٹے بھائی مجیب الرحمٰن کو بورڈ کا چیئرمین بنادیا۔ اس وقت ٹیم کا لوگو جو ایک ستارہ ہے اسے کیپ اور بلیزر پر سے تبدیل کرکے ایک مضحکہ خیز لوگو بنوادیا۔ اس لوگو میں ایک گیند اور دور اسٹک لگادی گئیں۔ لوگوں نے شور مچایا تو کیپ اور بلیزر پر ستارہ واپس آگیا اور دو مہینے بعد مجیب الرحمٰن کی چھٹی ہوگئی۔

جنرل مشرف کے دور میں ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے اپنے دوست ڈاکٹر نسیم اشرف کو امریکا سے بلوا کر بورڈ کا چیئرمین بنادیا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے ایک زمانے میں معین الدین قریشی کو امریکا سے بلاکر پاکستان کا وزیرِاعظم بنایا گیا۔

کہانیاں تو بہت ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ بورڈ ہمیشہ سے آمرانہ رویے کا شکار رہنے کی وجہ سے تسلسل برقرار نہیں رکھ سکا ہے۔

چند روز قبل ہی پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) میں کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ سابق پاکستانی کرکٹر اور کپتان رمیز راجا نے 13 ستمبر 2021ء کو بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ یہ بورڈ کے 36ویں صدر سربراہ ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بورڈ کے چند ایسے صدور یا چیئرمین بھی گزرے ہیں کہ جو 2 اور 3 بار اس منصب پر فائز رہے۔ ان افراد میں شہریار خان صاحب، نجم سیٹھی صاحب اور جناب ذکا اشرف شامل ہیں۔

رمیز راجا 57 ٹیسٹ اور 198 بین الاقوامی ایک روزہ میچ کھیلے ہوئے ہیں، تعلیم یافتہ ہیں اور اچھے کمنٹیٹر رہ چکے ہیں۔ عہدہ سنبھالتے ہی انہوں نے دو اچھے فیصلے کیے ہیں۔ پہلا فیصلہ تو جنوبی افریقہ کے ویرنن فلینڈر کو باؤلنگ کوچ اور آسٹریلیا کے میتھیو ہیڈن کو بیٹنگ کوچ بنانے کا ہے۔ دونوں ہی تجربہ کار کھلاڑی رہ چکے ہیں۔

رمیز راجا کا دوسرا اہم فیصلہ ڈومیسٹک کرکٹ میں کھلاڑیوں کی فیس بڑھانے کا ہے۔ یہ دونوں فیصلے سراہے جارہے ہیں۔ امید ہے کہ ان کی موجودگی پاکستان کی کرکٹ کے لیے مفید ثابت ہوگی اور آمرانہ رویے کو بالائے طاق رکھ دیا جائے گا۔ توقعات تو یہی ہیں کہ کرکٹ کو فروغ دینے میں رمیز راجا مثبت انداز میں اقدامات اٹھائیں گے۔

قمر احمد

قمر احمد بطور صحافی 450 ٹیسٹ میچ کور کر چکے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس کے علاوہ آپ 740 ون ڈے میچز اور 12 میں سے 9 آئی سی سی ورلڈ کپ کور کرچکے ہیں۔ آپ نے 32 سال تک بی بی سی انگریزی، اردو اور ہندی سروس کے لیے کرکٹ رپورٹنگ کی ہے۔علاوہ ازیں آپ رائٹرز، اے ایف پی، دی ٹائمز، دی ڈیلی ٹیلی گراف لندن اور دی گارجئین جیسے اداروں سمیت وسڈن الماناک دی بائبل آف دی گیم کے لیے بھی رپورٹنگ کرچکے ہیں۔ آپ کی خود نوشت سوانح حیات ’فار مور دین اے گیم‘ کےعنوان سے شائع ہوئی ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔