نقطہ نظر

روپے کی تیزی سے گھٹتی قدر کی کیا وجوہات ہیں؟

ممکنہ طور پر مستقبل میں زرمبادلہ کی منڈیوں میں سرگرمیاں تیز ہوجائیں گی اور روپے کی قدر کو 170 سے نیچے برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔

حالات شاید ہمارے اندازے سے کہیں زیادہ تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ تیز رفتار ترقی (اگر ہم اسے یہ کہہ سکتے ہیں) اپنی ہی پیدا کی ہوئی مشکلات کا شکار ہے جن میں سب سے اہم چیز بیرونی قرضے ہیں۔

تازہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر ہونے والی پیداوار کی رفتار برقرار رکھنے میں بھی مشکل پیش آرہی ہے۔ کچھ صنعتوں کو گزشتہ سال جولائی کی سطح برقرار رکھنے میں بھی مشکل ہورہی ہے حالانکہ اُس وقت تو کورونا لاک ڈاؤن کے اثرات بھی باقی تھے۔

ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر کو سہارا فراہم کرنے کے لیے جون کے وسط سے ستمبر کے پہلے ہفتے تک ایک1 ارب 20 کروڑ ڈالر انٹر بینک مارکیٹ میں داخل کیے۔ یہ معلومات ہمیں ایک نڈر رپورٹر شہباز رانا کی خبر سے ملیں۔

اس خبر سے مارکیٹ میں کئی سوالات نے جنم لیا۔ کسی نے سوال کیا کہ ’کیا وقعی ایسا ہوسکتا ہے؟‘ کیونکہ یہ رقم اتنی بڑی ہے کہ اسے اتنے وقت تک چھپایا نہیں جاسکتا تھا۔ اور اگر ایسا ہوا بھی ہے تو ان اعداد و شمار کو کس نے لیک کیا اور اس کا مقصد کیا تھا؟

اس خبر کے بعد اس حوالے سے خوب باتیں ہونے لگیں کہ روپے کی قدر کہاں تک جائے گی اور شرح سود کس سمت میں جائے گی۔ کچھ دنوں سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 170 کے آس پاس ہی ہے اور یہ اس سطح کو چُھو کر اس سے کچھ نیچے بند ہوا۔ مئی کے بعد سے روپے کی قدر میں 10 فیصد کمی آچکی ہے اور اس کی بنیادی وجہ بڑھتا ہوا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے۔

مزید پڑھیے: معاشی اعتبار سے وزیراعظم عمران خان کے 3 سال

حقیقت تو یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کم از کم جنوری 2021ء سے ہی انٹر بینک میں ڈالر فروخت کر رہا ہے۔ تاہم عوامی سطح پر دستیاب معلومات سے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ یہ رقم کتنی بنتی ہے۔ زرِمبادلہ کی منڈیوں میں اسٹیٹ بینک کی فارورڈ پوزیشن کے اعداد و شمار سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ ان مہینوں میں بڑے پیمانے پر فروخت ضرور ہوئی ہے۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ ان اعداد و شمار کے حوالے سے احتیاط برتی جائے کیونکہ اس کو سمجھنا بنیادی ریاضی کو سمجھنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔

جو ممالک آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہوتے ہیں ان پر آئی ایم ایف کی جانب سے اس قسم کی فروخت پر پابندی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن مہینوں میں ملک آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ تھا ان مہینوں میں یہ فروخت نہیں ہوئیں۔ لیکن اب کہیں کسی نے بلی کو تھیلے سے باہر نکال دیا ہے اور اس بات کو پبلک کردیا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے روپے کو سہارا دینے کے لیے انٹربینک مارکیٹ میں ایک ارب 20 کروڑ ڈالر فروخت کیے اور اس قدم کے بہت محدود نتائج ہی برآمد ہوئے۔ ممکنہ طور پر آنے والے دنوں میں زرِمبادلہ کی منڈیوں میں سرگرمیاں تیز ہوجائیں گی اور روپے کی قدر کو 170 سے نیچے برقرار رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا۔

یہاں ایک مشکل کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی بھی ہے جو دسمبر 2020ء میں سامنے آیا اور اس کے بعد سے اس میں مستقل اضافہ ہی ہورہا ہے۔ لیکن جولائی سے دسمبر کے دوران دو چوتھائی سرپلس کے باوجود اس کے بعد سے خسارے میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ اس کے باوجود بھی یہ سال کے اختتام پر ایک ارب 82 کروڑ کی قابلِ انتظام حد تک ہی رہا۔ تاہم اس وقت مستقبل کچھ اچھا نظر نہیں آرہا۔

اسٹیٹ بینک اور وزیرِ خزانہ کے مطابق انہیں امید ہے کہ یہ ان کے کنٹرول میں رہے گا اور جی ڈی پی کے 2 سے 3 فیصد کے اندر ہی ہوگا۔ تاہم میں نے جن بینکاروں سے بات کی ہے ان کے اپنے تخمینے ہیں اور ان کے مطابق یہ شرح حکومتی اندازوں سے دگنی ہوگی۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو حکومتوں کی جانب سے اپنے خساروں کا درست تخمینہ بتانے کے حوالے سے ریکارڈ کچھ اچھا نہیں ہے خاص طور پر اس عرصے میں تو بالکل بھی نہیں جس عرصے میں وہ ترقی کی رفتار کو بڑھانا چاہتے ہیں۔

اس پوری صورتحال میں ایک اور چیز کا اضافہ کرلیں۔ افغانستان کے مختلف شہروں میں ڈالر بھیجے جارہے ہیں اور منی چینجرز کے مطابق وہاں یہ 175 سے 180 روپے میں فروخت ہورہے ہیں۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں اور ہر کوئی منی چینجرز سے ملنے والی معلومات یا اپنے رشتہ داروں سے سنی جانے والی کہانیوں پر ہی مفروضے قائم کررہا ہے۔

یہ مفروضے کچھ بھی ہوں بہرحال ملک سے باہر جانے والے ڈالر اتنے نہیں ہیں کہ جس سے روپے کی قدر میں کمی آئے۔ (منی چینجرز نے مجھے زبانی طور پر بتایا کہ 15 اگست سے روزانہ 20 سے 40 لاکھ ڈالر کی منتقلی ہو رہی ہے) لیکن پھر بھی یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ یہ ترسیل غیر معینہ مدت تک جاری ہے گی کیونکہ منی چینجرز کو بھی بدلے میں کوئی چیز درکار ہوگی۔ اس وقت تو وہ ڈالر کے بدلے میں صرف پاکستانی روپیہ حاصل کررہے ہیں اور افغانستان میں اس کا ایک محدود ذخیرہ ہی گردش میں رہتا ہے۔ ایک بار جب یہ ذخیرہ ختم ہوجائے گا تو پھر مشکل ہے کہ پاکستان سے افغانستان ڈالر بھیجے جائیں۔

مزید پڑھیے: کاروباری افراد سرمائے کیلئے بینک کے بجائے اسٹاک مارکیٹ کا رخ کیوں کر رہے ہیں؟

بیرونی تجارت کے شعبے میں اس وقت ہلچل مچی ہوئی ہے اور روپے کی قدر پر پڑنے والے اس کے اثرات اس بات کا واضح اظہار ہیں کہ حکام کو حالات کنٹرول کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ اگر روپے کی قدر کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ تمام تر ترقی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

پاکستان میں وسیع استحکام کی 4 بنیادیں ہیں یعنی شرح سود، روپے کی قدر، زرِمبادلہ کے ذخائر اور قرضے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ سے یہ چاروں عناصر اپنی جگہ پر قائم نہیں رہ سکتے اور ان میں سے کچھ میں ضرور تبدیلی آئے گی۔

اب تک تو شرح سود کو برقرار رکھا گیا ہے اور زرِمبادلہ جمع کرنے پر بھی کام کیا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس خسارے کا اثر سب سے پہلے روپے کی قدر اور پھر قرضوں پر پڑے گا۔ اگر حالات اسی رخ پر چلتے رہے تو دیگر عناصر میں بھی تبدیلی آئے گی، ہاں اگر ہم ڈالر کو 180 سے آگے جاتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں تو اور بات ہے۔ اب جلد ہی یہ سوال پوچھا جانے لگے گا کہ کیا حکومت جس ترقی کے لیے زور دے رہی ہے اسے برداشت بھی کرسکتی ہے؟


یہ مضمون 16 ستمبر 202ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔