پاکستان

دنیا کو ماننا پڑے گا پاکستان نے دہشت گردی کا بہت بہادری سے مقابلہ کیا، صدر مملکت

طالبان رہنماؤں کے بیانات حوصلہ افزا ہیں، افغانستان کی تعمیر و ترقی میں دنیا اپنا کردارادا کرے، مشترکہ پارلیمانی اجلاس سے خطاب

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے مشترکہ پارلیمانی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو ماننا پڑے گا کہ پاکستان نے دہشت گردی کا بہت بہادری سے مقابلہ کیا۔

وہ قومی اسمبلی کے چوتھے پارلیمانی سال کے آغاز کے موقع پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔

خیال رہے کہ آئین کے آرٹیکل 56 (3) کے تحت پارلیمانی سال کے آغاز کے لیے صدارتی خطاب لازمی ہے۔

صدر مملکت کے خطاب کے دوران ایوان میں شور شرابا دیکھنے میں آیا اور اپوزیشن اراکین احتجاج کرتے ہوئے حکومت مخالف نعرے لگاتے رہے۔

پارلیمان میں صدارتی خطاب کے موقع پر وزیراعظم عمران خان بھی ایوان میں موجود تھے، ان کے علاوہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی شریک ہوئے۔

صدر عارف علوی نے نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر اراکین پارلیمنٹ کو مبارکباد دیتے ہوئے اپنی تقریر کا آغاز کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں جمہوری اقدار اور "رواداری کی روایت" پروان چڑھے۔

یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: صدر کے خطاب کے دوران احتجاج کا امکان

ہمسایہ ملک افغانستان میں گزشتہ ماہ کے وسط میں آنے والی تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ طالبان رہنماؤں کے بیانات حوصلہ افزا ہیں، افغانستان کی تعمیر و ترقی میں دنیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو ماننا پڑے گا کہ پاکستان نے دہشت گردی کا بہت بہادری سے مقابلہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا کے منفی اثرات کے باعث دنیا کی تمام معیشتیں سکڑ گئیں تمام حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت دنیا کے مقابلے میں بہتر رہی۔

'اپوزیشن شور مچالے مگر حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی'

ایوان میں اپوزیشن کے شور شرابے پر رد عمل دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کتنا بھی شور مچالے، حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی، مالی سال 2021 کے دوران پاکستان کی برآمدات، ترسیلات زر میں اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے ایشیا کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے، حکومت کے اقدامات کے باعث عالمی بینک نے کاروبار میں آسانیوں میں پاکستان کی درجہ بندی بہتر کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا، موجودہ مالی سال کے 2 مہینوں میں بھی ہدف سے 160 ارب زیادہ اکٹھے کرلیے گئے ہیں۔

صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ’عوام کی جانب سے بڑے پیمانے پر ٹیکس جمع کرانا اور ترسیلات زر بھیجنا حکومتی پالیسیوں پر عوام کا اطمینان کا اظہار کرتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کو بات سمجھ آگئی ہے، ایوان میں بھی لوگوں کو سمجھ آجانی چاہیے۔

مزید پڑھیں: صدر عارف علوی 13 ستمبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

انہوں نے بتایا کہ ملک میں ’تعمیراتی شعبے میں تاریخی ترقی ہوئی ہے جس کا سہرا وزیر اعظم عمران خان کو جاتا ہے‘۔

'حکومت نے آئی ٹی پر خصوصی توجہ دی'

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کے آئی ٹی شعبے پر خصوصی توجہ کی وجہ سے اس کی برآمدات میں 47 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، پاکستان میں نوجوانوں کو تربیت و روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے بھی عملی اقدامات کیے جارہے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ امر قابل تحسین ہے کہ حکومت کے شروع کیے گئے ڈیجی اسکلز کے نام سے پروگرام سے 17 لاکھ نوجوانوں کو تربیت دی جاچکی ہے جس میں اکثریت 18 سے 29 سال کے نوجوان ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے فری لانسرز نے اب تک 20 کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ کمایا ہے۔

صدر مملکت کا کہنا تھا کہ آرٹیفشل انٹیلی جنس، کلاؤڈ کمپیوٹنگ سمیت دیگر ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے تیز رفتار ترقی کا امکان ہے۔

'ذہانت کے اعتبار سے پاکستانی قوم کسی سے پیچھے نہیں'

انہوں نے کہا کہ ذہانت کے اعتبار سے پاکستانی قوم دنیا کی کسی قوم سے پیچھے نہیں ہے، ہمارے نوجوان اپنی ذہانت کو بروئے کار لاکر سائبر سیکیورٹیز کے چیلنجز سے احسن طریقے سے قابو پانے میں مدد کریں گے۔

انسانی وسائل پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کرپشن کے ناسور کی وجہ سے ہم سماجی ترقی کے تمام اشاریوں میں دنیا سے پیچھے رہے، ٹیلنٹ اور میرٹ کی کوئی قدر نہیں کی گئی جس کی وجہ گورننس کمزور ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کا تصور صرف سرحدوں تک محدود نہیں بلکہ ماحول خوراک تعلیم و صحت بھی قومی سلامتی کے جامع تصور کے تحت مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے کمزور اور نادار طبقے کے لیے احساس پروگرام جیسے سماجی تحفظ کا پروگرام سامنے لائی ہے، حکومت نے لوٹ مار سے ہٹ کر انسانوں کو ترجیح دی ہے۔

ملک میں بیروزگاری کے مسائل کے حل کے لیے حکومتی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا ایک اور بہترین کام کامیاب جوان پروگرام ہےجس کے ذریعے ملک کے نوجوانوں کو 15 ارب سے زائد کی رقم 14 ہزار سے زائد کاروبار شروع کرنے کے لیے فراہم کیا جاچکا ہے۔

صدر مملکت نے بتایا کہ حکومت نے صحت کے مسائل کے حل کے لیے مفت علاج فراہم کرنے میں بھی سرگرم عمل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: رپورٹرز کا صدر کے خطاب کے بائیکاٹ کا اعلان

انہوں نے کہا کہ بہت جلد ملک کی مکمل آبادی تک یہ صحت کا پروگرام پہنچا دیا جائے گا، حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ ٹیلی میڈیسن پر توجہ دی جائے تاکہ ہسپتالوں کے چکر سے بچا جاسکے۔

'ہائرایجوکیشن میں خصوصی افراد کے لیے پالیسی'

ان کا کہنا تھا کہ ہائیر ایجوکیشن نے خصوصی افراد کے لیے پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے ملک بھر کے جامعات میں ٹیوشن فیس اور ہوسٹل فیس مکمل معاف کرنے کا اعلان کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک ان پڑھ انسان صرف بوجھ اٹھا سکتا ہے، تعلیم یافتہ شخص اپنی اور قوم کی معیشت کو بڑھاتا ہے۔

'خواتین کے حقوق'

صدر مملکت نے بتایا کہ حکومت نے جنسی زیادتی کے کیسز سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کی ہے تاہم اس کے علاوہ معاشرے کی ذمہ داری ہے جہاں ایسی چیزیں دیکھے تو اسے روکیں۔

ان کا کہنا تھا کہا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے چند حصوں میں خواتین کو وراثتی حقوق سے دور رکھا جاتا ہے، اس کے لیے حکومت نے خواتین کے ملکیتی حقوق کا ایکٹ منظور کیا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے 10 ارب درختوں کے سونامی اور کلین اینڈ گرین پاکستان جیسے پروگراموں کو ’ووٹ کے لیے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں‘ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔

'الیکٹرانک ووٹنگ مشین شفافیت لائے گی'

انہوں نے انتخابات میں شفافیت لانے کے لیے انتخابی اصلاحات متعارف کرانے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں ایک اہم ٹول ہے جو شفافیت لائے گی، بروقت نتائج دیں گی اور ووٹر کی شناخت کو خفیہ رکھیں گی، میں درخواست کر رہا ہوں کہ اسے سیاسی فٹ بال نہ بنائیں کیونکہ اس کا تعلق ملک کے مستقبل سے ہے‘۔

صدر عارف علوی نے کہا کہ حکومت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو آئی ووٹنگ جیسے سیاسی عمل میں شامل کرنے کے لیے بھی اقدامات کر رہی ہے، امید ہے کہ تمام جماعتیں اس سلسلے میں تعاون کریں گی۔

'پڑوسیوں سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں'

خارجہ پالیسی کے معاملات کی بات کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ بھارت کشمیریوں کی ’نسلی کشی‘ کر رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ بے انتہا ناانصافی ہورہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں تھا تاہم بھارت نے اس خواہش کو کمزوری سمجھا۔

ان کا کہنا تھا کہ فروری 2019 میں بھارت نے ہماری فضائی خودمختاری کی خلاف ورزی کی تو ہم نے مناسب جواب دیا اور ان کا طیارہ مار گرایا اور ان کا پائلٹ واپس کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’میں بھارت کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ظلم کو روکے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے وعدے کو پورا کرے‘۔

صدر مملکت نے کہا کہ خطے کا استحکام بھارت کے بڑھتے ہوئے ہندوتوا اثر و رسوخ سے خطرے میں ہے، دنیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بھارت پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔

'پاکستان نے علاقائی امن کے لیے بڑا کردار ادا کیا'

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ پاکستان نے علاقائی امن کے لیے بڑا کردار ادا کیا ہے اور چاہتا ہے کہ افغانستان کی نئی طالبان حکومت ’لوگوں کو متحد کرے، عام معافی کو اختیار کرے جیسا کہ فتح مکہ کے وقت دیکھا گیا تھا اور اس بات کی یقین دہانی کرے کہ وہ کسی بھی پڑوسی ملک کے لیے خطرہ نہ بنے‘۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کو افغان عوام کو چھوڑنا نہیں چاہیے، ان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے، دنیا کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وزیر اعظم عمران خان اور پاکستان کے مشورے (افغانستان کے حوالے سے) درست ثابت ہوئے۔

صدر مملکت نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اپنی اقتصادی ترقی کے لیے جیو اکانومکس اور علاقائی رابطے پر توجہ دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم چین کے ساتھ تعلقات کو بڑے احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اور انہیں مضبوط بنانا چاہتے ہیں، میں بھارت کو یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کبھی اپنے اہداف میں کامیاب نہیں ہوگا اور پاک چین دوستی مضبوط تر ہوتی رہے گی‘۔

اپوزیشن کا احتجاج اور بائیکاٹ

صدر مملکت کے خطاب کے دوران اپوزیشن کے اراکین اسمبلی اسپیکر ڈائس کے سامنے کھڑے ہوگئے اور شدید نعرے بازی کی۔

شور شرابے کے دوران صدر مملکت نے کئی مرتبہ اپوزیشن کی توجہ اپنے خطاب کی جانب مبذول کرانے کی کوشش بھی کی تاہم بعد ازاں اپوزیشن نے اسمبلی سے واک آؤٹ کردیا۔

یاد رہے کہ آئینی طور پر لازم صدارتی خطاب کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان اور قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کے درمیان ملاقات میں کیا گیا تھا۔

دوسری جانب پارلیمان کے باہر اور پارلیمان کے اندر صحافتی تنظیموں کی جانب سے صحافیوں پر مسلسل جسمانی حملوں، میڈیا اداروں سے جبری برطرفیوں، میڈیا ملازمین کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور حکومت کی جانب سے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے قیام کی تجویز کے خلاف احتجاج کررہی ہیں۔

قبل ازیں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔

اقوام متحدہ کا افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کیلئے 60 کروڑ ڈالر کا مطالبہ

سقوطِ کابل کے بعد پی آئی اے کی افغانستان کیلئے پہلی چارٹرڈ کمرشل پرواز

خاتون نے شہزادہ اینڈریو کو ’جنسی استحصال‘ کے مقدمے کا نوٹس بھیج دیا